آج ہم شام کے ایک اخوان المسلمون خاندان کی مظلوم بیٹی ہبہ الدباغ کی روداد قفس بیان کرنے لگے ہیں جسے1980ء شام کی خفیہ ایجنسی والے صرف ٥ منٹ کا کہہ کر تفتیش کے لیے ہوسٹل سے گرفتار کر کے لے گئے تھے مگر اس کو9 سال قید میںرکھا اس کو بھائی کی گرفتاری کے لیے رہن رکھ کر انسانیت سوز تکلیفیں دیتے رہے اس کی ایام اسیری کی خودنوشت لکھی ہوئی کتاب ، جس کانام”صرف 5 منٹ” ہے سے دکھ و درد کی داستان بیان کر رہے ہیں شام جہاں آج معرکہ حق و باطل برپاہ ہے جس میںاس وقت ایک اقلیتی نصیریہ فرقے کی حکومت ہے۔
ایک اقلیتی خاندان 45 سال سے ظلم،جبر، استبداد کے ذریعے عام مسلمان آبادی پر حکمرانی کر رہا ہے ہم سب کو معلوم ہے کہ شام میں بھی دوسرے عرب ملکوں کے طرح کنٹرولڈ قسم کی شخصی جمہوریت ہے ایک ہی اقلیتی خاندان کی حکومت45سال سے چلی آرہی ہے جبر و تشدد کر کے جعلی انتخابا ت کرواتے رہے ہیںجس کے ذریعے ایک ہی نصیریہ خاندا ن کامیاب ہوتا رہا ہے 1970ء میں موجودہ صدر بشارالاسد کے والد حافظ الاسد جب شام کے وزیر دفاع تھے دوسرے عرب حکمرانوں کی طرح صدر بورالدین عطاشی کا تختہ الٹ دیا تھا اس کے بعد 1971ء میں جعلی انتخابات کے ذریعے شام کے صدر منتخب ہو گئے تھے30 سال تک جبر سے حکومت کرنے کے بعد89 سال کی عمر میں2000ء میں وفات پائی اور بشارالاسد والد کی وفات کے بعد ان کے جانشین مقرر ہوئے پھر پہلے جیسے نا م نہاد ریفرنڈم کے ذریعے یہ بھی صدر منتخب ہوئے۔ اس طرح شام میں بھی آج تک دوسرے عرب ملکوں کی طرح شخصی حکومت قائم ہے جو ابھی ہچکولے کھا رہی ہے ویسے تو عرب دنیا میں غلبہ اسلام کے لیے اخوان المسلمین کی تحریک 1940ء چل رہی ہے۔
World
جو مختلف مراحل طے کرتی رہی ہے مسلم دنیا میں کہیں بھی صحیح اسلامی سیاسی حکومت قائم کرنا مقامی پٹھو حکمرانوں اور صلیبیوں نے ناممکن بنا دی ہے یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ جنگ عظیم اول کے بعد جب 1924ء صلیبیوں نے مسلمانوں کی ترک خلافت کو ختم کیا تھا تو اس کے ساتھ یہ بھی اعلان کیا تھا کہ اس کے بعد دنیا میں کہیں بھی کسی بھی اسلامی ملک میں صحیح اسلامی سیاسی حکومت قائم نہیں ہونے دی جائے گی چائے مروجہ جدید جمہوری طریقے سے ہی قائم ہو اس کی تازہ مثال مصر اور اس سے کچھ قبل الجزائر کی ہے جہاں مسلمانوں نے جمہوری طریقے سے اپنے نمایندے چنے تھے مگر صلیبی ملکوں سے تربیت پانے والی اپنے ہی ملک کی مسلم فوجوں نے اسے ختم کر دیا۔صاحبو! 1980ء میں دستوری ترمیم کے ذریعے اخوان سے تعلق ثابت ہونے پر پھانسی کی سزا مقرر کی گئی تھی جو اب تک برقرار ہے 1982ء میں حافظ الاسد کے دور حکومت میں بھی اکثریت سنی آبادی نے اخوان کی قیادت میں اقلیتی شخصی علوی نصیریہ حکومت کے خلاف بغاوت کر دی تھی جسے حکومتی جبر سے دبا دیا گیاتھا ویسے تو عرب دنیا میں اخوان المسلمین 1940 ء سے اسلام کی نشاة،ثانیہ کے لیے کوشش کر رہے ہیں 1982ء میں حمص اور حمات شہر سے اسلام پسندوں نے جدوجہد شروع کی تھی۔
