تحریر: امتیاز شاکر اس کائنات کے اصل رنگ دیکھنے ہیں تو آپ اللہ تعالیٰ کے ولیوں کی صحبت اختیار کریں تاکہ اللہ تعالیٰ کی خصوصی رحمتوں کی برسات برسے تو کوئی چھینٹا آپ پر بھی گر جائے اور دینا و آخرت کی بھلائی کے اثباب پیدا ہو جائیں۔ ویسے تو ولی ہمارے ہاں عام پائے جاتے ہیں پر میں بات کر رہا ہوں اللہ تعالیٰ کے مقرب بندوں کی۔
لفظ ولی کئی طرح اور کئی جگہوں پراستعمال ہوتاہے۔جبکہ کچھ لوگ اللہ تعالیٰ کے مقبول بندوں کا روپ دھار کر اپنے آپ کو ولی اللہ ظاہر کرنے کی کوشش بھی کرتے ہیں اور افسوس کی بات یہ ہم لوگ اُن کے جھانسے مین آبھی جاتے ہیں ۔دوسروں کی خامیاں تلاش اور بیان کرنا شیطانی عمل ہے اس لئے ہم بات کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے ولیوں کی پہچان کیسے کی جائے۔ پیرومرش سید عرفان احمد شاہ المعروف نانگامست نے مجھ سے نکمے کو سرپرستی میں لیا تو اللہ تعالیٰ کے دوست کو قریب سے دیکھنے کا شرف حاصل ہوگیا۔اللہ تعالیٰ جن لوگوں کو اپنے ولیوں کے قریب کرتاہے اُن کے مقدر بھی بدل جاتے ہیں دنیا و آخرت کی بھلائیاں نصیب ہوتیں ہیں اور تمام تر مشکلیں دور ہونے لگتی ہیں ۔اللہ تعالیٰ کا ولی جہاں قدم رکھے اللہ تعالیٰ وہاں رحمت نازل فرماتاہے۔لفظ ولی بڑا مشہور اور عام اِستعمال ہونے والا لفظ ہے۔یہ عربی زبان کا لفظ اور مذکر ہے۔
لغوی طور پر اِس کے کئی معنی ہیں۔ مثلاً (1) مالک’ آقا’ صاحب’ سردار’ وارث’ سرپرست’ محافظ’ مربی (2) دوست’ مددگار’ متصرف’ قابض (3) محبوبِ الٰہی’ مقربِ اللہ ‘ بزرگ دین’ پیر و مرشد’ زاہد’ پارسا’ پرہیزگار’ نیک بخت’ عارف’ صابر’ شاکر’ عابد اور سالک وغیرہ۔ لفظ ولی اور اِس کی جمع اولیاء کے معنی’ قرآنِ مجید میں آیاتِ مبارکہ کے سیاق و سباق کے مطابق دیکھے جاتے ہیں۔ کہیں ولی کے معنی دوست کے آتے ہیں کہیں مددگار’ کہیں سرپرست اور کہیں اللہ کا مقرب اور مقبول بندہ جسے عرفِ عام میں ولی اللہ کہتے ہیں۔قرآنِ مجید اور اَحادیث مبارکہ نے اللہ اور اِنسان کا اَیسا تعلق بیان کیا ہے کہ اِنسان قوانین خداوندی کی پابندی اور اِطاعتِ رسولۖ کو شیوہ زندگی بنا لے تو اللہ اْس کا’ اور وہ اللہ کا ولی بن جاتا ہے۔ (یعنی دوست اور اِس طرح قوانین کی اِطاعت سے اْس بندہ خدا کے ہاتھوں رَبِّ ذوالجلال والاکرام کے کائناتی پروگرام کی تکمیل ہوتی ہے اور کائنات میں حْسن و نکھار پیدا ہوتا ہے اولیاء اللہ کسی خاص زبان’ ملک’ قوم’ رنگ و نسل اور خاندان سے تعلق نہیں رکھتے بلکہ جو بھی قوانینِ خداوندی کی پابندی کرتا ہے اور محبت ِ مصطفی اور اِتباع رسول کو اِختیار کرتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کا ولی بن جاتا ہے۔قرآنِ مجید میں رَبِّ ذوالجلال والاکرام نے مختلف آیاتِ قرآنیہ میں ولی اور اولیاء کا تذکرہ فرمایا ہے۔ جس جگہ محض دوست کے معنوں میں یہ لفظ اِرشاد فرمایا گیا ہے وہاں مومن کافر سبھی کے لئے اولیاء کا لفظ اِرشاد فرمایا ہے مثلاً اِرشاد خداوندی ہے۔(1) ”اور کافر ایک دوسرے کے دوست ہیں” (الانفال: 73)(2) ”اور اِیمان والے مرد (آپس میں) اور اِیمان والی عورتیں (آپس میں) ایک دوسرے کے دوست ہیں” (التوبة: 71)(3) ”بے شک ظالم ایک دوسرے کے دوست ہیں” (الجاثیہ: 19)مذکورہ بالا تین آیاتِ مبارکہ میں اولیاء کا لفظ کافروں’ ظالموں اور مومنوں کے لئے فرمایا گیا۔ اِن تینوں مقامات میں اولیاء جو ولی کی جمع ہے۔
