تحریر: محمد اکرم خان فریدی گزشتہ دنوں کالمسٹ کلب آف پاکستان کے زیر اہتمام بیداری ء صحافت کانفرنس منعقد ہوئی جہاں نامور صحافیوں ،کالم نگاروں ،شاعروں اور مختلف مکتبہء فکر کے لوگوں کو مفکرِ پاکستان ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔ تاریخی مقام ہرن مینار میں ہونے والی اِس تقریب میں ملک بھر کے نامور صحافیوں اور ادبی شخصیات کی موجودگی اِس بات کی گواہی تھی کی وطنِ عزیز کا دانشور طبقہ اِس ملک کی بہتری کے لئے کچھ کر گزرنا چاہتا ہے ۔تقریب کے شرکاء سے پاکستان مسلم لیگ (ن) شعبہ خواتین کشمیر کی سیکرٹری نشرواعشاعت محترمہ بلقیس راجہ نے برطانیہ سے ٹیلیفونک صدارتی خطاب کیا ۔قارئین! اس سے قبل کہ محترمہ کے خطاب کے بارے میں آپکو آگاہ کروں میں انتہائی ضروری سمجھتا ہوں کہ محترمہ کے منشور اور مقاصد کے بارے مختصراً آگاہ کروں۔
محترمہ بلقیس راجہ نے 1989ء سے ایک ایسی تحریک شروع کر رکھی ہے جسکا نصب العین ہے کہ پاکستان بمعہ کشمیر کی ریاست اور معاشرہ ان سیاسی ،معاشی اور سماجی خطوط پر استوار ہونا چاہئے جن کی اسا س اسلامی اقدار پر ہو ۔محترمہ بلقیس راجہ کی سوچوں کا اصل سر چشمہ علامہ اقبال اور قائد اعظم کی سوچیں ہیں جو قیامت خیز ہونے کے ساتھ ساتھ ولولہ تازہ سے لبریز ہیں ۔اپنے والد محترم کے نقش قدم پر چلتے ہوئے محترمہ بلقیس راجہ نے ہمیشہ اپنے قریبی حلقہ احباب اور عوام کو حب الوطنی کا درس دیا اور خطہ کی نوجوان نسل کی اصلاح کی خواہاں ہیں ۔قارئین! بیداری ء صحافت کانفرنس میں بھی محترمہ بلقیس راجہ نہ صرف ملک کے مایوس کُن حالات کی عکاسی کر رہی تھیںوہ صحافیوں پر زور دے رہی تھیں کہ وہ موجودہ ملکی حالات کے پیشِ نظر بیدار ہوںاور وطنِ عزیز کی سلامتی کی خاطر اپنا اپنا کردار ادا کریں ۔ انہوں نے خطاب کے دوران پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کو مشورہ دیا کہ وہ ملکی ترقی کی راہ میں رکاوٹیں ڈالنے کی بجائے مثبت سوچ کے ساتھ ملکی ترقی کے لئے آگ بڑھیں نہ منفی پروپیگینڈوں کو ہوا دیں۔محترمہ نے کہا کہ ڈھونگ ،ڈھکوسلوں اور ڈراموں کی وجہ سے ملکی معیشت کو فریکچر کیا جا رہا ہے اور داروں کو تشنج کا شکار کیا جا رہا ہے۔
Pakistan Conditions
محترمہ صحافیوں کو بیدار کرنے کے لئے نہ صرف ملکی حالات بتا رہی تھیں بلکہ وہ اُنہیں طرح طرح کے مشوروں سے بھی نواز رہی تھیں۔ محترمہ کی تقریر نے اُس وقت تمام حاضرین کی آنکھیں کھول دیں جب اُنہوں نے بتایا کہ کرہ ارض پر ہونے والی ماحولیاتی تبدیلیوں اور دنیا کی تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کے باعث پانی کی شدید قلت ایک خوفناک صورتحال میں تبدیل ہوتی جا رہی ہے دنیا میں پانی کے بڑھتے ہوئے مسئلے کے تقابل میں مسلسل واقع پذیر ہونے والی آبی قلت اور بقائے حیات کے لئے اسکی اشد اہمیت کے پیشِ نظر انہوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ آئندہ جنگیں پانی کے ذخائر کے لئے ہوں گی۔محترمہ کے خطاب کا مختصراً متن یہ تھا کہ !!