اس کی وجہ عرب نیشنلز ازم اور سیکولزم اور اقلیتی حکومت سے نفرت تھی اس جدو جہد کو طاقت اور جبر سے نیست و نابود کر دیا گیا تھا فضائی حملوں اور ٹی۔72 ٹینکوں کی بمباری سے چالیس ہزار افراد ہلاک ہوئے تھے پندرہ سو افراد کو غائب کر دیا گیا تھا لاتعداد مرد و خواتین کو جیلوں میں بند کر دیا گیا تھا حمص شہر کو اقلیتی حکومت نے کھنڈرات میں تبدیل کر دیاگیا تھا اب پھر اسی حمص شہر اور صوبے سے مارچ 2011ء موجودہ تحریک شروع ہوئی ہے جو پورے شام میں پھیل گئی ہے پہلے کی طرح پولیس اورفوج کو استعمال کیا جا رہا ہے ناجائز اور جبر کی حکومت کے خلاف لوگ اٹھ کھڑے ہوئے ہیں اس وقت تک 2لاکھ سے زیادہ افراد شہید ہو چکے ہیں 40 لاکھ سے زیادہ بیرون ملک ہجرت کر چکے ہیںہوائی جہازوں کی بمباری سے 13 لاکھ گھر تباہ ہو چکے ہیں اقوام متحدہ کے ادارے برائے بحالی کے مطابق 65لاکھ افراد اپنے آبائی علاقوں کو چھوڑ کر اندرون ملک نقل مکانی کر چکے ہیں شام کا90فی صد سے زائد علاقہ بشارالاسد کے ہاتھ سے نکل چکا ہے۔
اسلام کی بیٹی ہبہ الداغ جو شام کے دارالحکومت دمشق میں یونیورسٹی میں شریعہ کی طالبہ تھی۔ حافظ الاسد موجودہ حکمران بشارالاسد کے والد کے ظالمانہ دور حکمرانی میں اخوان المسلمون کے حامی عوام کو بے دردی سے کچلا تھا 1980ء میں دمشق کی یونیورسٹی سے جب وہ فائنل ایر کی طالبہ تھی حکومتی خفیہ والوں نے بلا جرم تحویل میں لیا اور 9 برس تک الم ناک عذاب میں قید رکھا اس کی بہن بھائیوں اور والدین یعنی پورے خاندان کو شہید کر دیا ایک وقت اس کی ماں اور بھائی کو بھی اُس کے ساتھ قید کیا گیا مگر ملنے کی اجازت نہیں دی اس کے بھائی نوارف ا لدباغ کو بھی قید کے دوران شہید کر دیا اس کے آٹھ بہن بھائیوں اور والدین کو بھی شہید کر دیا گیا مگر اس اسلام کی بیٹی کے پائے استقلال میں لرزش نہ آئی۔وہ کبھی بھی کسی پارٹی یا۔
حزب میں شامل نہیں ہوئی تھی صرف ان تنظیموں کو جانتی تھی وہ اپنے والدین کے ساتھ شام کے ایک شہر حمات میں رہتی تھی وہاں سے وہ دمشق یونیورسٹی میں پڑھائی کے لیے منتقل ہوئی تھی وہ 9 سال قید میں اپنے بھائی کی ”رہن” کے طور پر جیل کی کال کوٹھڑی میں قیدرہی کیو نکہ اس کا بھائی جوپُر جوش سیاسی کارکن تھا وہ شام کی خفیہ والوں کو مطلوب تھا اس کی زندگی کے بہترین سال قاتل وحشیوں کی نذر ہو گئے جس نے اس کے اعضا شل کر دیے اور رُوح نے بڑھاپے کی چادر اوڑھ لی۔
