تحریر: محمداعظم عظیم اعظم ہر زمانے کی ہر تہذیب کے ہر معاشرے کے اہلِ دانش کا لوگوں کو ہمیشہ سے ہی یہ کہنااور مشورہ رہاہے کہ” حاکم وقت کی اگاڑی پچھاڑی سے بچناچاہئے یوں جس زمانے کی جس تہذیب کے جس ملک اور معاشرے کے خاص وعام افراد نے دانشوروں کی اِس نصیحت پر عمل کیا اور اسے تھامے رکھا وہی کامیاب رہے اور حاکم وقت کی طرف سے بہت سی ایسی پریشانیوں اور مشکلات سے بچے رہے جس کا حاکم وقت سارا الزام افرادپرڈالتے … جیساکہ حاکم وقت کی فطرت ہوتی ہے کہ وہ اپنے بہت سے اقدامات اور منصوبوں کی ناکامی کا ساراالزام اپنے افراد، وزراءاور مشیران پر ڈالتے…اور خودبچ نکلتے ہیں..مگر لگتاہے کہ جیسے ہمارے یہاں مشرقِ وسطیٰ کے موجودہ تنازع پر ایساہوابھی .. اورنہیںبھی ہواہے ….یعنی پاکستانی سیاستدانوں، حکومتی وزراءاور مشیرانِ حکومت نے بھی اِس کا خیال کئے بغیر کہ حاکم وقت کی اگاڑی پچھاڑی سے بچناچاہئے
مشرقِ وسطیٰ پر اپنے دل کی بات اپنی زبان سے یوں نکالی جیسی اُنہوں نے چاہی …اور پھر یمن تنازع پر سعودی عرب کی پاکستان سے مددکی درخواست کرنے کے باوجود سعودی عرب کی مددنہ کرنے کی ٹھان کر نہ صرف سعودی عرب جیسے بڑے برادرمسلم مُلک کو مشکل کی گھڑی میں اتنہاچھوڑدیا…..بلکہ وزیراعظم نواز شریف کے لاکھ یہ چاہنے کے باوجودکہ …” ہمیں سعودی عرب کی ہر حال میں ہر قسم سے مددکرنی چاہئے…“ کی خواہشات کا بھی گلا گھونٹ دیا…اور وزیراعظم نواز شریف کو بھی دوست و بھائی بردار ملک سعودی عرب کے سامنے شرمندہ ہونے کے لئے چھوڑ دیا ہے۔
جبکہ یہاں یہ امر یقینا قابلِ ذکر ضرور ہے کہ ہمارے سیاستدانوں اور اندورنِ خانہ بہت سے حکومتی وزراءاور مشیران ِ خاص اور اراکین پارلیمنٹ کی مشترکہ حکمتِ عملی کے باعث یمن تنازع پر سعودی عرب کی مدد نہ کرنے پر وزیراعظم نواز شریف کو سعودی عرب سے کس قدرسُبکی کا سامناکرناپڑاہوگا…آج جس کا اندازہ توصرف وزیراعظم نوازشریف کو ہی ہوگا…مگر راقم الحرف کو بھی اتنااندازہ ضرور ہے کہ سعودی عرب کی پاکستان سے مددمانگنے پر انکار کرنے کے لئے وزیر اعظم نواشریف کو کتنی ہمت اور حوصلے کا سہارالیناپڑہوگایقینا ایساکرنے کے لئے وزیراعظم نوازشریف کوانکارکے الفاظ اپنی زبان سے اداکرنے کے لئے اپنے کاندھوں پر پہاڑوںکے وزن سے بھی زیادہ بھاری محسوس کرناپڑاہوگااور جب وزیر اعظم نوازشریف سعودی عرب کو اپنی امدادفراہم نہ کرنے کے لئے کہہ رہے ہوں گے تو وہ خود کو دنیا کے پہاڑوں کے نیچے دباہوامحسوس کررہے ہوں گے۔
Parliament
بہر حال …!! اب ایسے میں ہمیں اپنے اراکین پارلیمنٹ اور دوسری سیاسی اور مذہبی جماعتوں کی جانب سے بلائی جانے والی آل پارٹیزکانفرنسوں میں یمن تنازعِ پر سعودی عرب کی کسی بھی حوالے سے مددنہ کرنے کی بات پر جہاں بہت افسوس ہوااور ہم یہ سوچتے رہ گئے کہ کیا ہمارے اراکین پارلیمنٹ اورحکومتی وزراءاور مشیرانِ خاص میں سے کوئی بھی ایسادانانہیں…؟؟ جو یہ سمجھ کر دوسروں کو بھی یہ بتاتااور سمجھاسکتاکہ” ہمیں حاکم وقت کی اگاڑی پچھاڑی سے بچناچاہئے“ اور حاکم وقت کے ظاہری وباطنی فیصلوں اور خواہشات کا احترام کرتے ہوئے اپنے وزیراعظم نوازشریف کی یمن تنازع پر سعودی عرب کی مددکرنے کی خواہش پر اپنابھی ایساہی فیصلہ دیناچاہئے جیساکہ وزیراعظم نوازشریف قلبی اور دماغی و سیاسی اور اُمتِ محمدیہﷺ کی بہتری کے لئے چاہتے ہیں مگر افسوس ہے کہ ہمارے یہاں ایسانہیں ہوا۔
