تحریر : میر افسر امان ان دو الفاظ کا پیچھا کرتے ہوئے ہم ٢٠ جنوری کو اقادمی ادبیات اسلام آباد پہنچے۔ وہ اس طرح کہ اقادمی ادبیات کے رائٹرز ہال میں دائرہ علم و ادب پاکستان کی اسلام آباد شاخ نے علامہ اقبال پر پروگرام رکھا ہوا تھا۔جس میں پورے پاکستان سے دائرہ علم و ادب کے عہداداروں نے شرکت کی۔دائرہ علم و ادب کاممبر ہونے کے ناطے، سیکرٹیری احسن حامد صاحب دائرہ علم و ادب اسلام آباد شاخ نے کافی دن پہلے دعوت نامہ بھیجا تھا۔ ایک دن قبل اس ادارے کے مرکزی صدر جناب احمد حاطب صدیقی صاحب نے ہمیںایس ایم ایس کے ذریعے یاد دہانی کرائی۔ دعوت نامے کے مطابق دائرہ علم و ادب کا شعورِ جمال۔ جمالِ شعورپروگرام کا مرکزی خیال تھا۔اصل میں اس خیال کے تحت شاعر اسلام حضرت علامہ ڈاکٹر شیخ محمد اقبال کے اسلام اور پاکستان کے لیے خدمات پر روشنی ڈالنی تھی۔ اسٹیج سیکرٹیری کے فرائض ریاض عادل صاحب مرکزی جنرل سیکر ٹیری نے انجام دیے۔ پروگرام اللہ کے بابرکت نام سے ہوا۔ اس کے بعد نعت رسول مقبولۖ پیش کی گئی۔
احمد حاطب صدیقی نے بچوں کے ادب پر لکھی گئی ایک کتاب کا تعارف پیش کیا۔ عبیداللہ کیہر صاحب نے سمع وبصر وڈیو کے ذریعے علامہ اقبال کی نظم” مسجدقرطبہ” کی مشہور زمانہ نظم پیش کی جس کو سامعین نے خوب سراہایا۔انہوں کچھ لکھی ہوئی معلومات میں بھی سامعین کے ساتھ شیئر کیں جس میں تاریخ اندلس پر سیر حاصل روشنی ڈالی۔ انہوں نے کہا کہ قصہ کچھ اس طرح تھا کہ ایک عیسائی لیڈر جولین کی بیٹی کے ساتھ اندلس کے حکمران راڈرک نے زیادتی کی۔ وہ عیسائی لیڈر جولین افریقہ کے مسلمان گورنر مسلمان موسیٰ بن نصیر کے پاس فریاد لے کر آیا اور درخواست کی کہ میر ی عزت سے کھیلنے والے سے بدلہ لیا جائے۔ اس پرموسیٰ نے خلیفہ والید سے اجازت مانگی۔ اجازت ملنے پراپنے مشہور جرنیل طارق بن زیاد بر بر کو سمندر کے راستے ٧١١ء میں ١٢٠٠٠ فوجیوںکے ساتھ اندلس فتح کرنے کے لیے بھیجا۔اندلس پہنچ کرمسلمان بہادر سپہ سالار نے اپنی فوج کی کشتیاں جلا ڈالیں۔ اپنے مسلمان سپاہیوںسے پر جوش خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آگے موت یا فتح۔ پھر لڑائی ہوئی اور عیسائی فوجوں کو شکست ہوئی ۔ ایسے بہادر سپہ سالار اور اس کے زیر کمان بہادر فوجیوںکو اللہ نے فتح ہی دینی تھی ۔کشتیاں جلانے والے مسلمانوں کو فتح نصیب ہوئی اور اندلس فتح ہوا۔ مسلمانوں نے اس پر آٹھ سو سال(٨٠٠) سال حکومت کی۔ اندلس کے شاندار باغات، عمارتیں اور گلی کوچے ، علم وادب کی خدمت ایجادات،مسلمان دانشوروں، سائنس دانوں اور حکمرانوں کی آج بھی یاد تازہ کرتے رہتے ہیں۔ اموی خلیفہ عبدالرحمان نے اندلس کے وسییع عریض علاقے اور مستحکم بنیادوں پر مسجد قرطبہ بنائی جو آج بھی اپنی ماضی کی یادیں تازہ کرتی ہے۔ جس کے کئی سو ستون ،محرابیں اور دروازے ہیں۔
