بکھرتے رنگوں جیسا ہو گیا ہوں، یہ سوچتا ہوں میں کیا تھا، اور اب کیا ہو گیا ہوں، یہ سوچتا ہوں نہ جانے کس کا بدلہ لے گئی ہیں، ہوائیں مجھ سے کہ بس اک زرد پتا ہو گیا ہوں، یہ سوچتا ہوں خود اپنے آپ کو پیارا نہیں جب کبھی لگا میں تو کیسے […]
جو بھی جھوٹا تھا وہی خواب دکھایا خود کو بارہا میں نے بنایا ہے تماشا خود کو جو نامعلوم تھا پہلے اسے معلوم کیا پھر بہت دیر تلک غم میں جلایا خود کو کوئی بے مول سمجھتے ہوئے لے جائیگا اس دُھن میں پسِ بازار سجایا خود کو مجھے معلوم ہے ، مجھ میں بھی […]
اگر کچھ رابطہ باہر سے بنتا جا رہا ہے خلا اندر کا بھی تو اور بڑھتا جا رہا ہے نہ جانے کس جگہ جا کر رکے گا سلسلہ یہ بہت سے ‘آنگنوں’ میں صحن بٹتا جا رہا ہے ہمارے پاس گھر بھی ہے اور اسکے سب مکیں بھی مگر ۔۔۔جیون۔۔۔۔کہ راہوں پر ہی کٹتا جا […]
دعا بھی دیتا ہے اور بددعا بھی دیتا ہے وہ کون ہے جو مجھے یوں سزا سی دیتا ہے میں اپنے آپ سے مخلص تو ہوں مگر کوئی درونِ ذات مجھے بددعا سی دیتا ہے بجا کے ابر نشانی ہے اُس کی رحمت کی مگر کبھی کبھی۔۔۔۔وہ ۔۔۔۔یوں سزا بھی دیتا ہے یوں کہنا عام […]
کوئی پوچھے تو بتا دوں گا حال کیسا ہے سب سنا دوں گا مدتوں میں لکھا ہوا جیون ایک ہی سانس میں مٹا دوں گا اتنا کم فہم تو نہیں پھر بھی آپ کو دیوتا بنا دوں گا لوگ پوچھیں گے ماجرا کیا ہے اس قدر خود کو میں گرا دوں گا اب کے سوچا […]
دَر دَر خود کو یوں نہ رولو کبھی تو چندا آنکھیں کھولو سب روئیں تو دم گھٹتا ہے سب سے تنہا ہو کے رو لو شب کے تارے ، گنتی اور تم دن نکلا ہے کچھ تو سو لو جانے کونسا پتھر نکلے بن سوچے تم لفظ نہ بولو ماں تو آخر ماں ہوتی ہے […]
پتہ تبدیل ہوتا جا رہا ہے ہر انچ اک میل ہوتا جا رہا ہے غروبِ شمس کا منظر ہے۔۔۔۔۔۔۔جیسے سمندر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جھیل ہوتا جا رہا ہے جسے سمجھے تھے مہمل پہلے پہلے وہ خار اب۔۔۔۔۔۔۔۔کیل ہوتا جا رہا ہے کتابوں میں ”الف” سے ” ی ” تلک سب برابر سیل ہوتا جا رہا ہے یہ دل اب […]
میں سحرِ ناگہاں میں کھو گیا تھا ذرا سی دیر پاگل ہو گیا تھا کہانی میں نصیحت بھی تھی لیکن وہ بچہ سنتے سنتے سو گیا تھا سمندر جانتا ہے اس سے پوچھو ہوا میں کون آنسو بو گیا تھا سمندر آسماں کی پیروی میں افق تک جا کے اک خط ہو گیا تھا لب […]
زمین کی چھت پہ پڑا آسمان ہوں تنہا عمارتوں میں گھرا اک مکان ہوں تنہا ادھورے چاند کی صورت دریدہ عکس بھی ہوں تہہ کھنڈر بھی ، بکھرتا نشان ہوں تنہا کبھی ہوں بھیڑ کہ ۔۔۔۔۔تل دھرنے کو جگہ نہ ملے کبھی میں رات کی اُجڑی دکان ہوں تنہا میں منقسم ہوں اگرچہ گھڑی کی […]
مثلِ عمرِ خبرِ تو جب زندگی رہ جائیگی دیکھنا، مضمون میں پھر تشنگی رہ جائیگی باقی ساری شان سے رسمیں ادا ہونے کے بعد کیا خبر تھی بس یہی اک رخصتی رہ جائیگی پہلے پہلے فون ہونگے، خط بھی لکھے جائینگے پھر برائے نام سے بس دوستی رہ جائیگی ایک لمحے میں سبھی کچھ روند […]
عہد گم گشتہ کی تصویر دکھاتی کیوں ہو ایک آوارہ منزل کو ستاتی کیوں ہو وہ حسیں عہد جو شرمندہ ایفا نہ ہوا اس حسیں عہد کا مفہوم جتاتی کیوں ہو زندگی شعلہ بے باک بنا لو اپنی خود کو خاکستر خاموش بناتی کیوں ہو میں تصوف کے مراحل کا نہیں ہوں قائل میری تصویر […]
اسطرح کرتے ہیں نیکی لوگ مجبوری کیساتھ جس طرح مزدور کا رشتہ ہو مزدوری کیساتھ وصل کی شب ہو کہ خوشبو، دل کو رہتا ہے ملال جان کا خطرہ بھی تو ہوتا ہے کستوری کیساتھ سامنے رکھنا اُسے ہر وقت مثلِ آئینہ ورنہ چہرہ ہی بدل جاتا ہے اِک دوری کیساتھ آج سورج سے ملا […]
