عوامی تحریک کی وطن کو کرپٹ لیڈر شپ سے نجات دلانے کیلئے جدوجہد

Quaid e Azam

Quaid e Azam

تحریر : خضر حیات تارڑ
”بانی پاکستان محمد علی جناح کی ولولہ انگیز قیادت سے اقبال کے خواب کی تعبیر تو مل گئی مگر قائد کو قدرت نے نئے پاکستان کی خدمت اور تکمیل کیلئے مہلت عمل ہی نہ دی۔یہی موقع تھا جب جاگیرداروںاوروڈیروں نے مسلم لیگ پر قبضہ کر لیا اور نوزائیدہ پاکستان کی تقدیر پرمسلط ہو گئے۔ یعنی منزل انہیں ملی جو شریک سفر نہ تھے۔قیام پاکستان کے مقاصد تو دور کی بات وہ اپنی اساس اور شناخت سے محروم ہوگیا۔ان نا اہل کرپٹ حکمرانوں کی وجہ سے ملک امن اور ترقی سے کوسوں دور چلا گیا،جو قومی تاریخ کا تلخ ترین باب ہے۔ ہوس اقتدارکے متوالوں نے ١٩٧١ء میں ملک کو ہی دو لخت کر دیا۔اس سانحہ سے عبرت حاصل کرنے کی بجائے اسٹیٹس کو نظام کی حامی اشرافیہ مافیا بقیہ حصہ پر قابض رہنے کیلئے ہر جائز ونا جائز حربہ استعمال کرتی رہی۔

قائداعظم کے پاکستان اور عوام کی بد حالی کو دیکھتے ہوئے ایک محب وطن شخصیت ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے ایک ایسی تحریک کی ضرورت محسوس کی ،جس کے پلیٹ فارم سے کرپٹ اشرافیہ کے مفادات کو تحفظ دینے والے ، غریب عوام کے حقوق سلب کرنے والے استحصالی نظام کے خاتمے کیلئے آئینی،قانونی اور جمہوری جدوجہد کا آغاز کیا جا سکے۔PATکا قیام٢٥مئی١٩٨٩ء کوموچی دروازہ لاہور میںعمل میں آیا۔PATکے قیام کا مقصد یہ تھاکہ وطن عزیز میں مصطفوی سیاست کوفروغ دیا جائے اور ہر قسم کے ظلم و استحصال سے پاک جدید اسلامی و جمہوری معاشرے کے قیام کی راہ ہموار کی جائے۔PATکو فعال بنانا اس لئے نا گزیر ہے کہ قوت نافذہ کے حصول کے بغیر اس نظام کے عملی نفاذ کے خواب کو شرمندہ تعبیر نہیں کیا جا سکتا۔

PATکا نعرہ انقلاب کاروباری نہیں اس کے پیچھے درد،فکر اور احساس موجود ہے۔ موجودہ بحرانوں کے ذمہ دار حکمران طبقات جو گذشتہ ٦٠سالوں سے باری باری حکومتی ایوانوں میں آتے رہے،ملکی و قومی مفاد کی بجائے ذاتی مفاد میں تجوریاں بھرتے اورملکی دولت کو ملک سے باہر منتقل کرتے رہے۔اس وقت ملک دیوالیہ ہو چکا ہے،قوم پر قرضوں کے بوجھ لاد دئے گئے ہیں اور ان لٹیرے حکمرانوں کے محلات،جائیدادیں اور فیکٹریاں ملک سے باہر منتقل ہو چکی ہیں۔ سسکتے بلکتے ،چیختے ہوئے غریب عوام بھوک، پیاس، بیماری، ڈیپریشن کے نتیجہ میںبالآخر خود کشیوں کی طرف بڑھ رہے ہیں۔اس بھیانک منظر کوبدلنے کیلئے TMQاور PATنے اپنے عظیم قائد ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی قیادت میں تبدیلی کا عزم کرتے ہوئے انقلاب کا رخت سفر باندھا۔

