مجاز سے حقیقت

Competent

Competent

تحریر: شاہ بانو میر
دنیا مجاز کی بہترین مثال ہے مجاز کا یہ سفر ہمیں اصل سے دور سوچ کے بنائے ہوئے طلسم کدے میں لے جاتا ہے ایسے میں اللہ پاک کا احسان ہو جائے اُس انسان پر جو اشاروں کو دیکھتا اور متلاشی رہتا ہے ہدایت کا مہربان ہو اللہ تو کوئی استاد بھیج دے رہنمائی کیلئے وہ استاد اسکے پردوں میں پوشیدہ اشاروں کو واضح کرتا ہے شکوک و شبہات کو دور کر کے اصل سے ملاتا ہے اور مجازی دنیا کے مکرو فریب سے آشنا کروا تا ہے قرآن سے جُوڑتا ہے یوں آپکو آہستہ آہستہ بے مقصد زندگی کی اصل حقیقت سے روشناس کرواتے ہوئے آپ کی پیدائش کا مقصد بیان کرتا ہے استاد بیان کرتا ہے آپکو امت الوسط بنا کر دنیا میں ایسی جماعت بنا کر بھیجا گیا جو بھلائی کے کاموں کا حکم دیتی اور برائی سے روکتی ہے ۔

وہ بات اگر دل میں پیوست ہو گئی تو دل کی دنیا “”دُھل “”جائے گی نتھار کر صاف شفاف دل ہو جائے گا جس پر اب کسی دنیاوی اثر کا ہونا ناممکن ہوگا اور اس کے بعد ذہن پھر عمل دھلیں گے اور پھر آگے اور آگے جستجو جنون کھوج اور پھر اس محنت کے بعد آپ خالص ہو کرچن لئے جاتے ہیں اور پاتے ہیں اللہ کو اور اسکے بے شمار انعامات ہی انعامات آزما ئش شرط ہے اللہ پاک کا بندہ اسکی جانب آتا ہے گزشتہ زندگی سے تائب ہو کر اس کے دین کیلئے جب خالص ہوتا ہے تو اسکی رحمتوں کا وسیع دائرہ اس کے وجود کو اپنے حصار میں لے کر اس کو ایسی جہت عطا کردیتا ہے کہ وہ سب کے درمیان رہتے ہوئے بھی اللہ کی کھوج اسکی تلاش میں ہر رشتے سے ہر تعلق سے ہر رابطے سے ہر آسائش سے ہر خواہش سے ہرمحبت سے لاتعلق ہو جاتا ہے جو اس حقیقت کو پانے سے پہلے اسکی منتہائے نظر تھی ۔

خواہشات کی غلامی سے آزادی مل جاتی ہے مجاز سے حقیقت کے سفرکی یہ اساس ہے مجاز عام کیفیت ہے لوگوں سے متاثر ہونا ان کو سوچنا ان کی ذات ان کی صفات کو بیا کرنا ایسے عمل ہیں جو اللہ سے دور کرتے ہیں جب دل میں ایمان کا بیج نمو پاجاتا ہے تو یہ مجازی رشتے یہ تعلق یہ اعتقادات اور واسطے سب کے سب ایک ایک کر کے نہاں ہوتے جاتے ہیں دل کی دیواریں نور الہیٰ سے دھلنا شروع ہوتی ہیں جگہ پہلے پُر تھی بہت سے ناموں سے اب مخصوص عمل سے وہاں صرف ایک کی جگہ بنائی جا رہی ہے اسکو شراکت پسند ہی نہیں ایسے عمل کے آغاز میں درد کا موجزن سمندر پرشور لہروں سے بار بار احتجاج کرے گا سر پٹخے گا دل سے نکلتے ہوئے یہ واسطے یہ تعلق دہائی دیں گے اگر “”آپ پر اللہ عنایت ہوئی تو ہر درد ہر تکلیف سے ان آزمائشوں سے روتے ہوئے تڑپتے ہوئے اور ان سب کو صرف اپنے رب کیلئے چھوڑتے ہوئے کامیابی سے نکل آئیں گے “” اپنے اعتبار اپنے اعتقاد اپنے عبادات کے محور سے تعلق توڑ کر صرف ایک اللہ ایک رسول کو مرکز نگاہ بنانا اور دوسروں کو یکسر مٹا دینا ہی اصل ہجرت نفس ہے جو ہر کسی کے بس کا کام نہیں ہے مگر اللہ سے محبت کا تقاضہ ہے کہ کوئی اور نہیں چاہیے صرف اللہ واحد لا شریک سارے گناہ معاف ہو سکتے ہیں۔

