سینیٹ میں متحدہ اپوزیشن نے حکومت کی جانب سے بجٹ میں دئیے گئے اعداد وشمار کو چیلنج کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ اعداد وشمار غلط ہیں جو ثابت بھی کئے جائیں گے،حکومت سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 15 سے 25 فیصد تک اضافہ کرے،صوبوں کے نقطہ کو کم نہ کیا جائے،تعلیم اور صحت صوبائی معاملات میں ان پر وفاق میں زیادہ رقم مختص نہ کی جائے،بجلی پر سیلز ٹیکس لگانے کا حکومت کو کوئی اختیار نہیں،یہ معاملہ صوبوں کا ہے۔
گیس پر گیس ڈویلپمنٹ سرچارج واپس لیا جائے،غریبوں کے لئے یوٹیلٹی کارڈ تیارکرکے عام مارکیٹ سے30فیصد کم نرخوں پر اشیاء دی جائیں۔ سینیٹ کی متحدہ اپوزیشن نے پریس کانفرنس کی،اس موقع پرسینیٹر رضا ربانی نے کہا ہے کہ سینیٹ اپوزیشن پیپلزپارٹی،اے این پی،بی این پی عوامی اور مسلم لیگ(ق) شامل ہیں،سب نے مشترکہ بجٹ کیلئے سفارشات تیار کی ہیں،یہ بجٹ کاروباری،سرمایہ کار اور جاگیردار حضرات کا بجٹ ہے اور انہیں مزید رعایت دینے کا بجٹ ہے۔
موجودہ حکومت نے عالمی سامراج ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف سے کئے گئے وعدوں پر بنایا ہے۔سلیم مانڈوی والا نے کہا ہے کہ اکنامک سروے کے اعداد وشمار بجٹ سے میچ نہیں کررہا،تمام معاشی اعشاریے نیچے جارہے یہں،آئی ایم ایف3.5جی ڈی پی گروتھ نہیں دے رہا،اس سال جی ڈی پی گروتھ پچھلے سال سے کم ہے،4.14جی ڈی پی کی شرح درست نہیں، بجٹ اور اعشاریے غلط ہیں،حقیقی اعداد وشمار کیوں نہیں دئیے گئے،عوام کو آگاہ کرنا چاہئے اور وضاحت کرنی چاہئے کہ یہ صورتحال کیوں ہے۔
میں ثابت بھی کروں گا کہ یہ اعداد وشمار کیوں نہیں دئیے گئے،حاجی عدیل نے کہا کہ صوبوں کو دئیے جانے والے نفع کی شرح وہی ہونی چاہئے جو پہلے سے طے ہے،اس کے علاوہ ہمارے صوبے کو نیٹ ہائیڈل نفع نہیں مل رہا ہے،یہی مطالبہ پنجاب کا بھی ہے۔سینیٹر تاج حیدر نے کہا کہ مرکز صوبوں کے وسائل چھین رہا ہے اور18ویں ترمیم میں صوبوں کو دئیے گئے وسائل نہیں مل رہا،اعداد وشمار میں بھی گڑ بڑھ تھی اس سال بھی ہے،ہم نے تجویز دی ہے کہ جو رقوم وفاقی بجٹ میں رکھی گئی ہیں وہ گارنٹی پر ہو، تعلیم اور صحت صوبائی معاملات ہیں مرکز میں بہت سے وسائل نہیں رکھے جانے جانے چاہئے،یہ وزارتیں مرکز میں نہیں ہونی چاہئے،مرکز ان شعبے مں اتنی ہی رقم رکھے جو ضروری ہے۔
