پچھلے کچھ دن سیاحت کی غرض سے جنت ارضی کے آزاد ٹکڑے آزادجموںو کشمیر میں گزرے، جہاں اس جنت ارضی میں خوبصورت وادیاں، شوریدہ سر نالے، تند و تیز دریا اور برفون سے ڈھکے بلند و بالا پہاڑ مووجود ہیں وہیں محرومیاں، شکوے شکایات اور بعض جگہوں پر تو بنیادی سہولیات کی عدم دستیابی بھی ہے. سالہا سال سے جموں و کشمیر کے ان حلقوں سے منتخب ہوکر قانون ساز اسمبلی میں پہنچنے والے مراعات سے تو لطف اندوز ہوتے رہے لیکن جموں کشمیر کے شہریوں کے لیے کچھ بھی کرنے سے قاصر رہے.
ہمارا سیاحتی ٹور کا ہدف ویسے تو نیلم کو خوبصورت وادی اور اس میں موجود آبشاریں، جھیلیں وغیرہ تھیں لیکن جیسے ہی ہم کشمیر کی سرحد میں داخل ہوئے تو ہمیں ہر طرف الیکشن کی گہما گہمی نظر آئی، ہر طرف انتخابی تصاویر اور نعروں سے مزین پوسٹرز اور بینرز لہراتے پھر رہے تھے تو ہم نے سوچا چلو سیاحت کے ساتھ ساتھ کشمیر کے انتخابات اور انتخابی مہم کو ہی تنقیدی و تعریفی نگاہوں سے دیکھتے جاتے ہیں. اس غرض سے نارووال سے کے انتخابی حلقوں سے لے کر نیلم تک سفر کیا اور دیکھا اس کے آپ کے سامنے رکھنے کی کوشش کرتے ہیں.
بنیادی طور پر یہ انتخابات ریاست جموں کشمیر کی قانون ساز اسمبلی کے لیے ہورہے ہیں جن میں جموں اور مقبوضہ وادی کے مہاجرین کی نشستیں بھی شامل ہیں. کچھ انتخابی حلقہ جات نارووال، سیالکوٹ، گوجرانوالہ، لاہور، گجرات اور دیگر ان علاقوں پر بھی مشتمل ہیں جہاں جہاں مہاجرین کشمیر مقیم ہیں. اس سفر کے دوران تقریباً سبھی ہی حلقہ جات میں چکر لگا تو حالات ماڑے ہی نظر آئے. مہاجرین کے حلقوں میں ریاستی مہاجرین کے مسائل کا کسی کو ادراک نہیں، آزاد جموں کشمیر کے حلقوں میں بھی اب تک منتخب ہونے والوں نے الا ماشاءاللہ اپنی جائدادیں ہی بنائی ہیں.
ریاست آزاد جموں کشمیر کے حالیہ انتخابات میں بےشمار سیاسی جماعتیں حصہ لے رہی ہیں. ان میں سے بڑی جماعتوں میں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی وہ جماعتیں ہیں جو باری باری حکومت بناچکی ہیں لیکن ان کے پلے سوائے بیانات اور بڑھکوں کے کچھ بھی نہیں ہے. ابھی بھی مریم نواز اور اس کے ہمنواء انتخابی جلسوں میں یہی بیان بازیاں کررہے ہیں کہ ہمیں ووٹ دو تو دودھ اور شہد کی نہریں بہائیں گے لیکن کوئی ان کو پوچھنے والا نہیں کہ بی بی ابھی آپ کا ہی دور حکومت گزرا ہے اس میں آپ لوگوں نے کیا کرلیا راولا کوٹ جیسے علاقے میں بچوں کو پینے کے لیے 150 روپے کلو میں بھی دودھ میسر نہیں ہے.
اسی طرح پیپلز پارٹی کے حالات ہیں کہ بلاول بھی اپنے آپ کو کشمیر کا بیٹا کہلوانے کی کوشش میں خاصی بانسریاں بجاکر کر گیا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ جو حال پیپلز پارٹی نے سندھ کا کیا ہوا ہے اپنے دور حکومت میں وہی حال آزاد ریاست جموں و کشمیر کا بھی رہا ہے لیکن ابھی بھی وہ حکومت بنانے کے دعوے دار ہیں لیکن اس بار ریاستی عوام سیاسی طور پر قدرے باشعور ہے ہم نے دوران سفر صاف آواز سنیں کہ” نہ تو بلاول کشمیر کا بیٹا ہے اور نہ ہی مریم کشمیر کی بیٹی ہے دونوں مفاداتی پنچھی ہیں اور جھوٹ بولتے ہیں”.