مگر شرک نہیں ہماری تقسیم شدہ شدید محبتیں دراصل شرک کے زمرے میں آتی ہیں جنہیں شرک فی الذات کہا جاتا ہے تقاضہ ہی یہ ہے کہ ہر ایک سے اوپر بلند”” الواحد”” کا نام اللہ پاک کو اپنی ذات کے ساتھ کسی بھی انداز میں کسی بھی طرح سے کہیں بھی کسی بھی مقدار میں کم یا زیادہ اس مسند پے کوئی اور نہیں چاہیے اس کی محبت کا نظام اتنا جانداراور اتنا طاقتور ہے کہ وہ جب دنیاوی واسطوں سے ٹکراتا ہے تو وہ دنیا کے ہر واسطےکو پاش پاش کر دیتا ہے اور ابھر کا صرف ایک نام آتا ہے اللہ اگر کوئی رضائے الہیٰ کا حقیقی طلبگار ہے تو وہ اس سے انحراف برت ہی نہیں سکتا اگر اسکو اللہ پاک نے اپنی محبت عطا کر دی ہے تو وہ کہیں بھی کتنا ہی مجاز میں گُم ہو اللہ پاک نے اس کے حصار کو توڑ کر اپنے روبرو لانا ہی لانا ہے بے خبری جتنی طویل مدت پر مبنی ہوگی سفر بھی اتنا ہی تکلیف دہ بے سکون رہے گا۔

Allah

Allah

سمجھ جتنی جلدی آگئی کہ اللہ کی عنایت ہوگئی ہے اور اب وہ اُس ذات کو کسی اور کی سوچ میں مبتلا نہیں دیکھ سکتا وہ اپنے پیارے بندے سے تقاضہ صرف ایک کرتا ہے کہ قل ھواللہ ھو احد احد کے معنی کو سمجھنا ہوگا اور دوسرے تمام سہاروں ہمیں سکون دیتے ہیں طاقت فراہم کرتے ہیں مگر جب قرآن ان کو مسترد کرتا ہے تو ہمیں بھی صرف قرآن و سنت پے ہی یقین رکھنا ہے اعلیٰ ترین ایمان یہی ہے قرآن و سنت اس کے علاوہ کچھ نہیں اور جس دن قرآن پاک سے گفتگو شروع ہوئی اور الفاظ دل میں گرفت پانے لگے تو دنیا کا ہر حرف بے وقعت بے معنی ہو کر رہ جائے گا وہیں سے ختم ہوگا مجاز ہمشیہ ہمیشہ کیلئے اور حقیقی پکا سچا رنگ صبغت اللہ کا چڑھے گا دل پر جب دل پر نہ کسی کی گفتگو نہ کسی ذات نہ کسی انسان کا کمال اثر کرے گا ہر انسان مخلوق ہے اور مخلوق سے متاثر ہونا اور اس متاثرہ کیفیت کو اللہ کی ذات کے روبرو کرنا ہی شرک ہے متاثر ہونا ہے تو اللہ سے سوچنا ہے تو اللہ کو چاہنا ہے تو اللہ کو مانگنا ہے تو اللہ سے رونا ہے تو اللہ کے سامنے لکھنا ہے تو اللہ کیلئے
صبح سے سونے تک خالق کا شکر ادا کر سکتے ہیں؟ انسان کے کس وصف نے ان کو ہمارے درمیان معتبر اور اعلیٰ بنایا ؟ انکی عبادات نے اس لئے عبادات اور خالق کو تھا میں آئیے
مجاز کو ترک کر کے دعا کریں کہ حقیقی مل جائے وہ مل گیا تو یہ دنیاوی رشتہ ضروریات سب فنا پھر نہ کسی لیلیٰ کو مجنوں کی ضرورت ہوگی اور نہ ہی کوئی قیس کسی شیریں نامی خاتون کیلئے پاگل پن دکھائے گا مجاز سے حقیقت کا سفر کمزور لوگ نہیں کر پاتے خواہش نفسانی انہیں اس راہ پر چلنے میں آڑے ہاتھوں لیتی ہیں حقیقی پُرخار راہ ہے دنیا مجازی انداز میں مگر جس کے دل میں حقیقت جڑ پکڑ گئی وہ سکون پا گیا وہ شرک سے بچ گیا اور اپنے رب کا پیارا ہوگیا ۔