مسلمان حکمرانوں نے عیسائیوں اور یہودیوں سے رواداری برتی اور ان کی عبادت گاہوں کی حفاظت کی۔مگر جب مسلمانوں کے زوال کے بعد عیسائیوں نے واپس اندلس پر قبضہ کیا تو اسی مسجد قرطبہ کو کئی گرجا گھروں میں تبدیل کر دیا۔ مسلمانوں پر سفاکیت اور درندگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اتنا ظلم کیا کہ ٨٠٠ سال حکومت کرنے والوں کا ہر نشان مٹا دیا۔ بحری جہازوں پر مسلمانوں کو سوار کر کے جہازوں سمیت سمندر میں ڈبو دیا۔کسی ایک مسلمان کو بھی اندلس میں نہیں چھوڑا۔ اس سفاکیت کانشان اندلس کے ایک چوک پر ایک نام نہاد بہادر عیسائی سپاہی کا مجسمہ نصب ہے۔ ہاتھ میں تلوار لیے ہوئے ایک مسلمان کی کھوپڑی پکڑے ہوئے ہے ۔ ایک اور مسلمان کی کھوپڑی پیروں تلے دبائے ہوئے ہے۔ اس طرح عیسائی سپاہی اپنی سفاکیت وظلم کا مظاہرہ کر رہا ہے۔کشتیاں جلانے اور اندلس فتح کرنے والا طارق بن زیاد، افریقہ کے بر بر قبیلہ سے تعلق رکھتا تھا۔ عیسایوں نے مسلمان ادب میں بربریت کا لفظ بھی طارق بن زیاد کے حوالے اور بر بر قبیلے کے نام سے بر بریت رائج کیا ۔ جسے ہمارے نادان اور انجان لکھاری اپنے تحریروں میں بر بریت لکھ لکھ کر دہراتے رہتے ہیں ہمیں اس سے اجتناب برتنا چاہیے۔ علامہ اقبال لندن کی دوسری کانفرنس کے بعد ہسپانیہ مسجد قرطبہ دیکھنے گئے۔مسجد قرطبہ میں نماز پڑھنے کا ارادہ کیا تو عیسائی مذہبی رہنمائوں نے اجازت نہیں دی۔ بڑی کوشش اور سفارتی لوگوں سے بات چیت کے بعداجازت ملی تو علامہ اقبال نے ایک طویل عرصے کے بعد مسجد قرطبہ میں پہلے اذان دی پھر نماز پڑھی۔ مشہور و معروف نظم مسجد قرطبہ میں بیٹھ کر لکھی۔ جس میں مسلمانوں کے شاندار عہد کو نظم کے پیرائے میں بیان کیا۔
اس کے بعد مہمان خصوصی پروفیسر ڈاکٹر حبیب الرحمان عاصم صاحب نے شعورِ جمال۔ جمال ِشعور پر اپنی تحریری مقالہ پڑھ کر سامعین کو قرآن سنت کی روشنی میںلے گئے۔ انہوں نے کہا کہ مسلمانوں کواپنی اصل کی طرف رجوع کرنا ہو گا۔یہ کسی بھی ادب کے لیے ضروری ہے۔انہوں نے ادب کے معنی دسترخوان بتاتے ہوئے یوںتشریع کی۔ جب ادب دسترخوان ہے تو دستر خوان سجانے سے پہلے سوچ بچار کرنے پڑتی ہے۔چیزیں اکھٹی کرنے پڑتی ہیں۔ پکانی پڑتی ہیں۔ برتن جمع کرنے پڑتے ہیں۔پھر لوگ کہتے ہیں کھانا اچھا اور مزے دار ہے۔ایسے ہی ادب کے اجزء ہیں۔یہی ادب کی پہچان بتاتے ہیں۔ ایسے ہی اچھے ادب کی بھی تعریف کی جاتی ہے۔ ادب خودی کی حفاظت کرتا ہے۔ انہوں نے فرمایا کہ شعورِجمال سے ہی اندلس فتح ہوا۔ شعور جمال سے ہی مسلمان قوم آگے بڑھ سکتی ہے۔ یہ آفاقی پیغام ہے۔ اسی کو علامہ اقبال لے کر چلے تھے۔
آخر میں ڈاکٹر پروفیسرانیس احمد صاحب نے صدارتی خطاب میں فرمایا کہ ادب کے نوبل انعام کا حقدار تو مکہ میں رہنے والا عرب کا مشہور شاعر لبیدتھا۔ جو قرآن کی ایک مختصرسورت کوثر ، جسے عرب کے شاعروں کے طریقے کے مطابق رسول ۖاللہ نے بھی خانہ کعبہ کی دیوار پر لکھوا کر لٹکایا تھا۔ اس شاعر نے قرآن کے الفاظ سے متاثر ہو کر کہا تھا۔ یہ کلام انسان کا نہیں ہو سکتا۔ یہ واقعی اللہ کا کلام ہے۔اس سورت پر نظرپڑھتے ہی لبید نے کلمہ پڑھا اور مسلمان ہو گیا۔ انہوں نے مذید کہا کہ قرآن علم و ادب کا خزانہ ہے۔اس کا ایک ایک لفظ علمی اور ادبی چاشنی سے لبریز ہے۔ قرآن نے سارے واعظ و نصیحت میں سوائے ابولہب کے کسی کا نام لے کر برا نہیں کہا۔ صرف یہ کہا کہ لوگوں کو کیا ہو گیا ہے کہ نصیحت کی طرف مائل نہیں ہوتے۔ آج کے ادیب کو قرآن کے ادب کو آگے پہنچانا ہے۔ادیب کا کام ہے قرآن کو پڑھے، اسے سمجھے، اسے جذب کرے اور پھر نظم اور نثر کے ذریعے اسے آگے اللہ کے بندوں تک پہنچائے اور معاشرے کی اصلاح اور تربیت کرے۔ یہی کام علامہ اقبال نے کیا ۔اس کے لیے ضروری ہے کہ ادیب قرآن و سنت میں ڈوب کر اس سے فیض حاصل کرے۔ دائرہ علم و ادب نے اسی قرآنی ادب کو آگے عوام تک پہنچانے کا مصمم ارادہ کیا ہے۔