روزوشب کا یہ سلسلہ ہے کیا تجھ سے ملنا بھی حادثہ ہے کیا عکس کیوں ایک سا نہیں رہتا وقت کیا اور آئینہ ہے کیا دیکھتا ہوں جب اپنی تحریریں سوچتا ہوں کہ یہ لکھا ہے کیا بے طرح یاد آ رہا ہوں کیوں اس نے مجھ کو بھلا دیا ہے کیا زندگی موت کا […]
وقت ہر اِک غبار سے باہر دفن ہے یہ مزار سے باہر آنیوالے ہجوم نے مجھ کو کر دیا ہے قطار سے باہر شیر سویا ہے اور جاگتی ہے اس کی ہیبت کچھار سے باہر جان لیوا ہے اس کو چھونا بھی برق رہتی ہے تار سے باہر آ کبھی ایک دن تو مجھ سے […]
حال کچھ اسطرح دلوں کا ہے جیسے ویران ساحلوں کا ہے راستہ جان بوجھ کر کھونا گو ہمیں علم منزلوں کا ہے کس سے دامن بچا کے گزرو گے شہر کا شہر سائلوں کا ہے کچھ تو شامِ سفر بھی گہری ہے کچھ نگر پر دھواں مِلوں کا ہے گرمی جسم جیسے پگھلاتی یہ مکاں […]
مروت تھی کچھ گِلے تھے کہیں آرزوئوں کے سلسلے تھے کہیں دوریاں درمیاں تھیں پہلے بھی پر دلوں میں یہ فاصلے تھے کہیں اِک بھلا نام یاد پڑتا ہے تجھ سے پہلے بھی ہم ملے تھے کہیں ایک جنگل عمارتوں کا تھا اس میں کچھ پھول بھی کھلے تھے کبھی افتخار نسیم
یہ زہر ہے یا کوئی نشہ مٹھاس کا پیتا ہوں کب سے پر وہی عالم ہے پیاس کا آنکھوں کو خوں سے بھر گیا اِک ریزہ ریزہ خواب پائوں میں چبھ گیا کوئی ٹکڑا گلاس کا مفرور قیدیوں کو ڈسیں سرسراہٹیں سانپوں کا رنگ بھی ہے، وہی جو ہے گھاس کا اُڑنے لگوں تو گولی […]
اِک نئے دور کی بنیاد کو رکھا جائے دور ماں باپ سے اولاد کو رکھا جائے شکوہ بے جا تو نہیں دنیا کے اس کمرے میں کس طرح مختلف افراد کو رکھا جائے شکل و صورت کے کھنڈر کی ہوئی تعمیر نئی پر اب کہاں دلِ برباد کو رکھا جائے آ تو جائیگا میرے دل […]
آر سے پار نہیں نکلا عکسِ دیوار سے نہیں نکلا شہر بنتے گئے مگر انساں آج تک غار سے نہیں نکلا اُس کنویں میں پڑا ہوا صندوق ایک دو چار سے نہیں نکلا میں بہت سامنے ہوا اُس کے وہ حسیں کار سے نہیں نکلا ایک موتی سا خواب شب بھر میں چشمِ بیدار سے […]
پھول گالوں کو تو آنکھوں کو کنول کہتا رہا جنگ تھی باہر گلی میں ، میں غزل کہتا رہا شاعری کی اور نظر انداز کی بچوں کی بھوک چاند کو روٹی کا نعم البدل کہتا رہا آ پڑا دل پر مرے آخر مرا کہنہ وجود روز دستک دے کے اس گھر سے نکل، کہتا رہا […]
اُسی کا نام لیا جو غزل کہی میں نے تمام عمر نبھائی ہے دوستی میں نے چراغ ہوں میں اگر بُجھ گیا تو کیا غم کہ جتنی دیر جلا روشنی تو کی میں نے میں شیر دیکھ کے پنجرے میں خوش نہیں ہوتا کہاں گنوا دی ہے بچپن کی سادگی میں نے اب اتنا شور […]
چھوڑی ہوئی بستی کا وہ منظر نہ ملیگا گھر لوٹ کے جائو گے تو وہ گھر نہ ملیگا اس جنگ میں گر جیت بھی جائو گے تو کیا ہے اس تاج کو رکھنے کیلئے سر نہ ملیگا اس شہر کے لوگوں کو یقیں ہی نہیں کل پر اس شہر کی گلیوں میں گداگر نہ ملیگا […]
چمن چمن اسی رنگین قبا کو دیکھتے ہیں ہر ایک جلوے میں جلوہ نما کو دیکھتے ہیں ہمیں کتاب میں ہے ترا رخ روشن ترے جمال میں نور خدا دیکھتے ہیں وہ آئیں پرسش غم کو یقیں نہیں آتا ہم اپنے سامنے آہ و رسا کو دیکھتے ہیں ترے مزاج سے ہم اس قدر ہوئے […]
شعلہ حسن مجسم گریہ شبنم بھی ہے ایک دوعالم بھی تھا اورا یک یہ عالم بھی ہے اہل دل کو شکوہ بے مہری عالم سہی دیکھنا یہ ہے کہ احساس شکست غم بھی ہے پاہی لیں گے منزلیں دشواریوں کے باوجود کوئی شے راہ طلب میں کوشش پیہم بھی ہے منحصر ہے ظرفِ انسان پر […]