متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے منشور 2013ء کا اجراء ایک تاریخی اہمیت کا حامل ہے۔ متحدہ قومی موومنٹ نے پاکستان کی خوشحالی اور ترقی کیلئے اپنی سوچ اور عزائم کا اظہار کیا ہے۔ قائد تحریک الطاف حسین پاکستان میں مثبت تبدیلی کی علامت ہیں اور قائد تحریک الطاف حسین چاہتے ہیں کہ پاکستان میں سے چند خاندانوں کی سیاست پر سے اجارہ داری ختم ہو اور عوام کو پاکستان میں اقتدار واختیار ملے۔ پاکستان کو ترقی اور خوشحالی کے راستے پر گامزن کرنے کیلئے 98 فیصد عوام کو بااختیار کرنا ہوگا۔
متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے عوام کو روشن خیال، اعتدال پسند بنانا چاہتی ہے اور ایک ایسے معاشرے کا قیام چاہتی ہے جہاں پر تمام لوگوں کو ذات، رنگ، نسل، زبان، علاقہ، جنس، مذہب سے بالاتر ہوکر برابر کا پاکستانی اور مساوی حقوق کا حق دار تسلیم کیا جائے۔ متحدہ قومی موومنٹ کے منشور میں تعلیم کو پہلی ترجیح دی گئی ہے۔ تعلیم تمام تکنیکی اور معاشرتی ترقی کی بنیاد ہے اوریہ بیروزگاری کے خلاف ڈھال ہے۔ ایم کیو ایم پاکستان کے بجٹ میں تعلیم کے اخراجات کو کل قومی پیداوار کے 2.2 سے بڑھا کر 5 فیصد تک لانا چاہتی ہے جبکہ صوبوں کیلئے ان کے مالیاتی بجٹ کا 20 فیصد تعلیم کے شعبے پر مختص کرنا چاہتی ہے۔
دنیا میں جو قومیں آج ترقی یافتہ اور مہذب سمجھی جاتی ہیں انہوں نے اپنے ملک میں نظام تعلیم کو بہتر کیا اور اپنے عوام کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کیا۔ انسانی وسائل کو ترقی دئیے بغیر کوئی معاشرہ ترقی نہیں کرسکتا۔ ایم کیو ایم ہر پاکستانی کو اچھی اور معیاری صحت کی سہولیات دلوانا چاہتی ہے۔ اور ایک سہ نکاتی حکمت عملی پہ عمل کرنا چاہتی ہے۔
کہ وفاق صحت کے شعبے میں باقاعدگی لانے کیلئے اہم کردار ادا کرے اور نہ صرف صحت سے متعلق بین الاقوامی تنظیموں سے مدد لے بلکہ ان کے تجویز کردہ اقدامات پر بھی عمل کرے۔ اٹھارہویں ترمیم کے تحت صوبوں کو ان کے صحت سے متعلقہ حکمت عملی اور منصوبے بنانے کیلئے اختیارات کی منتقلی کو جاری رکھا جائے تاکہ وہ صحت کے شعبے میں صوبائی سطح پر بہتری لاسکے۔ مقامی حکومتوں کا کردار علاقائی سطح پر طبی سرگرمیوں کی نگرانی کرنے اور مؤثر عملدرآمد کیلئے بحال کیا جائے۔
پاکستان کی خوشحالی کا انحصار خود مختار اور آزاد معاشی حکمت عملی پر ہی ہے۔ عام آدمی کی معیار زندگی کو بہتر بنانے کیلئے غربت کا خاتمہ اشیائے سلف کی قیمتوں کو ایک مقررہ مدت میں کم کرنا جس میں سرکاری ونجی سفری ذرائع تیل پٹرول ودیگر سفری سہولیات شامل ہیں۔ ایم کیو ایم سمجھتی ہے کہ بغیر ٹیکسیشن کے کوئی نمائندگی نہیں ہونی چاہئے اور معاشرے کے تمام طبقات کے لوگوں کو اپنی اپنی آمدن کے مطابق ٹیکس دینا چاہئے۔ وفاقی حکومت کے اخراجات میں قناعت اور اختیارات کی منتقلی کو مدنظر رکھتے ہوئے غیر ترقیاتی اخراجات وقت کی ضرورت ہیں۔
