اسلام آباد (اصل میڈیا ڈیسک) وفاقی وزیر برائے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی فواد چوہدری کے اس بیان سے کئی حلقوں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے، جس میں انہوں نے کہا تھا کہ حکومت بھارت کے لیے فضائی راستہ بند کرنے پر غور کر رہی ہے۔
وفاقی وزیر نے اپنی ایک ٹوئیٹ میں یہ بھی کہا تھا کہ حکومت بھارت کے لیے افغان ٹرانزٹ ٹریڈ بھی بند کرنے کا سوچ رہی ہے۔ مبصرین کا خیال ہے کہ اس اقدام سے پاکستان کی زبوں حال معیشت کو مزید نقصان ہو گا جبکہ نئی دہلی حکومت ایسے کسی نقصان کو برداشت کر سکتی ہے کیونکہ اس کی معیشیت بہت بڑی ہے۔ ماہرین کا خِیال ہے کہ حکومت کو جلد بازی میں اس حوالے سے کام نہیں کرنا چاہیے بلکہ احتیاط برتنی چاہیے۔
واضح رہے کہ پاکستان کا مالیاتی خسارہ اپنی ریکارڈ حدوں کو چھو چکا ہے جب کہ ٹیکس کی ادائیگی کے ہدف کو بھی حکومت پورا نہیں کر پائی۔ اس کے علاوہ بڑھتی ہوئی پیداواری لاگت کی وجہ سے صنعت کار پریشان ہیں جب کہ تاجروں نے حکومتی پالیسیوں کے خلاف مہم شروع کر رکھی ہے۔ ان تمام عوامل کے علاوہ پاکستان کی ایوی ایشن انڈسٹری پہلے ہی مشکلات کا شکار ہے اور ماہرین کا کہنا ہے کہ حکومت کے اس اقدام سے ایوی ایشن انڈسٹری اور خصوصا پی آئی اے کو بہت نقصان ہوگا۔
پی آئی اے کے سابق ایم ڈی کیپٹن ریٹائرڈ اعجاز ہارون کا کہنا ہے کہ اس سے پاکستان کو نقصان ہوگا۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، ”اس سے ہمارے سارے مشرقی راستے کٹ جائیں گے۔ ڈھاکہ، بنکاک، کھٹمنڈو اور دوسرے مشرقی راستوں کے لیے ہمیں لمبا راستہ لینا پڑے گا، جس سے ہمیں شدید مالی نقصان ہوگا۔ اس لیے ہمیں بہت سوچ سمجھ کر پالیسی بنانی پڑے گی جو ہمیں اس نقصان سے بچا سکے۔ بھارت کی طرح ہمیں بھی ایسے راستے بند کرنے سے نقصان ہوگا۔ لہذا جلد بازی میں کوئی کام نہ کیا جائے بلکہ اس کے حوالے سے ایک مربوط پالیسی بنائی جائے۔ ورنہ پی آئی اے کو بہت نقصان ہوگا۔
پلوامہ حملے کے بعد پاکستان نے بھارت کے لیے فضائی راستہ بند کر دیا تھا۔ ماہرین کے خیال میں اس سے بھارت کو اسی ملین ڈالرز جب کہ پاکستان کو پچاس ملین ڈالرز کا نقصان ہوا تھا۔
کئی ماہرین کا خیال ہے کہ اب اگر ایسا دوبارہ کیا گیا، تو اس سے نہ صرف ملک کو مالی نقصان ہوگا بلکہ کئی ممالک سے اسلام آباد کے تعلقات مزید خراب بھی ہو سکتے ہیں۔ پاکستانی معیشت پر گہری نظر والے تجزیہ نگار ضیا الدین کے خیال میں بھارت ایسے نقصان کو برداشت کر سکتا ہے لیکن پاکستان کے لیے یہ ممکن نہیں۔ ”فضائی حدود بند کرنے کا مطلب یہ ہے کہ یہاں تھائی ایئر نہیں آئے گی جب کہ متحدہ عرب امارات کی فضائی کمپنیاں بھی نہیں آئیں گی۔ میرے خیال میں اس مسئلے پر یو اے ای سے تعلقات خراب ہو سکتے ہیں کیونکہ وہ پہلے ہی ہم سے ناراض ہیں۔ لہذا حکومت کو بہت دیکھ بھال کر فیصلہ کرنا چاہیے ورنہ ہمیں بہت نقصان ہوگا۔
ضیا الدین کا خیال ہے کہ حکومت لوگوں کے جذبات کو ٹھنڈا کرنے کے لے اس طرح کی باتیں کر رہی ہے۔ “لیکن مجھے نہیں لگتا کہ حکومت ایسا کرے گی۔ یہاں تک کہ بھارت سے تجارت اب بھی ہورہی ہے۔ دبی سے مشینیں آرہی ہیں، جو دراصل بھارتی مشینیں ہیں کیونکہ یو اے ای تو مشینیں نہیں بناتا۔ افغان ٹرانزٹ ٹریڈ بھی بند کرنا مشکل ہوگا کیونکہ اس میں بین الاقوامی قوانین حال ہیں۔ تاہم اگر حکومت کچھ کرنا چاہتی ہے تو اسے سوچ بیچار کرنا ہوگا۔”
لیکن دفاعی ماہرین کا خیال ہے کہ بھارت کے ساتھ کشیدگی بڑھ رہی ہے اور اس لیے پاکستان اسے ہر طرح سے نقصان پہچانے کی کوشش کرے گا۔ معروف دفاعی تجزیہ نگار جنرل امجد شعیب کا کہنا ہے، ”بھارت پاکستان کو ہر طریقے سے نقصان پہنچا رہا ہے تو پاکستان کیسے خاموش بیٹھ سکتا ہے۔ بھارت ایف اے ٹی ایف کے ذریعے ہمیں معاشی نقصان پہنچانے کی بھرپور کوشش کر رہا ہے۔ اوباما کے دور میں ہمیں آٹھ ایف سولہ ملنے والے تھے ، بھارت نے ہمارے خلاف لابی کر کے وہ رکوائے۔ تو اب پاکستان جس طرح بھی ہوگا بھارت کو نقصان پہنچائے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ اس ممکنہ پابندی کا ایک مقصد تو عوامی جذبات کو ٹھنڈا کرنا ہے۔ ”لیکن دوسرا مقصد بھارت کو معاشی نقصان پہنچانا ہے۔ جب ایسی کیفیت ہوگی تو اس میں ایسے اقدامات کرنے پڑتے ہیں۔ تاہم حکومت بہت سوچ بچار کر کے یہ فیصلہ کرے۔ جلدی میں فیصلہ کرنا مناسب نہیں ہوگا۔
قائد اعظم یونیورسٹی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات سے وابستہ ڈاکڑ ظفر جسپال اس اعلان کو بڑھتی ہوئی کشیدگی سے جوڑتے ہیں۔ ”بھارت اور پاکستان میں کشیدگی بڑھ رہی ہے۔ ایسے میں بھارت پاکستان کے خلاف کچھ بھی کر سکتا ہے۔ تو پاکستان بھی یہ قدم اٹھا سکتا ہے۔