جب سے یہ زندگی ملی ہے ہمیں چبھ رہا ہے غبار آنکھوں میں آئینہ دل میں ٹوٹ جاتا ہے کرچیوں کا شمار آنکھوں میں بے بسی ہائے تمنا مت پوچھ جم گیا انتظار آنکھوں میں اک سودا ہمارے ذہن میں ہے اور اس کا خمار آنکھوں میں کر رہا ہے پناہ گاہیں تلاش دل افسردہ […]
دل رنجیدہ کو اکثر یہی سمجھاتے ہیں جو بھلا کرتے ہیں کب اس کا صلہ پاتے ہیں کہتے ہیں دشت کا سناٹا یہاں پر بھی ہے آج کی شب چلو ہم شہر میں رہ جاتے ہیں درد کی لہروں سے بنتے ہیں صحیفے جتنے ہجر کی شب دل مخروں پہ اتر آتے ہیں وسعت آئینہ […]
ہم جس سے ڈر رہے تھے وہی بات ہو گئی اس کی نظر کی چال سے شہ مات ہو گئی کیا میکدہ وہ کوچہ جاناں پہنچ گئے واعظ سے کل وہیں پہ ملاقات ہو گئی ہر لمحہ سوچ سوچ کے کار جہاں کیا معلوم یہ ہوا کہ خرافات ہو گئی دوشِ صبا پہ رقص کناں […]
تجھ سے بچھڑ کے تنہا نہ چلتے پر کیا کریں دل نے قبول ہی نہ کیا ہمسفر کوئی ساحل پہ ساری عمر بھی بیٹھے رہو تو کیا کب آشنا ہوئی ہے کسی کی لہر کوئی فرصت نہیں ہے جیب و گریباں سے ہاتھ کو کیا تازہ واردات میں اب پیٹے سر کوئی اس دور کی […]
ایسی تاریکی ہے کہ نام بجھے جاتے ہیں شام ہی سے یہ در و بام بجھے جاتے ہیں روشنی داغ جگر میں نہیں اب باقی کوئی ہم نے جو پائے تھے انعام بجھے جاتے ہی نہ کرن کوئی امیدوں کی نہ دن باقی ہے دل نے پھیلائے تھے جو دام بجھے جاتے ہیں میکدہ تو […]
دنیا میں ہنگامہ برپا لگتا ہے بچے شور کریں تو اچھا لگتا ہے اب تو سفر کی عادت ایسی ہو گئی ہے کبھی کبھی تو گھر بھی رستہ لگتا ہے جب سے آ کے ہم نے خیمے گاڑے ہیں یہ ویرانہ بھی اب کیسا لگتا ہے اس کے جھوٹ پہ غصہ تو آتا ہے مگر […]
بے اثر ٹھہری مسیحا کی دعا میرے بعد زخم کو باقی نہیں کوئی گلہ میرے بعد میں ہی آیا ہوں سر دشت تمنائے وصال ہے لہو رنگ ہر اک گل کی قبا میرے بعد جانے کیوں ضائع ہوئی دید تر کی شبنم جانے کیوں بند ہوئے چاکِ قبا میرے بعد کشتنی تھا نگہِ شیخ میں […]
نزر نامہ مہ و شانِ شوخ پیکر کیجیے زندگی نعمت ہے اس کو صرف بہتر کیجیے عشق ومستی کی سزا اگر عشق ومستی سے ملے آپ پر لازم ہے پھر یہ جرم اکثر کیجیے آپ کا دل آپ کی باتیں نگاہیں آپ کی یہ چراغ ہیں آپ کے سب گھر منور کیجیے سب بلا تفریق […]
وہ اپنے آپ سے بھی جدا چاہیے ہمیں اس کا جمال اس کے سوا چاہیے ہمیں ہر لمحہ جی رہے ہیں دوا کے بغیر ہم چارہ گرو تمہاری دعا چاہیے ہمیں پھر دیکھیے جو حرف بھی نکلے زباں سے اک دن جو پوچھ بیٹھے کہ کیا چاہیے ہمیں جانا نہیں ہے گھر سے نکل کر […]
کفِ سفیدِ سرِ ساحلِ تمنا ہے اور اس کے بعد سرابوں کا ایک دریا ہے ہے کب سے پردئہ آواز کو سکوتِ ہوس سکوت پردئہ آواز کو ترستا ہے نہ جانے کب سے اک آشوب ہے سوالوں کا مگر سوال تو یہ ہے کہ مسئلہ کیا ہے وہ جانِ خلوتِ ممکن ہے دل کے پہلو […]
ہر بار میرے سامنے آتی رہی ہو تم ہر بار تم سے مل کے بچھڑتا رہا ہوں میں تم کون ہو یہ خود بھی نہیں جانتی ہو تم میں کون ہوں یہ خود بھی نہیں جانتا ہوں میں تم مجھ کو جان کر ہی پڑی ہو عذاب میں اور اس طرح خود اپنی سزا بن […]
تمہاری یاد سے جب ہم گزرنے لگتے ہیں جو کوئی کام نہ ہو بس وہ کرنے لگتے ہیں تمہارے آئینئہ ذات کے تصور میں ہم اپنے آئینے آگے سنورنے لگتے ہیں تمہارے کوچئہ جاں بخش کے قلندر بھی عجیب لوگ ہیں ہر لمحہ مرنے لگتے ہیں ہم اپنی حالتِ بے حالتی اذیت میں نہ جانے […]
