کراچی: اربن ڈیموکریٹک فرنٹ (UDF) کے بانی چیرمین ناہید حسین نے کہا ہے کہ ہوا بازی کے عالمی دن کے موقع پر ہماری ملک میں طیارے کا خوفناک حادثہ لمحہ فکریہ ہے۔ جس میں 48 افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں اور اس حادثے میں اسلامی اسکالر اور مشہور نعت خواہ جنید جمشید اور اُن کی اہلیہ بھی ہلاک ہوئے۔ اس عالمی دن کوبنانے کا مقصد مسافروں کو تحفظ ترین سفر کی سہولیات فراہم کرنے کے ساتھ ہوا بازی کے اہم شعبے اور جدید خطوط پر استوار کرنا ہوتا ہے ، مگر بدقسمتی سے پاکستان میں اس کے برعکس اقدامات سے فضائی حادثات میں مسلسل اضافہ ریکارڈ کیا جارہا ہے۔ ملک میں اب تک 36فضائی حادثات میں 700سے زائد افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں۔
ایسا لگ رہا ہے کہ پاکستان میں سول ایوایشن اتھارٹی اپنے فرائض احسن طریقے سے انجام نہیں دے پارہی۔ پاکستان میں طیارے کا المناک حادثہ اس وقت پیش آیا جب ملک اور دنیا میں ہوا بازی کا عالمی دن منایا جارہا تھا ۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے عہدیداران وکارکنان کے ہفتہ وار اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ ناہید حسین نے مزید کہا پاکستانی حکمرانوں نے محض اپنی سیاسی وابستگیوں اور مفادات کے خاطر پی۔ آئی۔ اے کو تباہی سے دوچار کیا ۔ جس ملک میں قانون نہ ہو، احتساب نہ ہو اور احتسابی ادارے مفلوج قرار دیئے جائیں تو پھر سنگین حادثات اور واقعات جنم لیتے ہیں۔ حیرت اس بات پر نہیں کہ ATRطیارہ حادثے کا شکار ہوا بلکہ حیرت اس بات پر ہے کہ پی۔ آئی۔ اے کے باقی طیارے کیسے اُٹھ رہے ہیں، اس کا مطلب یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ موجود ہے ، جو ہمیشہ مسافروں کی حفاظت کرتا ہے ورنہ ہماری حکومتی انتظامیہ نے تو مسافروں کو زندہ درگور کرانے میں کوئی کثر نہیں چھوڑی ہے ۔ طیاروں کی اندر کے حالات ناقابل بیان ہے۔ مینٹنینس برائے نام کی جاتی ہے۔
طیاروں میں ضرورت سے زیادہ کا وزن لادھا جاتا ہے اور پائلٹوں سے بیگار لی جاتی ہے۔ ان کا اکثر دو یا تین دن تک جاگتے رہنا ایسے میں جب وہ جہاز اُڑائینگے تو پھر یقینا ذہنی دبائو کا شکار ہی رہیں گے اور جب جہازوں کو بسوں یا پھر کوچز کی مانند چلایا جائیگا تو پھر حادثات تو ہونگے۔ ملک کی تمام وہ جماعتیں جنہوں نے اپنی سیاسی وابستگی ظاہر کرنے اور اپنا ووٹ بینک مضبوط بنانے کیلئے پی۔ آئی۔ اے ، اسٹیل میل اور دیگر اہم سرکاری اداروں کو تباہی سے دوچار کرایا،ضرورت سے زیادہ اسٹاف جنہیں ائیڈیل تنخواہیں مقرر کراکے ملازمتیں دی جاتی رہی ، نتیجے کی طور پر ادارے مالی بحران کا شکار ہوتے رہے اور اس کو درست کرنے اور رواں رکھنے کی مد میں اخراجات میں کمی آتی رہی جس کا خمیازہ سیاسی ملازمین نے نہیں بھگتا بلکہ ادارے اور اس سے منسوب انفرااسٹرکچرکو بھگتنا پھڑا۔ ناہید حسین نے کہا کیا حکمرانوں کو اس انداز میں اپنی قوم کی زندگیوں سے کھیلنے کا کیا حق حاصل ہے؟ پارلیمنٹ میں موجود آراکین اپنی آئیڈیل تنخواہوں سے ہٹ کر ملک و قوم کا بھی سوچے یہ حادثہ ان کے ساتھ بھی پیش آ سکتا ہے۔
ناہید حسین نے کہا لگتا ہے ملک کے طول وعرض میں خواہ کتنے ہی ہوائی حادثات کیوں نہ ہوجائیں ، سیاسی انتظامیہ ATRطیاروں پر پابندی نہیں لگائی گی کیونکہ ان کا ذاتی کمیشن ان ATRجہازوں سے جڑا ہے ،لہٰذا قوم خود ہی ان طیاروں میں سفر کرنے سے گریز کریں تاکہ ان کی جاں بخشی ہوسکے۔ کیونکہ ان حکمرانوں میں کوئی لیڈر نہیں سب کے سب بزنس مین ہے، اگر کوئی لیڈر ہوتا تو وہ اپنی عوام کا درد محسوس کرتا ، کاروبار کرنے والوں کو لیڈر نہیں کہاجاتا ، اس فرق کو سمجھنا بہت ہی ضروری ہے ۔ ناہید حسین نے کہا اگر ملک میں سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری جیسا کوئی ہوتا تو سوموٹو نوٹس کے تحت حکمرانوں کو عدالت میں لا کھڑا کردیتا ۔ انہوں نے کہا موجودہ طیارے کی تباہی کو حادثہ نہیں بلکہ اجتماعی قتل کہا جاسکتا ہے جوکہ پی ۔ آئی۔ اے کی انتظامیہ نے کیا ۔ صرف اعظم سیگل کے استعفیٰ سے مرنے والوں کے ورثہ کو انصاف نہیں ملا اور نہ ہی انشورنس کی رقو م مرنے والو کا نعم البدل ہے۔بلکہ قتل کا بدلہ قتل یعنی انصاف پر مبنی ہونا چاہیے کیونکہ حضرت عمر فاروق نے کہا تھا کہ دریا فرعات کے کنارے ایک کتا اگر بھوک سے مرجائے تو عمر جوابدہ ہو گا۔
ناہید حسین نے آخر میں کہا اب بھی وقت ہے سیاستداں اور حکمراں سدھر جائے اور ملک کو اصول ، ضابطے ، قانون اور قاعدے کی طرح چلائے اور عوام کو ڈلیور کریں ورنہ تاریخ میں اچھے ناموں سے یاد نہیں کیئے جائیں گے۔ ”کیونکہ اب ایسا نہیں چلے گا”۔ سیکریٹری انفارمیشن ناصر علی