Allah
دوست’ ساتھی’ رفیق’ حمایتی’ مدد گار کے عام معنوں میں اِرشاد ہوا ہے۔اولیاء اللہ جہاں اِرشاد فرمایا گیا ہے’ وہاں اْن کے اَوصاف کی تفصیل بھی بیان کی گئی ہے مثلاً ”سن لو بے شک اللہ کے ولیوں پر نہ کچھ خوف ہے نہ کچھ غم” (یونس: 62) ”وہ جو اِیمان لائے اور پرہیز گاری کرتے ہیں” (یونس: 63)یعنی عقیدہ کے لحاظ سے پکے سچے مومن اور محبِ رسول ہیں اور تقویٰ و پرہیز گاری کا تاج پہنے ہوئے ہیں جن کے اَعمال و اَخلاق اَچھے ہیں’ رزق بھی حلال ہے۔ اْن کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے اِنعام ہے۔”اْنہیں دْنیا اور آخرت کی زندگی میں خوش خبری ہے” (یونس: 64)۔یہ وہ ہستیاں ہیں جنہیں مسلمان اولیاء اللہ کہتے ہیں قرآنِ مجید میں ایک مقام پر اِس اَنداز میں اولیاء اللہ کی پہچان کروائی گئی ہے: ”بے شک اْس کے اولیاء تو پرہیزگار ہی ہیں۔” (الانفال: 34)لفظ ولی مشترک ہے یہ اللہ تعالیٰ، رسول اللہ اور مومنین سب کے لئے بولا جاتا ہے۔ بلکہ دوست کے معنوں میں ظالموں’ کافروں، منافقوں’ یہودیوں اور عیسائیوں وغیرہ کے لئے بھی بولا جاتا ہے یہاں تک کہ شیطان کے پجاریوں کے لئے بھی لفظ ولی اور اَولیاء بولا جاتا ہے۔
اِرشادِ خداوندی ہے:۔”اِیمان والے (اللہ تبارک وتعالیٰ) کی راہ میں لڑتے ہیں اور کفار شیطان کی راہ میں لڑتے ہیں””شیطان کے دوستوں سے لڑو” (النسآئ: 76)ایک مقام پر فرمایا: ”اور بے شک شیاطین اپنے دوستوں (یعنی کافروں) کے دِلوں میں (وسوسے) ڈالتے ہیں” (الانعام: 121)عرف عام میں ولی یا ولی اللہ اْسے کہا جاتا ہے جو نیک’ بزرگ’ پارسا آدمی ہو۔سورة الفرقان میں اللہ نے اپنے بندوں کی تعریف کرتے ہوئے اْن کے درج ذیل اَوصاف بیان فرمائے ہیں: (1) وہ زمین پر آہستگی’ عاجزی اور انکساری سے چلتے ہیں’ (2) جب جاہل اْن سے کج بحثی کرتے ہیں تو وہ بس سلام کہہ دیتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ اْنہیں راہ ہدایت نصیب ہو جائے’ (3) وہ اپنی راتیں اپنے ربِّ کریم کے حضور سجدے اور قیام کرتے ہوئے گزارتے ہیں’ (4) اللہ کے عذاب سے پناہ چاہتے ہیں’ (5) وہ فضول خرچ نہیں ہوتے’ (6) وہ کنجوس نہیں ہوتے بلکہ’ (7) درمیانی راہ اختیار کرتے ہیں (ہر اچھے کام میں خرچ کرتے ہیں۔ کیونکہ نیکی کے کاموں میں خرچ کرنا فضول خرچی نہیں ہوتا) ، (8) وہ اللہ تعالیٰ (معبودِ برحق) کے سوا کسی معبودِ باطل کی عبادت نہیں کرتے’ (9) جس جان کی حرمت اللہ تعالیٰ نے رکھی ہے اْس کو ناحق قتل نہیں کرتے’ (10) بدکاری نہیں کرتے’ (11) جھوٹی گواہی نہیں دیتے’ (12) بے ہودہ باتوں کو نہ سْنتے ہیں’ نہ بے ہودہ کام کرتے ہیں اور اگر کہیں اَیسا واقعہ ہو تو وہاں سے بڑی شرافت کے ساتھ گزر جاتے ہیں’ (13) جب اْنہیں رَبِّ کائنات کی آیاتِ مبارکہ یاد دِلائی جاتی ہیں تو اَندھے اور بہرے بن کر نہیں سْنتے بلکہ غور و فکر کرتے ہیں’ (14) اللہ سے اپنی بیویوں اور اَولادوں کی طرف سے آنکھوں کی ٹھنڈک کا سوال کرتے ہیں۔ اور (15) پرہیز گاروں کی پیشوائی کے طالب ہوتے ہیں۔ (الفرقان آیت نمبر 63 سے آیت نمبر 74 تک)حضرت داتا گنج بخش علی ہجویری نے کشف المحجوب شریف میں اِس حقیقت کو بڑے واضح الفاظ میں بیان فرمایا ہے کہ کوئی شخص اْس وقت تک اللہ تعالیٰ کا ولی نہیں بن سکتا جب تک نماز پنجگانہ کا پابند نہ ہو۔