تم حقیقت نہیں ہو حسرت ہو جو ملے خواب میں وہی دولت ہو میں تمہارے ہی دم سے زندہ ہوں مر ہی جائوں جو تم سے فرصت ہو تم ہو خوشبو کے خواب کی خوشبو اور اتنی ہی بے مروت ہو تم ہو انگڑائی رنگ و نکہت کی کیسے انگڑائی سے شکایت ہو کس طرح […]
ہم آندھیوں کے بَن میں کسی کارواں کے تھے جانے کہاں سے آئے ہیں جانے کہاں کے تھے اے جانِ داستاں! تجھے آیا کبھی خیال وہ لوگ کیا ہوئے جو تری داستاں کے تھے ہم تیرے آستاں پہ یہ کہنے کو آئے ہیں وہ خاک ہو گئے جو ترے آستاں کے تھے مل کے تپاک […]
سارے رشتے بھلائے جائیں گے اب تو غم بھی گنوائے جائیں گے جانیے کس قدر بچے گا وہ اس سے جب ہم گھٹائے جائیں گے اس کو ہو گی بڑی پشیمانی اب جو ہم آزمائے جائیں گے جون یوں ہے کہ آج کے موسی آگ بس آگ لائے جائیں گے زخم پہلے کے اب مفید […]
جو زندگی بچی ہے اسے مت گنوائیے بہتر یہی ہے آپ مجھے بھول جائیے ہر آن اک جدائی ہے خود اپنے آپ سے ہر آن کا ہے زخم جو ہر آن کھائیے تھی مشورت کہ ہم کو بسانا ہے گھر نیا دل نے کہا کہ میرے در و بام ڈھائیے تھوکا ہے میںنے خون ہمیشہ […]
ایک آفت ہے وہ پیالئہ ناف کیا قیامت ہے وہ پیالئہ ناف اب کہاں ہوش ہم کو حشر تلک کہ سلامت ہے وہ پیالئہ ناف جون بابا الف کا ہے ارشاد کارِ وحدت ہے وہ پیالئہ ناف شب خرابات میں رہا یہ سخن دل کی رخصت ہے وہ پیالئہ ناف زندگی آرزو کا قامت ہے […]
ابھی فرمان آیا ہے وہاں سے کہ ہٹ جائوں میں اپنے درمیاں سے یہاں جو ہے تنفس ہی میں گم ہے پرندے اڑ رہے ہیں شاخِ جاں سے دریچہ باز ہے یادوں کا اور میں ہوا سنتا ہوں پیڑوں کی زباں سے تھا اب تک معرکہ باہر کا درپیش ابھی تو گھر بھی جانا ہے […]
بہت دل کو کشادہ کر لیا کیا زمانے بھر سے وعدہ کر لیا کیا تو کیا سچ مچ جدائی مجھ سے کر لی تو کیا خود کو بھی آدھا کر لیا کیا ہنر مندی سے اپنی دل کا صفحہ مری جاں تم نے سادہ کر لیا کیا یہاں کے لوگ کب کے جا چکے ہیں […]
بے قراری سی بے قراری ہے وصل ہے اور فراق طاری ہے جو گزاری نہ جا سکی ہم سے ہم نے وہ زندگی گزاری ہے نگھرے کیا ہوئے کہ لوگوں پر اپنا سایہ بھی اب تو بھاری ہے بِن تمہارے کبھی نہیں آئی کیا مری نیند بھی تمہاری ہے آپ میں کیسے آئوں تجھ بِن […]
حسرتِ رنگ آئی تھی دل کو لگا کے لے گئی یاد تھی اپنے آپ کو یاد دلا کے لے گئی خیمہ گہِ فراق سے خیمہ گہِ وصال تک ایک اُداس سی ادا مجھ کو منا کے لے گئی ہجر میں جل رہا تھا میں اور پگھل رہا تھا میں ایک خنک سی روشنی مجھ کو […]
غم ہائے روزگار میں الجھا ہوا ہوں میں اس پر ستم یہ ہے اسے یاد آ رہا ہوں میں ہاں اس کے نام میں نے کوئی خط نہیں لکھا کیا اس کو یہ لکھوں کہ لہو تھوکتا ہوں میں کربِ غم شعور کا درماں نہیں شراب یہ زہر بے اثر ہے اسے پی چکا ہوں […]
کبھی جب مدتوں کے بعد اس کا سامنا ہو گا سوائے پاسِ آدابِ تکلف اور کیا ہو گا صلیب وقت پر میں نے پکارا تھا محبت کو میری آواز جس نے بھی سنی ہو گی ہنسا ہو گا ابھی اک شور ہائو ہو سنا ہے ساربانوں نے وہ پاگل قافلے کی ضد میں پیچھے رہ […]
مستئی حال کبھی تھی کہ نہ تھی بھول گئے یاد اپنی کوئی حالت نہ رہی بھول گئے حرمِ ناز و ادا تجھ سے بچھڑنے والے بُت گری بھول گئے بت شکنی بھول گئے یوں مجھے بھیج کے تنہا سرِ بازارِ فریب کیا مرے دوست مری سادہ دلی بھول گئے میں تو بے حس ہوں مجھے […]