Pakistan
پاکستان میں ایک طویل عرصہ فوجی حکومت رہی اور سول گورنمنٹ میں بھی بیورورکریسی کا اہم رول رہا۔ لیکن عوام کے مسائل حل نہ ہوئے۔ ایم کیو ایم گڈ گورننس پر یقین رکھتی ہے۔ اور ایسا چین آف کمانڈ تشکیل دیناچاہتی ہے جس کے ذریعے پاکستان میں تمام ادارے باہمی طور پر مربوط ہوں اور ایک مؤثر حکمت عملی کے ذریعے کام کرے۔ ایم کیو ایم میرٹ کے حصول پر سختی سے عملدرآمد چاہتی ہے اور ایم کیو ایم سمجھتی ہے کہ صدر، وزیر اعظم اور دیگر اعلیٰ عہدوں پر فائز لوگوں کے پاس خفیہ فنڈز کا حساب کتاب بھی پارلیمنٹ کی پبلک اکائونٹس کمیٹی میں پیش کیا جانا ضروری ہے۔
پاکستان میں بدعنوانی کا عنصر معاشرے کیلئے زہرقاتل ہے۔ ایم کیو ایم صوبائی سطح پر نیشنل اکائونٹ بلٹی بیورو نیب کے طرز پر ایک صوبائی ادارے کا قیام چاہتی ہے۔ اور ایم کیو ایم پاکستان میں سے دہشت گردی کے خاتمے کیلئے ایک قومی دہشت گرد مخالف پالیسی کا فوری قیام چاہتی ہے جس میں منتخب نمائندوں پولیس، بیوروکریسی اور مسلح افواج کی مشترکہ قیادت سے رائے لی جائے۔ پاکستان میں امن وامان کی صورتحال کو بہتر کرنے کیلئے ایم کیو ایم شہریوں کی زندگی، املاک اور عزت نفس کی حفاظت کی ذمے دار حکومت وقت اور ریاست کو سمجھتی ہے اور ایم کیو ایم یہ سمجھتی ہے کہ پولیس کی خدمات کو ازسرنو مربوط کیا جائے اور اسے عوامی خدمت پر مبنی بنایا جائے۔
پاکستان کی آبادی کا ایک بڑا حصہ خط غربت سے زندگی گزار رہا ہے اور اس کی ایک بڑی وجہ انسانی وسائل کی ترقی نہ ہونا بھی ہے۔ ایم کیو ایم موثر مینجمنٹ کے ذریعے پاکستان کے عوام کو خوشحالی اور ترقی کی راہ پر گامزن کرے گی۔ پورے ملک میں صنعتوںکے قیام، کاٹیج انڈسٹریز، ووکیشنل تعلیمی اداروں قائم کرنے سے بیروزگاری کم ہوگی اور ذراعت پر مبنی صنعتوں کے دیہی علاقوں میں قیام پر مراعات دینا وقت کی ضرورت ہے۔ خواتین کے انڈسٹریل ہوم کو پاکستان کے ہر ضلع اور ہر تحصیل لیول پر بنانا وقت کی ضرورت ہے۔
انرجی کرائسز نے پاکستان کی معیشت کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ توانائی معاشی ترقی کیلئے ضروری ہے کیونکہ تجارت، صنعت آپس میں منسلک ہیں اور اس کے لئے انرجی لازم وملزوم ہے۔ پاکستان میں توانائی کی طلب ورسدمیں 6 ہزار میگا واٹ کا خلع موجود ہے۔ پاکستان کی اوسط روزانہ توانائی کی ضرورت 20 میگا واٹ ہے۔ توانائی کے شعبے میں مسلسل مسائل کی وجہ یہ ہے کہ جاری قرضے اب تقریباً 384 بلین کو پہنچ چکے ہیں۔ فوری طور پر کم قیمت اور زیادہ گیس اور بجلی کے منصوبوں کی تکمیل ضروری ہے۔ جن کا تعلق ایران، قطر اور مڈل ایسٹ کی ریاستوں سے ہے۔