پاکستان کے معرضِ وجود میں آنے کے بعد ہندوستان نے دریائے بیاس،ستلج اور راوی کی نہروں کا پانی روک لیاجس سے ہندوستان اور پاکستان میں پانی کی تقسیم کا جھگڑا پیدا ہو گیا بالآخر 1960ء میںہندوستان اور پاکستان کے درمیان ”سندہ طاس کا معاہدئہ پانی ” طے ہوا جِس کی رو سے تین مشرقی دریائوں دریائے ستلج،دریائے بیاس اور دریائے راوی کا تمام پانی ہندوستان کو دے دیا گیا اور تین مغربی دریائوں دریائے چناب ،دریائے جہلم اور دریائے سندہ کا پانی پاکستان کے استعمال کے لئے طے ہوا جس کے استعمال کے لئے تین ڈیم منگلا،تربیلا اور چشمہ بنائے گئے اور اِن دریائوں اور ڈیموں کے پانی کو دریائے ستلج اور دریائے راوی کی نہروں کو پہنچانے کے لئے 8 رابطہ نہریں بنائی گئیں۔
دریائے جہلم ،چناب اور جہلم کا پانی اِن تین ڈیموں میںذخیرہ کرنے اور بعد ازاں چاروں صوبوں کی نہروں کے لئے ابھی تک استعمال ہو رہا ہے ۔سندہ طاس کے معاہدہ 1960ء کے بعد ڈیموں اور رابطہ نہروں کی تکمیل کے سبب ہندوستان نے 1970ء میں دریائے ستلج اور دریائے راوی کا پانی مکمل طور پر اپنے استعمال میں لانا شروع کر دیاجس سے پاکستان شدید آبی بحران کا شکار ہو گیااور پاکستان کے دریائوں میں دھول اُڑنے لگی اور اِس آبی بحران کی وجہ سے آب گاہوں کی رونقیں ماند پڑ گئیں۔آبی حیات اور انسانی زندگی بچانے کے لئے اِن دریائوں میں پانی آنا بے حد ضروری ہے لیکن افسوس کہ پاکستان کے ہمسایہ ملک کو نہ تو آبی حیات کی زندگی سے کوئی غرض ہے اور نہ ہی انسانی زندگیوں کی کوئی پرواہ۔اِس تمام تر صورتحال کے پیشِ نظر پاکستان کی آبی ضرورت اِس امر کی متقاضی ہے ہمیں دستیاب پانی کے ایک ایک قطرے کو زرعی اور اقتصادی استحکام کی خاطر بروئے کار لانے کے لئے فوری طور پر طویل المعیاد آبی منصوبے شروع کرنے چاہئیںلیکن بدقسمتی کی بات تو یہ ہے کہ ہمارے ملک میں بڑھکیں تو بہت ماری گئیں کہ ہم کالا باغ ڈیم اور دوسرے ڈیم ضرور بنائیں گے لیکن یہ بڑھکیں صرف اخباری بیانات کی حد تک رہیں۔دراصل شائد ہمارے ملک کے غیر محب وطن وڈیرے یہ نہیں جانتے کہ کالا باغ ڈیم صرف ایک ترقیاتی منصوبے کی حیثیت نہیں رکھتا بلکہ قومی سوچ،فکراور ترقی کی تڑپ کا امین ہو کر ایک جذبے میں ڈھل کر کبھی کسی صحافی کے قلم کی نوک سے صفحہء قرطاس کی زینت بنتا ہے اور کبھی کسی مدبر کے ذہن کی گہرائیوں سے فکر کی پھوار کی طرح پھوٹتا ہے۔
Kalabagh Dam
کہیں یہ کسی طالبِ علم کے لب پر ایک تمنا ہے اور کبھی مزدور کے دل سے نکلتی ایک آواز،کبھی یہ بندہء مزدور کے تیشہ چلاتے ہاتھوں میں نظر آتا ہے اور کہیں ایک انجینئر کے ماتھے پر پڑی تفکر کی سلوٹوں میں اُبھرتا ہے ۔یہ سوچ ،یہ فکر،یہ زینت ،یہ تمنا، یہ آواز اُسی نغمہ اللہ ہو کی آواز ہے جو تحریک پاکستان کے دوران ہماری روح کا ترانہ رہی اور جس کی دھن ایک تسبیح کے دانوں سے مرتب ہو کر لازوال ساز کی آواز میں ڈھل گئی ۔لیکن ہمارے غیر محب وطن وڈیروں کو شائد ابھی تک اسکی عملی افادیت کا علم ہی نہیں ہو سکا اور اگر ہے تو معلوم نہیں کہ اسکی فوری تعمیر میں رکاوٹ کس چیز کی ہے۔