محترم قارئین ! ن لیگی جیالوں سے معذرت کے ساتھ کہ میں ان کے لیڈر صاحب کی کچھ خوبیاں عوامی رائے کے ساتھ بیان کر نا چاہتا ہوں ۔اور انکے لیڈر کو وہ وعدہ یاد کرانا چاہتا ہوں جو انہوں نے تلہ گنگ کی عوام سے بھر ے جلسے میں کیا تھا۔چند دن پہلے مجھے ایک لیگی جیالے نے راستے میں جا تے روک کر کہا کہ آپ جب ہما رے بارے کالم لکھتے ہیں تو وہ ہما رے دلوں کو چیرتے گزرتے ہیں تو میں نے ان کو کہا بھی تھا کہ اگر آپ کی قیادت یا ہما رے مقا می ن لیگ کے لیڈران تلہ گنگ کی ترقی اور عوامی مسائل پر توجہ دینا شروع کر دیں گے تو بندہ نا چیز بھی دلوں کو چیر نے وا لے کالم لکھنا بند کر دے گا۔
یہ بات آپ سب جا نتے ہیں کہ تلہ گنگ کی عوام سے میاں محمد نواز شریف نے آکر تلہ گنگ کی سرزمین پہ جب ووٹ مانگا تو ساتھ یہ وعدہ بھی کر دیا تھاکہ تلہ گنگ کو میں ضلع کا درجہ دوں گا ۔یہ ایک ایسا نعرہ تھا کہ جس پر عوام کی سوچوں کا رخ ن لیگ کی طرف پھر گیا تھا اور عوام نے پرویز الہی کے کاموں کو بھلا کر اپنا ووٹ شیر کو دینے کی ٹھان لی کہ اگر تلہ گنگ ضلع بن گیا تو اس سے تلہ گنگ کی ترقی کا عمل مزید تیز ہو گا۔
عوام نے سمجھا تھا کہ میاں محمد نواز شریف جھوٹ نہیں بو لیں گے اپنی بات کا پاس رکھیں گے اور تلہ گنگ کی قسمت کے بدلنے کا وقت قریب آگیا ہے اس لئے ووٹ ان کو دو ۔ لیکن بدقسمتی سے یہ میاں محمد نواز شریف کی طرف سے ایک نعرہ تھا جس کو سیاسی فراڈ کا نام دیا جا ئے تو غلط نہ ہو گا ۔ کیو نکہ اسی ایک نعرے کی بدولت تو ن لیگ کو ووٹ ملا ۔ لیکن عوام کو کیا ملا؟؟؟ وہی لو لی پوپ جو پہلے کی طرح سیاسی لوگوں نے دیا اور اپنا وقت پاس کر کے چلے گئے۔
Election
عوامی حلقوں کا کہنا ہے کہ تلہ گنگ کی عوام کا کام بنتا ہے کہ اب بلدیاتی الیکشن میں ن لیگ کو یہ احساس دلائے کہ وعدہ کر کے اگر وفا نہ کیا جا ئے تو اس کا انجام کیا ہو تا ہے جب تک ہما ری سادہ عوام بلدیاتی الیکشن میں ن لیگ کے امیدواروں کو دوسرا رخ نہیں دکھا ئی گی تب تک ن لیگ کی اعلیٰ قیادت کی گردن سے سریا نہیں نکل سکتا ۔ عوامی حلقوں کا کہنا ہے کہ ن لیگ کی گردن کا سریا اس وقت تک نہیں نکلے گا جب تک عوام ان کو دھچکا نہیں دے گی اور یہ احساس نہیں دلا ئے گی کہ ہم جا گ چکے ہیں۔
عوامی حلقوں کا کہنا ہے کہ تلہ گنگ کی غیور عوام کو جاگنا ہو گا ۔ اور اس بات کو بھی سمجھنا ہو گا کہ تلہ گنگ کو ضلع کا درجہ کیو نکر نہیں مل رہا کون سے ایسے عناصر ہیںکہ جس کی وجہ سے تلہ گنگ کی عوام کو انتظار کر نا پڑ رہا ہے ۔ اگر ماضی کی طرف نظر دوڑائی جا ئے تو معلوم ہو گا کہ تلہ گنگ 1998 ء میں 21 وارڈز پر مشتمل تھا لیکن آج سترہ سال گزرنے کو ہیں اور کتنی آبادی میں اضا فہ بھی ہوا اور اگر ٹیکنیکل انداز سے دیکھا جائے تو تلہ گنگ کی وارڈز میں اضا فہ ہو نا چا ہیے تھا لیکن بدقسمتی سے یہ 21 سے 12 وارڈز پر لے آئے۔علاقے ترقی کر تے ہیں ہم پیچھے کی دوڑ میں ہیں ۔کاغذی کاروائی میں بھی یہ بتا نے کی کوشش کی جا رہی کہ تم اس قابل نہیں کہ تمہیں ضلع کا درجہ دیا جائے۔
اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ یہ بات بھی بہت زیادہ ضلع کی پوزیشن کو متاثر کر رہی ہے کہ سٹی چھوٹا ہے اس کو تحصیل تک ہی محدود رکھا جا ئے جبکہ یہ تو کاغذی کاروائی میںظاہر کای جا رہا ہے اور اس اتنے بڑی سازش کو روکنے والا کو ئی دیکھا ئی نہیں دیا ۔ کیو نکہ ایم این اے سردار ممتاز خان ٹمن کو کیا غرض اتنی باریک بینی سے سوچنے کی ۔ان کا کام چل رہا ہے اور ویسے بھی وہ تو ن لیگیوں کی نظر میں ایک درویش انسان ہیں ۔ اس لئے درویش کو کیا غرض کہ ترقی کا عمل جا ری ہو یا نہ ہو۔