باقی پیسہ ڈویڑیبل پول میں دیا جائے،زکوٰة صوبوں کو منتقل ہونے کے باوجود مرکز جمع کر رہا ہے،زکوٰة براہ راست صوبے جمع کریں، بجلی سروس ہے،اس پر سیلز ٹیکس لگایا ہے مرکز کو یہ ٹیکس لگانے کا حق نہیں ہے،اگر ٹیکس لگانا ہے تو صوبے لگائیں گے۔ تیل وگیس پر جو آمدنی ہورہی ہے اس میں صوبوں کو کچھ نہیں مل رہا،اس لئے تجویز دی ہے کہ منافع کو صوبے اور مرکز کے درمیان تقسیم کردیا جائے،گیس ڈویلپمنٹ سرجارج200فیصد بڑھا دیا ہے،اس سے صوبوں میں صنعت کو مسائل پیدا ہونگے اس لئے حکومت اس کو واپس لیں، بجٹ میں نرالی منطق دی گئی ہے۔
صوبائی بجٹ کا سرپلس وفاقی بجٹ کا خسارہ ختم کرنے کیلئے استعمال کیا جائے،کیوں صوبے اپنے ترقیاتی بجٹ کو روکیں اور بجٹ سرپلس دکھائیں تاکہ وفاقی بجٹ کا خسارہ ختم کیا جائے۔ گریڈ ایک سے پندرہ تک کے سرکاری ملازمین کو بنیادی تنخواہ پر25فیصد،گریڈ15سے اوپر کے ملازمین کو بنیادی تنخواہ پر15فیصد اضافہ دیا جائے،غریب خاندانوں کو یوٹیلٹی کارڈ دئیے جائیں اور انہیں اس کارڈ پر اشیاء 30فیصد کم ریٹ پر دیا جائے۔ حکومت قانون سازی کرکے ای او بی آئی کے پنشنرز کی پنشن 6000 روپے کی جائے، حکومت بجلی پر سبسڈی کو کم کرکے ٹیکس بڑھا رہی ہے،اس سال60فیصد سبسڈی کم کرنے کی بات کی ہے،یعنی قیمتیں بڑھانے کی بات کی ہے،حکومت قیمتوں میں اضافہ نہ کرے،پچھلے سال35فیصد اضافہ ہوا ہے اگر سبسڈی کو از سر نو نہ دیکھا تو قیمت میں بہت زیادہ اضافہ ہوگا۔ الیکٹرسٹی کے شعبے میں پاور کے نقصانات کو ختم کرنے کیلئے کام کیا جائے، زراعت کا شعبہ الایمنگ ہے۔
Agriculture
زراعت میں گروتھ میں کمی خطرناک ہے،گروتھ کو بڑھانے کیلئے زراعت کریڈٹ بڑھانا کافی نہیں ہے،حکومت پیداواری لاگت میں کمی لائے، ٹیکس کے شعبے میں بڑے انتشار سے حکومت اس انتشار کو ختم کرکے ٹیکس اصلاحات کمیشن بنائے،یہ حکومت ایس آر اوز پر چلتی رہی ہے،حکومت نے ایس او اوز کے ذریعے 237ارب کی رعایت دی ہے،اس میں صوبوں کا57فیصد حصہ ہوتا ہے،حکومت نئے ایس آر اوز کے جو237 ارب کے ہیں،ان کو فوری طور پر ختم کئے جائیں،اس کے علاوہ حکومت 340 ارب کے کل ایس آر اوز کو ختم کرے۔ حکومت نے غیر ملکی سرمایہ کاری پر 20 فیصد کارپوریشن ٹیکس ہوگا جبکہ اندرونی سرمایہ کاری پر 35 فیصد کارپوریٹنگ ٹیکس ہوگا،حکومت کالو گوروں کافرق ختم کرے اور سب کیلئے 35 فیصد ٹیکس رکھے،انہوں نے کہا کہ جو ادارے زیروں نفع دکھا رہے ہیں۔
ان کا سرکاری آڈٹ کیا جائے،جو ٹیکس ادا نہیں کر رہے ان کو معطل کیا جائے،حکومت کیپیٹل گین ٹیکس کم کرے،انہوں نے کہا کہ موبائل کمپنیاں جو سیلز ٹیکس لے رہی ہیں یہ سروس ہے،یہ پیسہ صوبائی حکومتوں کو دیا جانا چاہئے۔ حکومت بہت سے ہائی ویز کے منصوبے پی ایس ڈی پی میں شامل کریں،پاک چین اکنامک کوریڈور کا روٹ ایسا ہو کہ چاروں صوبے فائدہ حاصل کرسکے اور ووٹ کا فیصلہ مشترکہ مفادات کونسل میں ہو۔ قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ نے کہا کہ خورشید شاہ نے کہا کہ گذشتہ دور میں مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نواز شریف نے اعلان کیا تھا کہ کشکول توڑ دیں گے اور اس کا ردعمل بھی اچھا ملا مگر افسوس کہ اب حکومت نے آتے ہی بڑا کشکول اٹھالیا ہے۔