Democracy

Democracy

عوام میں بیداری شعور،سیاسی حقوق کی بحالی،حقیقی جمہوریت وقانون کی بالادستی کیلئے جدوجہد کا آغاز ٢٣دسمبر٢٠١٢ء کومینار پاکستان پرایک عظیم الشان جلسہ سے ہوا۔دنیا نے ایک تاریخ ساز منظردیکھا(یہ قائد اعظم کے بعد مینار پاکستان پر سب سے بڑا اجتماع تھا)۔پھرحکومت کے خلاف ١٣سے ١٧جنوری٢٠١٣ئء تک یخ بستہ اور بارش میں بھیگے موسم میں، دنیا کی تاریخ کے منفردوپرامن تاریخی دھرنے کا اہتمام کیا۔جس کا اختتام انتخابی اصلاحات اورغیر آئینی الیکشن کمیشن کی تبدیلی کے وعدوںسے ہوا،مگربعد میںعوام دشمن ،کرپٹ نظام کاحامی حکمران اور سیاسی ٹولہ اپنی کرپشن کوبچانے کیلئے اپنے وعدوں سے پھر گیا۔ تاہم قائد انقلاب ڈاکٹر محمد طاہر القادری، جو آنے والی نسلوں کے مفادات اور ملک کے استحکام کیلئے فیصلے کرتے ہیں، کا الیکشن سے قبل کا موقف درست ثابت ہوا ،جس کی سیاسی و مذہبی لیڈران نے بعد از الیکشن تائید کی کہ” ڈاکٹر طاہر القادری ٹھیک کہتے تھے۔”

١٤اگست کے انقلاب مارچ سے قبل جب ڈاکٹر صاحب نے وطن واپسی کا اعلان کیا، تو ان خائن وغاصب حکمرانوں نے ریاستی دہشت گردی کروا کر ١٤مردو خواتین کو شہید کروایا اور ١٠٠سے زائد کو گولیوں سے چھلنی کر کے زخمی کر دیا ۔جن کے قاتلوں کو بالآخرقصاص دینا ہو گا۔ ماڈل ٹائون اور اسلام آباد میں دی جانے والی قربانیاں رائیگاں نہیں جائیں گی ۔موجودہ حالات میں٧٠روزہ تاریخی دھرنا پاکستانی سیاست کا انوکھا واقعہ ہے۔ان دھرنوں نے ملک میں حق و انصاف کیلئے آواز اٹھانے اور ظالم کے سامنے ثابت قدم رہ کر عوام کو اپنا حق طلب کرنے کا حوصلہ دیا ہے۔حقیقی جمہوریت کیلئے کی گئی کاوش سے ہوس پرستی اور قومی خدمت کے درمیان حد فاصل کھینچ دی گئی ہے۔ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے وطن عزیز کو کرپٹ لیڈر شپ کے شکنجے سے نجات دلانے کیلئے مضبوط بنیاد رکھ دی ہے ۔دھرنا ختم ہو چکا،مگرPATنے قائدانقلاب کی قیادت میں حکمت عملی بدلی ہے ،منزل کے حصول کی جدوجہد نہیں۔انقلاب کو اس دھرتی کا مقدربنانے کا سفر جاری رہے گا۔انشاللہ۔

موجودہ مایوسی اور نا امیدی کی فضا میں قائد انقلاب ڈاکٹر محمد طاہر القادری امید و تبدیلی کی علامت بن چکے ہیں ،جسے نظر انداز نہیں کیا جا سکے گا۔ انقلابی تحریکیں ایک سال یا کئی مہینے جاری رہ کر منزل حاصل نہیں کر پاتیں، بلکہ ملک گیر تبدیلی کے لئے سالہا سال کی مسلسل جدوجہد کی ضرورت ہوتی ہے۔ لہٰذا تبدیلی،انقلاب اور خوشحال پاکستان کیلئے جدوجہد کا قافلہ تھما نہیں،بلکہ رواں دواں ہے۔کوئی بھی راستہ ہو، انقلابی جدوجہد یا انتخابی معرکہ، یہ قافلہ منزل انقلاب کی جانب اسی جوش و جذبے سے گامزن رہے گاجب تک منزل مل نہیں جاتی۔”سچے جذبوں کی قسم، آخر جیت پاکستان اور عوام کی ہو گی انشاء اللہ

K. H. Tarar

K. H. Tarar

تحریر : خضر حیات تارڑ