Syria
شام کی مختلف جیلوں یعنی کفرالسوسہ جیل، سجن قطنا مدنی جیل،عسکری تفتیشی مرکز جیل اورسجن دوما جیل میں تعذیب کے لیے منتقل کی جاتی رہی1980ء میں جب وہ رات گئے اپنے کمرے میں مطالعہ میں مصروف تھی خفیہ والوں کی آوازآئی ” اگر تم نے دروازہ نہ کھولا تو ہم تالے کو گولی سے اڑا دیں گے” دروازہ کھلنے پر انہوں نے کہاہبہ الدباغ تم ہی ہو پھر میرے کمرے کی تلاشی لی اور کہا” ہمارے ساتھ صرف پانچ منٹ کے لیے چلو” وہ مجھے صدر،مملکت کے بھانجے معین ناصیف کے پاس تفتیش کے لیے لے گئے اس نے فوراً کہا اخوان سے کیا تعلق ہے تم اخوان کی آر گنائزر ہو کیا تم مجلہ النذیر تقسیم کرتی رہی ہو تمھارے پاس اسلحہ تھا تمھارا والد اخوان کے زعماء میں شامل ہے میں اس کے جسم کو چھلنی کر دوں گااس کے یہ جملے میرے ذہن میں چپک گئے اور پھر کئی برس بعد اس ظالم نے حمات میں اخوان پر تشدد کے دوران واقعی ہی میرے والد کو چھلنی کر دیا تھا اس نے مجھے منہ دیوار کی طرف کر کے کھڑا کر دیا گیا مجھے خیال آیا اب گولی مار دیں گے مگر اس کے بعد وہ مجھے کمرہ آلات میں داخل کیا اس کے بعد میرے ہاتھ پائوں باندھ کر تشدد کیا گیا اس کے بعد ایک دوسرے کمرہ تعذیب میں لے گئے وہی پرانے سوالات کی بوچھاڑ کے بعد کہا تم وطن دشمن ہو جب انتہائی ظلم کے بعد بھی مجھ سے اقرار نہ کرا سکے تو وہ مجھے سجن امن الدولہ کفرالسوسہ جیل میں منتقل کر دیا گیا وہاں مجھے ایک کمرے لے گئے جس میں چار پانچ مظلوں کوزنجیروں ،ڈنڈوں اور لاٹھیوں سے مار رہے تھے اور بجلی کا کرنٹ لگا رہے تھے۔
ان کی چیخیں عمارت کو لرزا رہی تھیں۔ میں نے اہلکار سے پوچھا تم مجھے یہاں کیوں لائے ہو وہ تمسخرانہ انداز میں بولا جن کو مار پڑھ رہی ہے ان سے معلوم کرلو اس کے بعد فوراً میرے منہ پر پوری طاقت سے طمانچہ رسید کیا میرا سر زور سے دیوار کے ساتھ ٹکرایا مجھے دنیا گھومتی ہوئی نظر آئی مجھے محسوس ہوا کہ میرا سر نیچے اور ٹانگیں اوپر ہیں ایک شخص بولا تمہیں سب کچھ سچ سچ بتانا ہو گا تمھارا بھائی کہاں ہے؟ میں نے کہا مجھے معلوم نہیں اس کے بعد مجھے لکڑی کے تختے پر لٹا کرمیری گردن، کلائیں،پیٹ، گھٹنے اور پائوں اس سے باندھ دیے اور مجھے الٹا لٹکا دیا گیا ظالم اہلکار اپنے آفیسر سے کہنے لگا سر! یہ پکی اخوان ہے دیکھیں اس کا ستر ٹکٹکی پر بھی قائم ہے انھوں نے ٹکٹکی کو چھت سے باندھ دیا اور مجھے بجلی کے کرنٹ لگائے میرے پائوں پر ڈنڈے سے ضرب لگائی اور کہا تمھیں بکواس کرنی پڑے گی ۔ میں چلائی میں کہہ چکی ہوں میرے پاس اعتراف کرنے کو کچھ بھی نہیں پھر دوبارہ مجھے کرنٹ لگائے گئے ایک اہلکار میرے پائوں پر کوڑے برسانے لگا میرے منہ پر ”یا اللہ” کا کلمہ جاری تھا میں بے ہوش ہو گئی تھی مجھے ہوش میں لانے کے لیے پانی ڈالا گیا اور ٹکٹکی سے اتار دیا گیا اور کاغذ دیا گیا۔