ایم کیو ایم یہ سمجھتی ہے کہ بجلی کے پلانٹس کو کھاد کے پلانٹس پر ترجیح دی جائے گی۔ تاکہ موجودہ بجلی پلانٹس نہایت محنت سے متبادل توانائی کے ذرائع جیسا کہ ہوائی توانائی، شمسی توانائی اور گیس کی توانائی کو دریافت کیاجانا ضروری ہے۔ اس مقصدکیلئے جدید ٹیکنالوجیز کا مقامی مہارت کے ساتھ استعمال کیا جائے گا۔
MQM
ایم کیو ایم یہ سمجھتی ہے کہ پوری دنیا میں بلدیاتی نظام ہی ترقی اور خوشحالی کے نئے راستے کھولتا ہے۔ اور مقامی خودمختاری اور اختیارات کی نچلی سطح تک منتقلی معاشروں کو آگے بڑھانے میں مددگار ثابت ہوتی ہے۔ ایم کیو ایم یہ سمجھتی ہے کہ بلدیاتی نظام کو پاکستان میں موثر انداز میں نافذ کرنے کی ضرورت ہے۔ اور پاکستان کے آئین آرٹیکل 140 میں درج ہے تمام صوبے مقامی حکومت کا ایسا نظام وضع کریں جس کے تحت سیاسی، انتظامی اور مالی ذمہ داریاں اور اختیارات صوبوں کو منتقل کیا جاسکے۔
ایم کیو ایم دیہی معیشت پر توجہ دیکر اس کو بھی ترقی دینا چاہتی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ شہری منصوبوں پر بھی یقین رکھتی ہے۔ ایم کیو ایم یہ سمجھتی ہے کہ بلدیاتی اداروں کو بااختیار بنائے جانا وقت کی ضرورت ہے۔ ایم کیو ایم اعتماد سازی کے اقدامات کے ذریعے پڑوسی ممالک کے ساتھ تعلقات کو بہتر کرنا چاہتی ہے اور آز اد خارجہ پالیسی پر یقین رکھتی ہے۔
پاکستان میں زراعت کل قومی پیداوار کا 21 فیصد پیدا کرتی ہے۔ اور خاص طور پر مقامی استعمال سے زائد گندم اور چاول پیداکرکے زرمبادلہ بچاتی ہے۔ ایم کیو ایم پاکستان میں سے جاگیرداری نظام کا خاتمہ چاہتی ہے۔ ایم کیو ایم نے زرعی اصلاحات کا بل 2010ء پیش کرکے ایک تجویز دی جو قومی اسمبلی میں 12 اکتوبر 2010ء زیر بحث آیا اور ابھی تک جاگیرداروں کی غالب اکثریت رکھنے والی پارلیمنٹ سے منظور نہ ہوا۔
کیونکہ جاگیرداروں کی اکثریت اپنی زمین جو کہ چھتیس ایکڑ نہری زمین اور 54 ایکڑ باران سے زائدزمین چھوڑنا نہیں چاہتے۔ ایم کیو ایم زرعی اصلاحات پر یقین رکھتی ہے۔ اور ایم کیو ایم یہ چاہتی ہے کہ زرعی آمدنی پر ٹیکس لگایا جائے۔ ہر ضلع کی سطح پر چھوٹے قرضوں کو گرامین بینک آف بنگلہ دیش کے طرز پرمتعارف کروایا جائے۔ پاکستان میں دنیا کا بہترین نہری نظام موجود ہے لیکن بد انتظامی اور دیکھ بھال اور توسیع کے فقدان کی وجہ سے اس سے ہم وہ فائدے نہیں اٹھا پارہے جو اٹھائے جاسکتے ہیں۔ موجودہ دور میں دنیا کی ترقی اور خوشحالی کا معیار آئی ٹی سے وابستہ ہے۔ پاکستان میں آئی ٹی سٹیز وقت کی ضرورت ہے۔
قائد تحریک الطاف حسین پاکستان کی ترقی، خوشحالی اور استحکام پر یقین رکھتے ہیں۔ اے پنجاب کے لوگو! بالخصوص پنجاب کے عوام، نوجوان آگے بڑھیں اور قائد تحریک الطاف حسین کا ساتھ دیں۔ الطاف حسین کا مشن پاکستان کی بقائ، سلامتی اور استحکام کا مشن ہے۔ قائد تحریک الطاف حسین سے محبت پاکستان سے محبت ہے۔