تحریر : اے آر طارق بینظیر انکم سپورٹ پروگرام جو کہ پیپلز پارٹی کے دور میں شروع ہوا،غریب اور مفلوک الحال خواتین کی فلاح وبہبود کے لیے شروع کیا گیا۔جس کا مقصد معاشرے کے پسے ہوئے طبقے کی کچھ مالی معاونت اور انھیں وقتی ریلیف فراہم کرنا تھا۔مگر بڑے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ جب یہ پروگرام شروع کیا گیا تو اس وقت بھی بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے دفاتر کے باہرحرام خورسیاسی ورکرز، ایجنٹوں نے ڈیرے ڈال رکھے تھے۔ جو عورتوں سے پیسے لیکر کارڈ بنوا کر دیتے تھے، جو پیسے دیتا، اس کا کام ہو جاتا، جو نہ دیتا، وہ بس قطاروں میں ہی ذلیل ورسوا نظر آتااور اس کا م میں آفیسر سے لیکر دفتر تک کے چپڑاسی بھی ملوث تھے۔
ستم ظریفی کی حد دیکھئے کہ بینظیر انکم سپورٹ کے دفتر میں داخل ہونے کا بھی ١٠٠روپے ٹیکس لیا جاتا رہا،جو موصوف سیکیورٹی گارڈ (جسے عرف عام میںچوکیدار کہتے ہیں )لیتا۔سیاسی ورکروں اور ایجنٹوں کی باری بعد میں آتی تھی،جو500روپے فی کس فرد بٹور کراپنے جسموں میں جہنم کا ایندھن اینڈیل رہے ہوتے تھے۔وہ تو بھلا کرے خدا پی پی پی کی حکومت کا ،کہ جب اس نے محسوس کیا کہ اس کے حرام خور ورکرز، ایجنٹوں کا پیٹ ہوس زر سے بھر گیا ہے اور یہ کہ مزید ہڈ حرامی کی لت نہ پڑ جائے،اے ٹی ایم کا مرحلہ مکمل کر دیا،لیکن اس کے بعد بھی یہ سننے اور دیکھنے میں آتا رہا کہ ا ے ٹی ایم کا استعمال سیکھ کربنکوں کے باہر بھی ان حرام خور سیاسی ورکروں/ایجنٹوںنے معصوم، سادہ لوح خواتین کو رقوم نکالنے کے عوض فی کس 300سے لیکر500تک کی دیہاڑی لگانا شروع کر دی ہے تو میں سر پکڑ کر بیٹھ گیا کہ اس پارٹی اور ملک کا اللہ ہی حافظ ہے کہ٫٫جس دور میں لٹ جائے غریب کی کمائی یعنی زکوٰة بھی صحیح ڈھنگ اورسلیقے سے نہ بانٹی جا سکے ،سابقہ حکمران پارٹی اس پروگرام کو شروع کرنے کے باوجودکتنی بڑھی اور پھلی پھولی،کا رزلٹ آپ دیکھ چکے ہیں۔
اب جبکہ سابقہ حکومت جو اپنے حرام خور سیاسی ورکرز،ایجنٹوں کے باعث پنجاب میں اپنی ساکھ کو خراب کر کے اپنے منطقی انجام کو پہنچ چکی ہیں۔ایسے میں نون لیگ حکومت بھی اس سابقہ حکومت کے عبرت ناک انجام سے کچھ سیکھنے کو تیار نہیںاور مسلسل ایسی حرکتیں عوام کو دیئے گئے ریلیف کے سلسلے میں کر رہی ہے،سابقہ حکومت کی طرح اس دور حکومت میں بھی خواتین کو تقسیم کی جانے والی ریلیف کے نام پراونٹ کے منہ میںزیرہ کے مصداق امدادکے ساتھ بھی وہی سلوک روا رکھا جا رہا ہے جو سابقہ حکومت کو تباہی کے دہانے پر لے آیاکہ چاروں صوبوں کی زنجیرکہلوانے والی پپلز پارٹی اچھے فلاحی وتعمیری کاموں کو شروع کرنے کے باوجود آپسی اختلافات،پارٹی میں مفاد پرست عناصرکی یلغاراور مطلبی ٹولے کی بھرمار(جن کا مقصدپارٹی مفادات کا تحفظ کرنا کم،اوراپنے فائدے حاصل کرنا زیادہ تھا)کے بے حس کردار کے باعث سمٹ کر صرف سندھ تک ہی محدود ہو کر رہ گئی۔
PPP
اب نون لیگ دور حکومت کے حوالے سے سننے میں آ رہا ہے کہ جب بھی بینظیر انکم سپورٹ پروگرام (جس کا نیا نام پاکستان انکم سپورٹ پروگرام)ہے کی رقم غریب ،مفلوک الحال،محرومیوں کی ماری ہوئی،بزرگ وناتواں خواتین کے اے ٹی ایم کارڈز میں آتی ہیں تواے ٹی ایم کے استعمال سے ناآشنا عورتوں سے حرام خور سیاسی ورکرز،ایجنٹ 500 روپے فی کس کے حساب سے رقم نکالنے کے عوض ہتھیا لیتے ہیں۔بعض اوقات ایسے واقعات بھی سننے،دیکھنے،اوررپورٹ کرنے میں آتے ہیںکہ میرے پیسے آئے تھے مگرمکمل نکال لئے گئے ہیں۔بعض چالاک مکارمردو خواتین،نوجوان لڑکیاں تو اس حد تک آگے چلی جاتی ہیں کہ بنک اے ٹی ایم سسٹم سے ناواقفیت کے باعث سائیلین کی پوری امدادی رقم اپنے اکائونٹ میں منتقل کر کے کمال فراڈسے ہڑپ کر جاتے ہیںکہ بی بی آپ کے پیسے نہیں آئے ،حتیٰ کہ وہ آئے ہوئے ہوتے ہیں اور ہتھیائے بھی جا چکے ہوتے ہیں۔