اِس منظر میں ہمیں تاریخ کا یہ واقعہ یادآیاکہ ایک مرتبہ کا ذکرہے کہ ”بادشاہ نوشیرواں عادل کے وزیرایک مہم میں مملکت کی بہتری کے لئے باہمی مشورہ کررہے تھے اِس مجلس مشاورت میں بادشاہ خود بھی موجودتھا،بزرجمہرجو بادشاہ کاسب سے داناوزیرتھانے بادشاہ کی تدبیر کی تائیدکی تو دوسرے وزیروں نے اِس سے کہاکہ عجیب بات ہے …؟؟تم نے بادشاہ کی معمولی سی بات کو بڑی ترجیح اور اہمیت دی جبکہ اِس میں غیر معمولی کوئی بات نہیں…ہماری بتائی ہوئی تدبیروں سے بادشاہ کی تدبیر باکل وزنی نہیں…ہمیں حیرت ہے کہ تم نے ایساکیوں کیا…؟؟جس پر بزرجمہرنے یوں جواب دیا…کہ میں نے یہ اِس واسطے کیا ہے کہ انجام کارکسی کو معلوم نہیں…کون جانے کیاہو…؟؟بہتری یہی ہے کہ بادشاہ کی تدبیر کو ہی ترجیح دی جائے…اِس سے ایک فائدہ یہ ہوگاکہ اگربادشاہ کی تدبیرکارگرنہ ہوئی تو ناکامی کی ذمہ داری خودبادشاہ پر ہوگی
Plan
اور ہم میں سے کوئی بھی اِس کا موردِ الزام نہ ٹھہرے گا،دوسری صورت میں اگر تدبیر کار گرثابت ہوئی … توہم سب کو بادشاہ کی خوشنودی حاصل ہوگی…کہ ہم سب نے اِس کی رائے کی تائید کی… ہم سب یہ بھی اچھی طرح جانتے ہیںکہ بادشاہ اپنی رائے کے خلاف کوئی بات سُن کر خوش نہیں ہوتے…اگرچہ بادشاہ کی رائے کے خلاف کچھ کہنااپنے خون سے ہاتھ رنگناہے…“یہاں اِس تاریخی واقعے کو بیان کرنے کا مقصدیہ نکتہ سمجھانااور بتاناہے کہ ازل ہی سے اہلِ دانش اور داناکا یہ مشورہ رہاہے کہ حاکم وقت کی اگاڑی پچھاڑی سے بچنا چاہئے،صاحب اختیارحاکم کے سامنے دانش مندی اور دانائی کی زرہ پہن کرجاناچاہئے مگر افسوس ہے کہ جیسے ہمارے اراکینِ پارلیمنٹ نے یمن تنازعِ پر سعودی عرب کی مددمانگنے والی درخواست پر اپناسخت رویہ اپناکر ایک طرف جہاں سعودی عرب کے احسانات اور امدادوںکا بھرم چکناچورکردیا
ادھرہی اپنے حاکم وقت کی سعودی عرب کی مددفراہم کرنے کی خواہشات کو بھی کرچی کرچی کرکے رکھ دیاہے بہرکیف ..!! یہ تو ایک معاملہ تھامگراَب ہمارے سیاستدانوں ، اراکین پارلیمنٹ اور اداروں کے سربراہان کو آئندہ کے لئے یہ نکتہ ضرورذہن نشین رکھناچاہئے کہ کسی بھی معاملے میںاپنی رائے اور مشورہ دینے سے قبل حاکم وقت کی اگاڑی پچھاڑی سے بچنابھی لازمی ہے“اور اِس کے ساتھ ہی وزیراعظم نوازشریف کو بھی یہ چاہئے تھاکہ وہ سب کی سُننے کے بعد اپنی صلاحیتوں اور سیاسی تدبر سے بھی کام لیتے اور اپنی صوابدیدکے بعد سعودی عرب کی مددکا فیصلہ دے دیتے..توآج کم ازکم اِنہیں سعودی عرب کے سامنے سُبکی تونہ اُٹھانی پڑتی۔