کہ اس پر سچ سچ لکھ دو ورنہ مذید ٹارچر کے لیے تیار ہو جائو اس کے بعد وہ مجھے ایک سیل میں بند کر دیا جو مرغی کے ڈربے جیسا تھا اس کے قریب سیل نمبر ٢٤ سے مجھے اپنی امی کی آواز سنائی دی میری والدہ سے بھی میرے بھائی کے متعلق پوچھتے رہے اس کے بعد میرے ایک بھائی وارف کو ایک دوست کے ساتھ اسی جیل ” کفرالسوسہ جیل” میں لے آئے اور تعذیب کے بعد اسے شہید کر دیا ۔اس کے بعد وہ مجھے دوسری قیدی عورتوں کے ساتھ” سجن قطنا مدنی” جیل لے گئے وہاں مجھے بتایا گیا کہ محکمہ امن دولہ کی طرف سے تمھیں دس سال قید بامشقت سزا سنائی گئی ہے یہاں آکر مجھے معلوم ہوا کہ ماہ فروری 1982ء میں حمات میرے شہر میں میرے والد کو شہید کر دیا گیا اور چار دن ان کی میت سڑک پر پڑی رہی میرابھائی” ماہر” گھر سے باہر آیا تو اسے بھی گولی ماردی گئی میری بہن” ظلال” کو بھی شہید کر دیا اس طرح میرے آٹھ بہن بھائیوں کی شہادت کی خبر ایک ساتھ ملی اس کے بعد میں بیمار ہوگئی مجھے صحیح دوائی دینے کے بجائے درندہ صفت ڈاکڑ سمیر نے باجچھ پن کا انجکیشن لگا دیا گیا یہ بات بعد میں مجھے۔
ایک قیدی کے رشتہ دار ڈاکڑ نے بتائی۔اس کے بعد مجھے عسکری تفتیشی مرکز میں لے گئے اندر آتے ہی دونوں ہاتھوں ہتھکڑیاں لگا دی گئیںآنکھوں پر پٹی لگا دی گئی پھر دیوار کی طرف میرا منہ کر دیا گیا کچھ دیر بعدمجھے جیلر کے پاس لے گئے اس نے کہا سچ بتائو گی تو تمھاری رہائی ممکن ہو سکتی ہے اگر کچھ نہ بتایا تو یہاں سے نکلنا مشکل ہو گا اس کے بعد مجھے ایک کوٹھڑی میں بند کر دیا گیا جب وہ مجھ سے ناامید ہو گئے تو مجھے واپس قطنہ جیل بھیج دیا گیا قطنہ جیل میں کچھ ہفتے گزارنے کے بعد مجھے سجن دوما مدنی جیل میں منتقل کر دیا گیا یہاں بھی ظلم کیا گیا مگر بلا آخرظلم ہار گیا اس جیل میں میرے چار برس گزر گئے جیل حکام مجھے کاغذ دیا کہ اس پر اپنے حالات لکھوں اس کے پندرہ دن بعد رہائی کا پروانہ مل گیا میری ساتھی ایک قیدی کو جیل حکام سے معلوم ہوا کہ صدرحافظ اسد صاحب کو قیدیوں کی خبر ہی نہ تھی ورنہ وہ بہت پہلے ہمیں رہا کر دیتا ہمارے نو برس گزر گئے اور صدر صاحب کو پتہ ہی نہیں پھر یہ 25 دسمبر 1989ء تھا کہ مجھے دوسری عورت قیدیوں کے ساتھ رہائی ملی رہائی کے وقت مجھے 1980ء کی دمشق کی وہ آخری رات یاد آگئی جب نو برس پہلے میں ہوسٹل میں امتحان کی تیاری میں مصروف تھی کہ شام کے خفیہ والے مجھ بے گناہ کو صرف پانچ منٹ کے لیے پکڑ کر لے گئے اور میری زندگی کے پورے نو برس گھوسٹ لیے اور میں آج تک نہ جان پائی کہ کیوں؟