شرک مجاز کی قسم ہے اور حقیقی اس سے نجات اور فلاح کی راہ انعامات اکرامات کی راہ اللہ کی خوشنودی کی طلب اور اس کی خشیعت سے لرزیدہ جسم انسان کو ہر انسان اور ہر مادی تعلق سے بری الذمہ کر کے صرف اسکی وجدان اس کا عرفان اسکا شعور عطا کرتا ہے
مجاز کی کیفیت تعلق اور رشتوں کے اتار چڑہاو سے مسلسل تبدیل ہوتی ہے جبکہ حقیقی صرف ایک ہی نام دو عنوان ہیں قرآن و سنت تیسرے کی تو کہیں گنجائش ہی نہیں حضرت عیسیٰ کی پیدائش پر مفروضات کو بیان کیا جاتا تھا اور 3 خداوں کیلئے استعمال کرتے تھے وہاں فرمایا اللہ پاک نے کہ خُدا 3 یہ نہ کہو یہ تمہارے حق میں بہتر ہے جس کو کبھی تبدیل نہیں ہونا اسی لئے تو حقیقی لوگ آپکو مجازی دنیا سے الگ تھلگ لگتے ہیں تعلق باللہ کے بعد ہر مجازی ذات اور اسکی صفت صفر ہو جاتی ہے سکون کی طلب آپکو کشاں کشاں جائے نماز کی جانب لے جاتی ہے اور پھر سبحان اللہ سجدہ کیا انداز ربوبیت سکھایا گیا کیسا اظہار ہے تشکر کا محبت کا احترام کا عزت کا خود کو ذرہ بے نشاں کر کے اسکو تقویت دینا اپنی نفی کرنا اور اللہ کیلئے تعظیم کا اصرار یہی تو ہے حقیقت اس کے بعد کوئی لذت کوئی اشتہاء کسی اور کیلئے کہاں رہ جاتی ہے بادشاہوں کے بادشاہ شہنشاہوں کے شہنشاہ سے آپ بات خود کر سکتے ہیں ۔

live

live

براہ راست اس سے زیادہ معتبر اور رتبہ کون سا بادشاہ دے گا آپکو ؟ معتبر کر لیجئے خود کو یہی واحد یہی راستہ ہے نبیوں کا صحابہ کرام کا صالحین شہداء صدیقین کا راستہ ہے سادہ سچا رنگ و روغن سے عاری صرف ایک ہی تکرار ایک ہی رنگ ایک ہی سوچ اللہ وہ فلاح پا گئے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے جن کو یہ سادگی عاجزی اور گہری خاموشی اس کے ساتھ ساتھ سوچنے سمجھنے غورو فکر کرنے کا تحفہ اللہ پاک نے عطا کر دیا مانگیئے اللہ سے کہ ایک یہی رنگ ہے یہی نام ہے اور یہی سچ ہے مجاز فنا ہو کر حقیقت کو پا لیتا ہے اور تب طلب دنیاوی رشتوں کی نہیں رہ جاتی اور اگر وہ کہے وہ مجاز سے دور حقیقت پر ہے اور اب بھی اسکی خواہشات دنیاوی ہیں تو وہ حقیقت کو پا ہی نہیں سکا مجاز حقیقت میں ڈھلتا ہے تو قرب الہیٰ ملتا ہے ورنہ مجاز صرف دنیاوی محبتوں کا متلاشی دکھائی دیتا ہے مرتے دم تک حقیقت پانے والےکا وجدان ایک ہی گردان کرتا ہے ۔

اللہ
اللہ
اللہ

Shahbano Mir

Shahbano Mir

تحریر: شاہ بانو میر