کراچی (جیوڈیسک) غیرملکی سرمایہ کاروں کے نمائندہ ایوان صنعت و تجارت نے ملک میں ڈیجیٹیل اور مالیاتی خدمات کا دائرہ وسیع کرتے ہوئے معاشی ترقی کی شرح نمو بڑھانے کے لیے ٹیلی کام سیکٹر کو اہم قرار دیتے ہوئے اس شعبے پر عائد ٹیکسوں میں کمی اور ٹیلی کام سیکٹر کو صنعت کا درجہ دینے کامطالبہ کردیا ہے۔
پاکستان میں کاروبار اور سرمایہ کاری کرنیوالی غیرملکی کمپنیوں کے نمائندہ اوورسیز انویسٹرزچیمبر آف کامرس نے آئندہ مالی سال کے وفاقی بجٹ کے لیے ارسال کی جانے والی اپنی تجاویز میں کہا ہے کہ پاکستان میں ٹیلی کام سیکٹر ٹیکسوں کی ادائیگی کے لحاظ سے سرفہرست شعبوں میں شامل ہے۔ ٹیلی کام سیکٹر پاکستان میں سب سے زیادہ ٹیکس ادا کرنے والی انڈسٹریز میں چوتھا بڑا شعبہ ہے ٹیکسوں کی بھرمار کی وجہ سے صارفین موبائل فون کی سہولت سے استفادہ کرنے کیلیے 30 فیصد اخراجات ٹیکسوں کی مد میں ادا کررہے ہیں جو خطے میں ٹیلی کمیونی کیشن جیسی بنیادی ضرورت پر عائد ٹیکسوں کے تناسب کی سب سے بلند شرح ہے۔
اوورسیز انویسٹرز چیمبر آف کامرس کی جانب سے ارسال کی جانے والی تجاویز میں ٹیلی کام سیکٹر کو صنعت کا درجہ دینے کے ساتھ سم ٹیکس، موبائل فون کی درآمد پر سیلز ٹیکس، آئی ایم ای آئی ٹیکس کے خاتمے، فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی اور ایڈوانس ٹیکس کو بھی دیگر شعبوں کے برابر کی سطح تک لانے کی تجاویز شامل ہیں۔اوورسیز انویسٹرز چیمبر آف کامرس نے ٹیلی کام پالیسی اور انکم ٹیکس قوانین میں عدم مطابقت کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا ہے کہ قومی ٹیلی کام پالیسی میں ٹیلی کام سیکٹر کو صنعت کا درجہ دیا گیا ہے تاہم انکم ٹیکس قوانین کے تحت ٹیلی کام کمپنیوں کی جانب سے انفرااسٹرکچر ایکویپمنٹ اور آلات کی درآمد پر کمرشل امپورٹرز کے برابر ٹیکس وصول کیا جارہا ہے۔
پاکستان میں تھری جی لائسنس کی نیلامی کے دوران وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار ٹیلی کام انڈسٹری کو صنعت کا درجہ دینے کی یقین دہانی کراچکے ہیں۔ وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی اور وزارت صنعت و پیداوار نے بھی ٹیلی کام سیکٹر کو صنعت کا درجہ دے دیا ہے تاہم ایف بی آر کی جانب سے اب تک ٹیلی کام سیکٹر کو صنعت کا درجہ نہیں دیا گیا۔ ٹیلی کام آلات کی امپورٹ پر 5.5فیصد فائنل ٹیکس وصول کیا جارہا ہے جو ایڈجسٹ نہیں کرایا جاسکتا۔
غیرملکی سرمایہ کاروں کے چیمبر کے مطابق ٹیلی کام کمپنیاں کمرشل امپورٹرز نہیں ہیں بلکہ یہ آلات ملک میں ٹیلی کام سیکٹر کا دائرہ وسیع کرنے اور خدمات کی فراہمی کیلیے امپورٹ کیے جاتے ہیں اس لیے ضروری ہے کہ آلات کی درآمد کے وقت عائد کردہ انکم ٹیکس حتمی ٹیکس کے بجائے انکم ٹیکس قوانین کے سیکشن 148 کے تحت ایڈوانس انکم ٹیکس کے طور پر وصول کیے جائیں۔سرمایہ کاروں کے مطابق آلات کی درآمد پر فکسڈ ٹیکس کی وجہ سے نیٹ ورک میں توسیع کی لاگت بڑھ رہی ہے تھری جی خدمات کا دائرہ ملک بھر میں وسیع کرنے کیلیے لاگت میں کمی ناگزیر ہے۔او آئی سی سی آئی نے اپنی تجاویز میں موبائل ہینڈ سیٹ اور خدمات پر عائد متعدد ٹیکسوں کو سرمایہ کاری کی راہ میں رکاوٹ قرار دیا ہے۔
چیمبر کے مطابق صارف کو سم کے اجرا پر 250 روپے کا سیلز ٹیکس عائد ہے اسی طرح آئی ایم ای آئی ٹیکس کے تحت موبائل سیٹ کے لحا ظ سے 300 سے ایک ہزار روپے فی سیٹ ٹیکس وصول کیا جارہا ہے۔ ان ٹیکسوں کی وجہ سے ٹیلی کام سیکٹر میں سرمایہ کاری متاثر ہورہی ہے بالخصوص تھری جی ٹیکنالوجی کے پھیلاؤ کیلیے انفرااسٹرکچر پر کی جانے والی سرمایہ کاری میں رکاوٹ کا سامنا ہے۔
اس لیے ضروری ہے کہ سم ٹیکس، آئی ایم ای آئی ٹیکس اور ہینڈ سیٹ کی امپورٹ پر عائد سیلز ٹیکس ختم کیا جائے۔ا وورسیز انویسٹرز کے مطابق ٹیلی کام سیکٹر کے ساتھ صارفین پر بھی براہ راست متعدد ٹیکس عائد ہیں جن میں 18.5 فیصد فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی اور ٹیلی کام خدمات پر عائد 14 فیصد ایڈوانس ٹیکس شامل ہیں چیمبر نے تجویز دی ہے کہ ٹیلی کام سیکٹر پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کی شرح کم کرکے 16 فیصد کی سطح پر لائی جائے جبکہ ایڈوانس انکم ٹیکس بھی کم کرکے 5فیصد کی سطح پر لایا جائے۔