آج سے تقریبا چودہ برس قبل آزاد کشمیر میں جو قیامت خیز زلزلہ آیا تھا اس کے اثرات ابھی تک موجود ہیں اور متاثرین کی تکالیف کا تا حال مکمل ازالہ ہو نہیں پایا تھا کہ زمین کی تہوں میں پھر سے کسی بھونچال نے دستک دے دی ہے۔
حالیہ زلزلہ شکر ہے کہ اس شدت کا نہ تھا تاہم اس نے بھی خوب تباہی پھیلائی ہے۔ میر پور بطور خاص بہت متاثر ہوا ہے ۔ اموات کی بھی اطلاعات ہیں اور مالی نقصان تو ہوا ہی ہے۔ پاک آرمی ہمیشہ کی طرح آرام سے نہیں بیٹھی ۔ حسب دستور متاثرین کی امداد ان کی محفوظ مقامات پر منتقلی اور ریسکو ورک انتہائی سرعت اور جانفشانی سے جاری رکھے ہوئے ہے۔
اچھی بات یہ ہوئی ہے کہ ہم نے اپنے وسائل سے اس مسئلے کے حل کی کوششیں شروع کی ہیں جو تاحال جاری و ساری ہیں اور ہم نے اس سلسلہ میں کسی امداد کی کوئی اپیل نہیں کی۔
اس باوقار طرز فکر کی جتنی بھی تعریف کی جائے یقینا کم بلکہ بہت کم ہے۔ ایک غیور و غیرت مند قوم کی حیثیت سے ہم نے جس احسن طرز عمل کا مظاہرہ کیا ہے اس سے اقوام عالم میں ہمارے وقار میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے۔
دو ہزار پانچ کے زلزلے کا یہ پہلو دلچسپی سے خالی نہ ہو گا کہ ایک امریکی ریسکو ہیلی کاپٹر غلطی سے مقبوضہ کشمیر میں گھس گیا ۔ بھارتی فضائیہ نے وارننگ دیتے ہوئے اسے اتار لیا اور فضائی حدود کی اس خلاف ورزی پر شدت سے احتجاج کیا ۔ جب ہیلی کاپٹر میں موجود عملے نے یہ درخواست پیش کہ انہیں مقبوضہ کشمیر میں ریسکو آپریشن کی اجازت دی جائے تو بھارت نے یہ پیش کش سختی سے مسترد کر دی۔
ان کا کہنا تھا کہ وہ خود سے اس قابل ہیں کہ اپنے مسائل پر قابو پا سکیں۔ انہیں اس کام کے لیے کسی ملک کی امداد کی قطعا کوئی حاجت نہیں۔ قومیں غیرت کی انہی خصوصیات کی بنا پر قوموں کی برادری میں سر اٹھا بڑے وقار سے زندہ رہتی ہیں۔ ازلی دشمن ہے تو کیا اچھی بات تو کسی سے بھی سیکھی جا سکتی ہے اپنائی جا سکتی ہے۔
اس سلسلہ میں البتہ ملکی فلاحی و رفاہی اداروں کو اپنا بھر پور کردار ادا کرنا ہو گا۔ پچھلی بار قوم نے جس ایثار کا مظاہرہ کیا تھا اقوام عالم اس پر حیرت زدہ تھے۔ اور آج تو اہل کشمیر سے ہماری وابستگی مقبوضہ کشمیر کے تناظر میں اور بھی بڑھی ہوئی ہے۔
یہ سچ ہے کہ قدرتی آفات سے بچاؤ ناممکن ہے۔ زلزلے کی تو پیشگی اطلاع پر بھی سائنس ابھی تک قادر نہیں ہو سکی ہے ۔ لیکن پیش بندی تو کی جا سکتی ہے ۔ایسے اقدامات تو کیے جا سکتے ہیں جن سے اس آفت کے اثرات کو کم از کم کیا جا سکے ۔ اس سلسلہ میں خاص طور سے جاپان کے تجربات سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمارے گناہ معاف فرمائے اور ایسے کام کرنے کی توفیق عطا فرمائے کہ ذات کبریا کی جس سے راضی و خوشنود ہو ڈاکٹر بیدل حیدری یاد آتے ہیں
بھونچال میں کفن کی ضرورت نہیں پڑی ہر لاش نے مکان کا ملبہ پہن لیا