ریاست جموں و کشمیر کے انتخابات بارے ایک بات زبان ذد عام ہے کہ پاکستان میں جس کی حکومت ہوتی ہے کشمیر میں بھی وہی پارٹی برسراقتدار آتی ہے تو اس لیے انتخابات کا اعلان ہوتے ہی اڑنے والے پنچھی اڑ کر تحریک انصاف کی ڈالیوں پر آ بیٹھے تھے. قیاس یہی کیا جا رہا ہے کہ حکومت تحریک انصاف بنائے گی لیکن جس طرح پاکستان میں تانگہ پارٹی بن کر حکومت میں آئی کچھ ایسا ہی حال کشمیر میں ہونے جارہا ہے. تحریک انصاف کی انتخابی کمپین انتشار کا شکار ہے حتیٰ کہ ابھی سے وزیراعظم کے لیے لڑائی شروع ہوچکی ہے ایسے میں وہ کشمیر و کی تعمیر و ترقی پر خاک توجہ دیں گے.
ریاستی انتخابات میں مسلم کانفرنس، تحریک لبیک و دیگر سیاسی پارٹیاں بھی سرگرم عمل ہیں لیکن ان کا ووٹ بنک ایسا نہیں کہ وہ کوئی کارنامہ سرانجام دے سکیں. مقبوضہ کشمیر میں پچھلے سال ہونے والی تبدیلی کے پیش نظر بھی عوام میں حکومتی اقدامات کے حوالے سے مایوسی پائی جاتی ہے. ایسے میں ایک نئی سیاسی جماعت جو مقبوضہ کشمیر کی آزادی اور آزاد کشمیر کو اس کا حقیقی بیس کیمپ بنانے کا نعرہ لے کر میدان عمل میں اتری ہے جو سب کی توجہ کا مرکز بن رہی ہے.
جموں کشمیر یونائیٹڈ موومنٹ کے نام سے معرض وجود میں آنے والی سیاسی جماعت نے آزاد جموں کشمیر اور ریاستی مہاجرین کی اکثر نشستوں پر اپنے امیدوار کھڑے کیے ہیں. سوشل میڈیا پر ان کی مہم خاصی دکھائی دے رہی ہے. اس جماعت نے کئی ایک علاقوں میں کامیاب امتخابی جلسے اور ریلیاں بھی منعقد کی ہیں جس کی وجہ سے یہ عوامی توجہ بھی اپنی جانب مبذول کروانے میں کامیاب رہے ہیں.
انتخابی سرگرمیوں کی کوریج کرتے ہوئے جہاں دیگر سیاسی جماعتوں کے امیدواران کی مصروفیات دیکھیں وہاں جموں کشمیر یونائٹڈ موومنٹ کے امیدواران اور پارٹی قیادت سے بھی ملاقات رہی. ان کا ماننا تھا کہ گوکہ وہ ان انتخابات میں بہت زیادہ ووٹ تو نہیں لے سکیں گے لیکن ہم عوامی لوگ ہیں اور عوام کی خدمت کے ساتھ ساتھ مقبوضہ وادی کو آزاد کروانا ہمارا بنیادی منشور ہے. ہم الیکشن جیت کر اسمبلی میں بیٹھیں یا الیکشن میں کم ووٹ لے سکیں ہم عوام سے رشتہ نہیں توڑیں گے.
آزاد جموں و کشمیر میں تحریک انصاف کی بنیاد رکھنے والے منجھے ہوئے سیاستدان سردار بابر حسین اس جماعت کے سربراہ ہیں ان کے ساتھ بھی اسی طرح کے تجربہ کار اور مخلص لوگ ہیں جو مقبوضہ کشمیر کی آزادی میں یقین میں رکھتے ہیں. موجودہ انتخابات میں اپنی سرگرمیوں کے ساتھ وہ ریاستی عوام کو اپنی طرف متوجہ کرنے میں کامیاب ہوچکے ہیں. اب دیکھنا یہ ہے کہ پچیس جولائی کا سورج اپنے غروب کے ساتھ مظفرآباد کے تحت پر کس کو طلوع کرکے جاتا ہے.