اذان کے لغوی معنی پکار کر آگاہ کرنے ، خبردار کرنے، اطلاع دینے اور اعلان کرنے کے ہیں ، جبکہ شریعت کی اصطلاح میں اذان سے مراد وہ مخصوص کلمات ہیں جن کے ذریعے سے لوگوں کو اطلاع دی جاتی ہے کہ نماز کا وقت ہو گیا ہے۔ اذان کی ابتدا 1 ہجری میں مدینہ منورہ میں ہوئی، جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ سے مدینہ طیبہ تشریف لائے تو اس کے بعد مسلمانوں کی تعداد میں اضافہ ہوگیا، اور مدینہ طیبہ میں نماز باجماعت ادا کرنے کے لیے مسجد بنائی گئی، تو ضرورت محسوس ہوئی کہ لوگوں کو جماعت کا وقت قریب ہونے کی اطلاع دینے کا کوئی خاص طریقہ اختیار کیا جائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب اس بارے میں صحابہ کرام سے مشاورت کی تو صحابہ کرام نے مختلف تجاویز پیش کیں ، مثلاً گھنٹی بجانا، گھڑیال اور ناقوس بجانا، ڈھول پیٹنا یا کسی اونچی جگہ پر آگ جلاکر لوگوں کو نماز کے لیے مطلع کرنا وغیرہ۔ اس وقت مختلف اقوام و مذاہب میں یہی طریقے رائج تھے، مگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مذکورہ بالا طریقوں میں کسی بھی طریقے کو پسند نہیں فرمایاکیونکہ ان تمام طریقوں میں دوسرے مذاہب کی مشابہت پائی جاتی تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو نماز کی دعوت عام دینے کے لیے کوئی منفرد طریقہ چاہتے تھے۔
اس معاملے میں سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی غیر معمولی فکر مندی کو دیکھتے ہوئے ایک انصاری صحابی عبداللہ بن زید بن عبدربہ رضی اللہ عنہ بہت فکر مند ہوئے اور اس فکر مندی کی حالت میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس سے واپس آ کر لیٹ گئے، پھر نیم خواب اور نیم بیداری کی حالت میں انہوں نے اذان سے متعلق خواب دیکھا۔ وہ صبح سویرے ہی سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات جب کہ میری حالت یہ تھی کہ نہ پوری طرح بیدار تھا اور نہ ہی سویا ہوا تھا، میرے پاس کوئی آنے والا آیا اور اس نے مجھے اذان کہہ کر دکھائی ( پھر انہوں نے خواب کی پوری تفصیل بیان کی )۔ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم فوراً سمجھ گئے ، آپ نے آواز دے کر بلانے کے اس طریقہ کو فطرت انسانی کے عین مطابق پایا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طریقے کو پسند فرماتے ہوئے حضرت عبداللہ بن زید سے فرمایا کہ تم حضرت بلال کو اذان کے ان کلمات کی تلقین کر دو کیونکہ ان کی آواز بلند ہے۔ اور حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا کہ عبداللہ بن زید تم سے جو کہے اور جو بتائے وہی کرو یعنی ان کی تلقین کے مطابق اذان دو۔ پھر حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے اس حکم کی تعمیل کی اور اذان دی، اس طرح حضرت بلال رضی اللہ عنہ اسلام کے پہلے موذن قرار پائے اور اذان کا نظام قائم ہوا۔