ایسے میں ان کے ساتھ ہاتھ ہو گیا ،ان بیچاری کو پتا بھی نہیں چلتا۔اور اگرپتا چلتا ہے تو بہت دیر ہو چکی ہوتی ہیںایسے میں لوٹنے والے لوٹ کر جا چکے ہوتے ہیں۔ایسی صورتحال میںان بوڑھی،اڈھیر عمر،ضعیف وناتواںخواتین،جنکی آنکھیںحالات کے جبرواستبداداور محرومیوں کے باعث چندھیا گئیںکی حالت یہ ہوتی ہے کہ” کاٹو تو بدن میں خون نہیں”بعض ہوس زر کے مارے ہوئے ایجنٹ حضرات تو اس حد تک ان عورتوںسے گیم کر جاتے ہیں کہ ان کے کارڈز ہی تبدیل کر دیتے ہیںکہ نہ ادھر کے رہے،نہ ادھر کے رہے۔اس کے علاوہ بعض فراڈیے جو دکانوں پر مشین رکھے ہوئے ہوتے ہیں،ان عورتوں سے اے ٹی ایم کارڈ لیکر ایسا کھیل کھیلتے ہیں کہ انسانیت ہی شر ما جاتی ہے۔ان عورتوں کے ککھ پلے نہیں ڈالتے،کوئی احتجاج کرے تو الٹا بیہودگی پر اتر آتے ہیں۔
ایسے بہت سارے واقعات منظر عام پر آتے بھی رہتے ہیںمگربااثر ایجنٹ حضرات پیسے کے بل بوتے پرتمام تر الزامات سے بری الذمہ ہو جاتے ہیں ،ہماری حکومت سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدانوں میںبہت زیادہ ترقی کرنے کی خواہاں ہیں اور ترقی کر رہی ہے۔مگر بڑے افسوس کے ساتھ بتانا پڑ رہا ہے کہ ہمارے معاشرے میںاب بھی ایسے لوگ پائے جاتے ہیں جن کو اے ٹی ایم کارڈ چلانا تو دور کی بات،موبائل آن آف بھی نہیں کرنا آتا۔جدید ٹیکنالوجی سے مزین اے ٹی ایم کارڈان درد اور محرومیوں کی ماری ہوئی خلق خدا کے لئے قطعا ًفائدہ مندثابت نہیں ہو رہا بلکہ ان ایجنٹ حضرات کے لئے نعمت بنا ہوا ہے ۔جو اے ٹی ایم کے استعمال سے نا آشنا خواتین کودونوں ہاتھوں سے لوٹ رہے ہیں۔
Poor People
میں نے بعض ایسی نحیف و نزار بزرگ خواتین کو بھی دیکھا ہے،جن کے ہاتھ بڑھاپے کی وجہ سے کانپ رہے ہوتے ہیںجو اے ٹی ایم کارڈ کا بوجھ بھی نہیں اٹھا پا رہی ہوتی،ان ایجنٹوں کے ہاتھوں لٹ چکی ہوتی ہیں اور اپنی امدادی رقوم سے محرومی کی صورت میںحکومت وقت کو جھولی پھیلائے بد دعائیں دیتی یہ کہتے ہوئے گھروں کو لوٹ جاتی ہیںکہ ”پتھر باندھ رکھے ہیں اور کتوں کو کھلا چھوڑ رکھا ہے”ایسے میں میری حکومت وقت سے ہمدردانہ اپیل ہے کہ بلاشبہ حکومت وقت نواز شریف کے وژن اچھے طریقے سے کامیابی سے ہمکنار کر رہی ہیں مگر اس صورتحال پر بھی خصوصی توجہ دے،جس پر توجہ نہ دینے کی وجہ سے پی پی پی کی حکومت کا پنجاب میں شیرازہ بکھر گیااور وہ پنجاب کی سیاست سے صفحہ ہستی سے ہی مٹ گئی۔
ایسے میں ن لیگ کی حکومت کو چاہیے کہ غریب و نادار عورتوں کے درد کا سامان کرتے ہوئے ان کو اے ٹی ایم کارڈ کی جگہ چیک بک دی جائے تا کہ ان تک پہنچایا جانے والا پیسہ مستحقین تک ٹھیک طریقے سے پہنچ سکے اور بنک عملہ جو کہ سارا دن خوش گپیوں میں مصروف رہتا ہے کو پابند کیا جائے کہ جب بھی انکم سپورٹ پروگرام کی رقم بنک میں آئے توعملے کے کسی دیانتدار شخص کو تعینات کر کے ان کی رقم اے ٹی ایم سے نکال کر مستحقین تک پوری پوری پہنچائی جائے اور ایسے لوگ جو غلط سوچ کے ساتھ وہاں کھڑے نظر آئے ،عوامی شکایات پرپکڑ کر حوالہ پولیس کیا جائے اور پولیس کو تنبیہ کی جائے کہ ایسے لٹیروں کو قطعی معاف نہ کیا جائے۔بلکہ چوکوں اور چوراہوں پر الٹا لٹکا کر نشان عبرت بنا دیا جائے۔آخر میں یہی کہوں گا کہ ”جس دور میں لٹ جائے غریب کی کمائی ،اس دور کے حکمران سے کوئی بھول ہوئی ہیں۔