ملک کو کس طرح چلایا جارہا ہے جس پر سینیٹر اسحق ڈار نے اس موقع پر کہا کہ آپ کے پانچ سالہ دور میں بھی بہت قرض اٹھائے گئے جس پر سید خورشید شاہ نے کہا کہ اچھی روایات برقرار رکھیں جتنا قرض ہم نے پانچ سال میں لیا آپ نے ایک سال میں حاصل کرلیا ہے۔اس موقع پر مسلم لیگ (ن) کی رکن قومی اسمبلی تہمینہ دولتانہ بار بار مداخلت کررہی تھیں جس پر سپیکر نے انہیں خاموش کرادیا اس موقع پر سید خورشید شاہ نے کہا کہ تہمینہ! کیا آپ میں اتنی طاقت ہے کہ میرے ہوتے ہوئے بولیں۔آپ بولیں سپیکر چپ کرادیں گے جس پر ایک مرتبہ پھر ایوان میں قہقہہ لگ گیا اور اس پر وزیراعظم بھی مسکرادئیے۔حکومت کی ایک سال کی کارکردگی صفر ہے’ قانون سازی کے حوالے سے اپوزیشن سے مشاورت نہیں کی جارہی جس کے باعث حکومت کو مشکلات کا سامنا ہے۔
ایک سال میں حکومت نے کوئی معاشی اہداف حاصل نہیں کئے’ کرسی اقتدار بھی عجیب شے ہے کہ غریب کی جھونپڑی بھی محل لگتی ہے۔وزیر خزانہ کی شاگردی کرنا پڑے گی’ وہ سونے کو پتھر اور پتھر کو سونا بنانے کے ماہر ہیں’ یقیناً بجٹ تفصیلات کے بعد وہ اپوزیشن کو ناک آؤٹ کردیں گے مگر حکومت نے ایک سال میں اتنا قرضہ اٹھالیا جتنا ہم نے پانچ سال میں بھی نہیں اٹھایا تھا’ حکومت نے بہت بڑا کشکول اٹھالیا ہے’ ہمیں دہشت گردی’ گندم اور توانائی بحران ورثے میں ملے’ مارشلاؤں نے اس ملک کا بیڑا غرق کردیا’ نیا پاکستان بنانے والے بھی ہوش کے ناخن لیں ہمیں اسی پاکستان کو بہتر بنانا ہے’ ملک کا ہر پیدا ہونے والا بچہ 84 ہزار روپے کا مقروض ہے۔
وفاقی بجٹ ست سرمایہ داروں ،جاگیر داروں اور مٹھی بھر اشرافیہ کے سوا کسی کو کوئی فائدہ نہیں پہنچے گا۔ کم ازکم بنیادی تنخواہ پندرہ ہزار روپے مقرر کی جانی چاہیے تھی۔ تعلیم اورصحت کی ذمہ دار حکومت نے وفاقی بجٹ میں صحت جیسے اہم شعبوں کو نظر انداز کیا گیاہے۔ یوٹیلیٹی بلز کی مد میں عوام کیلئے کسی سبسڈی کا اعلان نہیں کیا گیا۔ بیروز گاری کے خاتمے کیلئے کوئی مربوط پلان ہی نہیں دیا گیا ۔ حکومت اپنے انتخابی منشور کے مطابق عوام کو ریلیف دینے میں ناکام ہوگئی ہے اور دوسری طرف اعلانیہ غیر اعلانیہ بجلی کی لوڈشیڈنگ نے معیشت کو تباہی کے داہنے لاکھڑا کیا ہے اور لوڈشیڈنگ کو کنٹرول کرنے کی بجائے روز بروزا ضافہ ہوتا جارہا ہے جوکہ انتہائی افسوس ناک عمل ہے۔