عبداللہ بن زید بن عبدربہ کے صاحبزادے محمد بیان کرتے ہیں کہ میرے والد ماجد عبداللہ بن زید نے مجھ سے بیان کیا کہ جب سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ناقوس کے لئے فرمایا کہ وہ بنوایا جائے تاکہ اس کے ذریعہ نماز باجماعت کا اعلان لوگوں کیلئے کیا جائے تو خواب میں میرے سامنے ایک شخص آیا جو اپنے ہاتھ میں ناقوس لئے ہوئے تھا، میں نے اس سے کہا، اے اللہ کے بندے! یہ ناقوس تم بیچتے ہو؟ اس نے کہا تم اس کا کیا کرو گے؟ میں نے کہا ہم اس کے ذریعے اعلان کر کے لوگوں کو نماز کیلئے بلایا کریں گے۔ اس نے کہا کیا میں تم کو ایک ایسی چیز بتا دوں؟ جو اس کام کے لئے اس سے بہت بہتر ہے۔
میں نے کہا ہاں ضرور بتائیے’ اس نے کہا کہو ”اللہ اکبر’ اللہ اکبر’ اللہ اکبر’ اللہ اکبر’ اشہد ان لا الہ الا اللہ’ اشہد ان لا الہ الا اللہ’ اشہد ان محمدا رسول اللہ’ اشہدان محمدا رسول اللہ’ حی علی الصلوٰة’ حی علی الصلوٰة’ حی علی الفلاح’ حی علی الفلاح’ اللہ اکبر’ اللہ اکبر’ لا الہ الا اللہ” ( ترجمہ :اللہ سب سے بڑا ہے،اللہ سب سے بڑا ہے،اللہ سب سے بڑا ہے،اللہ سب سے بڑا ہے، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی سچا عبادت کے لائق نہیں،میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی سچا عبادت کے لائق نہیں، میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے آخری رسول ہیں،میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے آخری رسول ہیں، آؤ نماز کی طرف،آؤ نماز کی طرف،آؤ کامیابی کی طرف،آؤ کامیابی کی طرف،اللہ سب سے بڑا ہے،اللہ سب سے بڑا ہے۔
اللہ کے علاوہ کوئی سچا عبادت کے لائق نہیں )۔ عبداللہ بن زیدرضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ یہ پوری اذان بتا کے وہ شخص مجھ سے تھوڑی دیر پیچھے ہٹ گیا اور تھوڑے توقف کے بعد اس نے کہا، پھر جب نماز قائم کرو تو اقامت اسی طرح کہو ”اللہ اکبر’ اللہ اکبر’ اشہد ان لا الہ الا اللہ’ اشہد ان محمدا رسول اللہ’ حی علی الصلوٰة’ حی علی الفلاح’ قد قامت الصلوٰة’ قد قامت الصلوٰة’ اللہ اکبر’ اللہ اکبر’ لا الہ الا اللہ”( عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ) کہ جیسے ہی صبح ہوئی میں سرکار دو عالم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور جو کچھ میں نے خواب میں دیکھا تھا وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتادیا سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ رویاء حق ہے انشاء اللہ ۔ اور آپ نے مجھے حکم دیا کہ تم بلال رضی اللہ عنہ کے ساتھ کھڑے ہو کر ان کلمات کی تلقین کرو جو خواب میں تم نے دیکھے ہیں اور وہ پکار کے ان کلمات کے ذریعہ اذان کہیں کیونکہ ان کی آوازتم سے زیادہ بلند ہے ، تو میں حضرت بلال رضی اللہ عنہ کے ساتھ کھڑا ہوا، میں ان کلمات کی تلقین کرتا تھا اور وہ اذان دیتے تھے۔
حضرت عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ کے حضور اکرم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر اپنا خواب بیان کرنے سے پہلے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بھی ایسا ہی خواب دیکھا تھا، لیکن جب عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ سبقت کر کے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچ گئے اور انہوں نے اپنا خواب پہلے بیان کر دیا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو اپنے خواب کا ذکر کرنے میں کچھ حجاب محسوس ہوا، پھر بعد میں انہوں نے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ قسم اس پاک ذات کی جس نے آپ کو دین حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے ، میں نے ویسا ہی خواب دیکھا ہے جیسا عبداللہ بن زید نے دیکھا ہے ۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، فللہ الحمد للہ”۔ آج دنیا میں سب سے زیادہ گونجنے والی آواز اذان ہے، جو ہر لمحہ ہر سکینڈ دنیا بھر میں سنی اور کہی جارہی ہوتی ہے۔ بلاشبہ اذان دینے کی بہت فضیلت وارد ہوئی ہے جو کہ ایک الگ باب ہے۔
حضور اکرم محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ قیامت کے دن مؤذنوں ( اذان دینے والوں) کی گردنیں اونچی ہوں گی اور سب سے نمایاںہوںگی اور مؤذن جب اذان دیتا ہے تو جہاں تک اسکی آواز جاتی ہے اس علاقے کے تمام درخت پہاڑ اور پتھر وغیرہ اس مؤذن کے ایمان کی گواہی دیتے ہیں ۔ ایک موقعہ پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مؤذن جب اذان کے لیے کھڑا ہوتا ہے تو اللہ تبارک و تعالیٰ کا دست قدرت اس کے سر پر ہوتا ہے اور مؤذن جب تک اذان پڑھتا رہتا ہے اللہ تعالیٰ کی رحمت اس پر برستی رہتی ہے۔حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ میں جنت میں گیا اس میں موتی کے گنبد دیکھے اسکی خاک مشک ہے،فرمایا اے جبرئیل علیہ السلام یہ کس کے لیے ہے،عرض کیا یہ آپ کی امت کے مؤذنوں اور اماموں کے لیے ہے۔
ہمیں اذان دینے میں خوشی محسوس کرنی چاہیے اور مساجد میں اذان دینے کے لیے ایسے لوگوں کا انتخاب کرنا چاہیے جن کی آواز اچھی ہو، اور مؤذن نیک سیرت، مستقل اور خوش الحان ہوں، جن کی آواز سن کر طبیعت میں نماز سے محبت، خوشی اور فرحت پیدا ہو۔اذان میں راگ کی طرز،کریہہ اور بد آواز کی گنجائش نہیں۔ بہتر ہے کہ اذان کے الفاظ اور اسکی صحیح ادائیگی کے لیے کسی اچھے ادارے یا کسی خوش الحان عالم یا مؤذن سے سیکھا جائے کیونکہ اللہ کی پکار اور اسکی ندا یعنی اذان تو ہمیشہ خوش الحانی اور محبت کی متقاضی ہے ، کیونکہ چاروں اطراف سے آنے والی اذان کی آواز اللہ جل شانہ کے عذاب کو روک لیتی ہے۔
اذان کے الفاظ میں اللہ ربّ العزت کی وحدانیت ، عظمت و بزرگی، ہمیشگی اور بقاء اور وحدہ لاشریک اور لائق عبادت ہونے کا پیغام، نبی کریم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے خاتم النبین ہونے کی گواہی اور قیامت تک آنے والے انسانوں کے لیے فلاح کے راستے کی طرف آنے کی دعوت ہے، مختصر یہ کہ اذان توحید باری تعالیٰ کا اعلان اور شرک کی کامل نفی ہے۔ اذان کے جواب میں مؤذن کے الفاظ کو دھرانا چاہیے، یعنی جو کچھ اذان کے الفاظ ہیں وہی ساتھ ساتھ آہستگی سے کہنے چاہیے لیکن حییٰ علَی الصلوة اور حَیٰ عَلیٰ الفَلاح کے جواب میں لَاحَوْلَ وَلَاقْوةَ اِلا بِاللہ ِ کہنا چاہیے۔ اذان کا جواب دینے والے کو ہر حرف پر ایک ہزار نیکیاں ملتی ہیں۔ یاد رہے کہ اگر بیک وقت بہت سی اذانیں ہوں تو صرف ایک اذان کا جواب دینا کافی ہے۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اذان کی عظمت اسکی شان کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے ، اور جب اذان ہو تو ہم ہر کام چھوڑ کر صرف اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لیے اللہ کے گھر کے مہمان بن کر حاضر ہوں، آمین۔