آج ہم جس دائرہ علم و ادب کے تحت پروگرام میں شریک ہیں۔ یہ ادارہ غیر سیاسی اور غیر تجارتی ہے۔ اسے قائم کرنے والے تعریف کے مستحق ہیں۔ دائرہ علم و ادب کے احمدحاطب صدیقی ،ریاض عادل ، افتخارکھو کھر اوراس کے ممبران، ملکی اتحاد،نظریاتی تشخص اور دو قومی نظریہ کو عام کرنے میں کام کریںگے۔ اِنہوں نے شعور جمال اور جمال شعور رکھنے والوں کو ایک پلیٹ فارم مہیا کیا۔ اُنہوں بتایا کہ اندلس اور یورپ کے کیتھولک عیسائی اپنی قبائوں پر مسلمانوں کی فن خطاطی کو سامنے رکھتے ہوئے قرآنی آیات سے مزین کرتے ہیں۔انہوں نے کہا مغرب سے متاثر اہل علم نے یونیورسٹیوںکے طالب علموں کو سیکولر ایجنڈا کو آگے بڑھانے پر لگایاہوا ہے۔ وہ علامہ اقبال کی تعلیمات کوبھولتے جا رہے ہیں ۔ کسی کو روشن مستقبل کی لالچ اور کسی کو پیسے دے کر علامہ اقبال کے کلام سے دور کیا جا رہا ہے۔ جبکہ علامہ اقبال کا کلام میں قرآن اور سنت کی تشریح ہے۔ انہوں نے سامعین کو یہ بھی بتایا کہ میں نے اندلس میں ١٩٧١ء میںقرطبہ مسجد میں اسی جگہ نماز پڑھی جہاں پر علامہ اقبال نے نماز ادا کی تھی۔
صاحبو! ہم وہ مسلمان ہیں جنہوں نے دنیا پر ایک ہزار سال(١٠٠٠) شاندار اور کامیاب طریقے سے حکومت کی۔مسلمانوں کے عالیشان علم و ادب سے لبریز دور کو بڑی سازش سے نوجوانوں کے ذہنوں سے نکالنے کی مہم شروع کی ہوئی ہے۔اس شاندار دور کو اسلام دشمنوں نے گرد وغبار سے اٹ دیا ہے۔میڈیا پر علامہ اقبال کے خلاف پروگرام تریب دے کر نوجوان نسل کو ان سے دور کیا جا رہا ہے۔ قائد اعظم بانی پاکستان کو سیکولر ثابت کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں۔حکمران اپنے سیکولر ہونے پر فخر کا اظہار کرتے ہیں۔ ان حالات میں اپنے عالیشان ماضی اور علم و ادب سے لبریز زمانے سے گرد غبار صاف کرنے اور مسلمان نوجوان نسل کو مسلمانوں کی عظمت سے روشناس اور اس سے آگاہ کرنے اور اس سے جوڑنے کے لیے دائرہ علم و ادب کو قائم کیا گیا ہے۔ اس کے ممبران پی ایح ڈی، یونیورسٹیوں کے پروفیسرز،اعلی ٰ تعلیم یافتہ،مصنف ،محقق، شاعر، دانشور اور ہم جیسے عام لکھاریوں سے عبارت ہے جو اس کے پروگراموں کو آگے لے کر چلیں گے انشا ء اللہ۔ دائرہ علم و ادب کی شاخیں وفاقی دارلحکومت اسلام آباد،، صوبہ پنجاب،صوبہ خیبر پختونخواہ، صوبہ سندھ، صوبہ بلوچستان، آزاد جموں وکشمیر اور گلگت بلتستان میں قائم ہو چکی ہیں۔ نظریہ پاکستان کی بنیاد پر اسلامی علم و ادب کے ذریعے معاشرے کی اصلاح کے لیے تمام جگہوں پر ماہوارایک ہی قسم کاپروگرام کرنے کا ارادہ کیا گیا۔ دائرہ علم و ادب کی طرف سے اقادمی ادبیات اسلام آبادکی انتظامیہ کا شکریہ ادا کیا گیا اور پروگرام دُعا پر اختتام پذیر ہوا۔ آخر میںچائے بسکٹ سے حاضرین کی خدمت کی گئی اور گروپ فوٹو بنائے گئے۔