Talagang Road
اور رہی بات ملک سلیم اقبال کی یا ظہور انور کی تو ان کو کیا غرض کیو نکہ ایک صاحب بیمار پڑے ہیں تو دوسرے صاحب ہیں کہ ملک شہر یار کو حلقہ میں سیٹ کرنے کی کوشش میں ہیں۔ ان تمام کو تلہ گنگ کے ضلع بننے یا نہ بننے سے کوئی غرض نہیں۔ اسی لئے تو کسی کو اس بات پر اعتراض نہیں کہ تلہ گنگ کی 21 سے 12 وارڈ کیوں بنا دی گئی ہیں ۔یہ کاغذی ہیر پھیر کیسا۔ ان کو نہیں غرض ان کا کام بھی چل رہا ہے۔
ایک طرف ضلع نہیںبن رہا صرف عوام کی آنکھوں میں دھول جھو نکی گئی ہے اور دوسر ی طرف عوام پر ایک اور ظلم ڈھا دیا گیا ہے کہ نادرا کی سیکنڈ شفٹ کا خاتمہ کر دیا گیا ہے۔جسکی وجہ سے وہ لوگ جو دن بھر اپنے کاروبار میں مصروف رہنے کی وجہ سے یا وہ لوگ جو سرکاری و نیم سرکاری نوکریاں کر تے ہیں جن کو دن میں آفس سے نکلنے کا وقت نہیں ملتا ۔ وہ شام کے وقت انتہائی آسانی سے نادرا آفس آکر اپنا مسئلہ حل کروا لیتے تھے۔یہ سہولت عوام سے چھین جا نے پر ن لیگ کے مقا می رہنما ؤں کے کان پر جوں تک نہ رہنگی ۔ کسی کو یہ احساس نہیںہوا کہ یہ تو عوام کا حق چھینا گیا ہے ۔ ہم اس پر آواز اٹھائیں۔
عوامی حلقوں کا کہنا ہے کہ نادرا سیکنڈ شفٹ کا خاتمہ اور ن لیگ کے مقا می لیڈران کی خاموشی ، یہ بھی اس بات کا مظہر ہے کہ تلہ گنگ کو محرومیاں دی جائیں تا کہ یہ اس قدر پستے چلے جائیں کہ ان کو ضلع کی سوچ آنے کو بھی نہ آئے ۔ کیو نکہ کسی کو جب یہ احساس دلایا جا ئے کہ تم تو اس قابل ہی نہیں ہو جس کا تم مطا لبہ کر رہے ہو ۔ تو وہ خود ہی اس کی سوچ کر نا چھوڑ دیتا ہے ۔اور اب تلہ گنگ کی عوام سے بھی یہی حال کیا جا رہا ہے اور وہ بھی مختلف مراحل میں کہ ان کو یہ احساس دلاؤ کہ تم اس قابل نہیں کہ تمہیں ترقی کی راہ پر گامزن کیا جا ئے۔
City Hospital Talagang
سٹی ہسپتال کا حال دیکھا جائے تو یہ بھی اسی طرف اشارہ ہے کہ ان کو محرومیاں دوتا کہ ان کو ضلع کی سوچ نہ آئے بلکہ ان کو اپنی محرومی کا احساس ہو ۔ سٹی ہسپتال جس نیت سے بنا یا گیا تھا اس حساب سے تو اب کچھ بھی نہیں صرف ڈسپنسری کا سماں پیش کرتا ہے ۔ جو لیڈران مخلص ہو تے ہیں وہ یہ نہیں دیکھتے کہ یہ کام کس پارٹی نے کیا ہے بلکہ وہ دیکھتے ہیں کہ عوام کا فا ئدہ کس میں ہے۔
اگر سٹی ہسپتال میںصفا ئی کا انتظام دیکھا جا ئے تو معلوم ہو تا ہے کہ جیسے ان کے پاس صفا ئی کر نے والا کو ئی ہے ہی نہیں ۔ ٹائیلیں ٹوٹی پڑی ہیں ۔ عوام کو کو ئی سہولت نہیں ، عملہ انتہا ئی بداخلاق ہے ۔دوا ہے نہیں۔یہ سب کیا ہے؟؟؟۔ عوام کو ان کا حق نہ دے کر صرف نعروں کی بنیاد پر اور جھوٹے وعدوں کی بنیاد پر ووٹ مانگنا یہ کہاں کا انصاف ہے ۔ ن لیگ کی اعلیٰ قیادت کو چاہیے کہ کھو کھلے نعروں کی جان چھوڑ کر درست انداز میں لوگوں کو سہولیات دیں۔
عوامی حلقوں کا کہنا ہے کہ ارباب اختیار یہ سن لیں کہ تلہ گنگ کی غیور عوام تمہا رے ان اوچھے ہتھکنڈوں میں آنے وا لی نہیں ۔ تلہ گنگ کو ن لیگ کا گڑھ کہنے وا لوں کو بہت جلد عوام یہ سوچنے پر مجبور کر ے گی کہ تلہ گنگ ایک انتہائی اہم علا قہ ہے ۔ اور اس کو ضلع کا درجہ جلد دینا چا ہیے ۔ تلہ گنگ کومصنو عی محرومیوں کا گڑھ نہ بنایا جا ئے ۔ بلکہ ن لیگ کی قیادت کو سوچنا ہوگا کہ تلہ گنگ کی ترقی کا عمل مسلسل رکاوٹ کا شکار ہے ۔ اور وہ تب ہی ممکن ہے کہ تلہ گنگ کو جلد ضلع کا درجہ دیا جا ئے۔
Malik Amir Nawaz
تحریر : ملک عامر نواز aamir.malik26@yahoo.com 0300-5476104