دنیا چاند پر پہنچ چکی ہے اور ہم ابھی اسی جھگڑے سے باہر نہیں نکلے کہ ” کالاباغ ڈیم بننا چاہئے/کالا باغ ڈیم نہیں بننا چاہئے” ۔محترمہ نے اپنے تلخ و شیریں خطاب کے دوران کہا کہ تاریخ گواہ ہے کہ اُن چند جاگیرداروں کی آواز حکمرانوں کے کانوں میں فوراً پڑتی ہے جو یہ کہ دیتے ہیں کہ کالا باغ ڈیم نہیں بننا چاہئے اور انکی اس بات کو بنیاد بنا کر یہ کہہ دیا جاتا ہے کہ چاروں صوبوں کو اعتماد میں لینے کے بعد کالا باغ کی تعمیر شروع کی جائے گی لیکن یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر پاکستان کی سالمیت خطرے میں ہو تو کوئی بھی اقدام کرنے سے پہلے عوام کو اعتماد میں لیا جائے گا یا حکومت اپنی مرضی سے اقدام اُٹھائے گی؟۔
اگر حکومت اپنی مرضی سے فوری اقدام ضروری سمجھے گی تو تمام سیاسی جماعتوں کو یہ جا ن لینا چاہئے کہ کالا باغ ڈیم کی تعمیر کے بغیر پاکستان کی سالمیت خطرے میں پڑ جائے گی کیونکہ قحط ذدہ ملکوں کے لوگ اپنے ملک کے وجود کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا کرتے ہیں اور ہجرت پر مجبور ہو جاتے ہیں اور اگر پاکستان میںفوری طور پر نئے آبی ذخائر کی تعمیر یقینی نہ بنائی گئی تو چند سال تک یہاں کی عوام بھی پانی کی بوند کو ترسے گی کیونکہ ہمارا ہمسایہ ملک ہماری معیشت تباہ کرنے کے لئے مکمل منصوبہ بندی پر عمل پیرا ہے اور ہماری طرف آنے والے دریائوں کا پانی روکنے کے لئے منصوبے پایہء تکمیل تک پہنچا رہا ہے۔بہر حال میںتمام سیاسی جماعتوں سے یہی اپیل کرتی ہوں کہ خدا راہمارے ملک کو بچائیں اور ملکی معیشت کو تباہی سے بچانے کے لئے کالا باغ ڈیم کی فوری تعمیر کا آغاز کروائیں۔دوسر ی جانب میں تمام صوبوں کے عوام سے بھی ایک مئودبانہ گزارش کرتی ہوں کہ میرے پیارے پاکستان کو بچا سکتے ہیں تو بچا لیں کیونکہ اگر ہم آپس میں لڑتے رہے تو باہر سے کوئی بھی ہماری مدد کو نہیں آئے گا ۔یہ صوبائی تعصب ختم کرکے پاکستان کے مفاد کی خاطر یک جان ہو جائیں کیونکہ ہم جب تک ایک قوم کی شکل اختیار نہیں کریں گے تب تک ہمارے ملک کو بیک گئیر لگا رہے گا۔کہتے ہیں ہمسائے کا منہ سرخ ہو تو بعض لوگ تھپڑ مار کر اپنا منہ سرخ کر لیتے ہیںپس ہمیں بھی اسی پالیسی پر عمل کرنا ہوگا اور اپنے ہمسائے ملک چین کو مثال بناتے ہوئے اپنے پاکستان کو بھی ترقی کی راہوں پر گامزن کرنا ہوگا۔آئیے ہم سب مل کر پاکستان کوقحط زدہ علاقہ بننے سے بچائیں۔
قارئین! محترمہ بلقیس راجہ کے خطاب نے کانفرنس کے شرکاء کی نہ صرف آنکھیں کھول دیں بلکہ یہ ارادہ کرنے پر مجبور کر دیا کہ ملکی ترقی کی خاطر ہر قسم کے اختلافات بھلا کر ہمیں یک جان ہونا چاہئے اور حب الوطنی کا ثبوت دیتے ہوئے ترقیاتی منصوبوں بالخصوص کالا باغ ڈیم کی تعمیر کے لئے یکجا ہو کر آواز اٹھانی چاہئے۔
Mohammad Akram Khan Faridi
تحریر: محمد اکرم خان فریدی 36۔مجاہد نگر ،شیخوپورہ شہر فون نمبر03024500098 ای میل۔akramkhanfaridi@gmail.com