جمہوریت کا حسن یہ ہے کہ عوام کے ووٹوں سے منتخب حکومت اپنی مدت پوری کرے اور پھر دوبارہ انتخابات ہوں۔اور ان ہونے والے انتخابات کے ذریعے سے عوام کو ایک بار پھر موقعہ ملتا ہے وہ اپنی منتخب کردہ سابقہ حکومت کا محاسبہ کر سکے کہ جن کو ہم نے ووٹوں سے منتخب کیا تھا،انہوں نے ہمارے لیے کیا کام کیا۔کیا تعلیم ،صحت، روزگار، غربت کے خاتمے اور بنیادی ضروریات تعمیرو ترقی کے لیے کیا خدمات سر انجام دیں۔کیا انتخابات سے قبل کیے گئے بلند بانگ دعوے اور وعدے پورے کیے۔اپنے انتخابی منشور پر عمل کیا یا وہ صرف ہمیں سبز باغ دکھانے کے لیے ہی تھا۔اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی آزاد ریاست جموں و کشمیر میں 25جولائی2021کو ہو نے والے انتخابات۔سابقہ حکومت چونکہ مسلم لیگ نواز کی تھی۔ اور الیکشن کے وقت بھی وزیر اعظم فاروق حیدر ہی تھے۔کیونکہ وہاں نگران حکومت نہیں ہوتی۔آزاد ریاست جموں و کشمیر کی مکمل انتظامی ، سرکاری انتظامی عہدیدار براہ راست الیکشن کمیشن اوروزیر اعظم کو جوابدہ تھے۔
پاک فوج کو صرف اور صرف QRFیعنی کویئک ری ایکشن فورس کے طور پر الیکشن کمیشن کی درخواست پر بلایا گیا تھا۔ان انتخابات میں آزاد کشمیر کی تمام بڑٰی جماعتوں نے حصہ لیا۔لیکن اس انتخابی مہم میں پاکستان مسلم لیگ نواز ،پاکستان تحریک انصاف،پاکستان پیپلز پارٹی،جماعت اسلامی،جموں و کشمیر پیپلز پارٹی،مسلم کانفرس اور تحریک لبیک کی انتخابی مہم نظر آئی۔لیکن اصل مقابلہ پاکستان مسلم لیگ نواز اور پاکستان پیپلز پارٹی کا اکیلی تحریک انصاف سے تھا۔تحرک انصاف سابقہ الیکشن میں برسٹر سلطان محمود کے نامزد کردہ امیدواروں پر انحصار کر کے بری طرح ہار چکی تھی۔تو اس رزلٹ کو مد نظر رکھتے ہوئے اس بار اپنی سٹریٹجی(پالیسی)تبدیل کردی۔کیونکہ اس بار پاکستان میں حکومت بھی پاکستان تحریک انصاف کی تھی اور وہ الیکشن ہارنا نہیں چاہتی تھی۔کچھ وفاقی حکومتی جماعت ہونے کا فائدہ کہ دوسری جماعتوں کے مضبوط امیدوار جو اپنی پارٹیوں کو چھوڑ کر ٹکٹ کے حصول کے لیے ہی تحریک انصاف میں شامل ہو چکے تھے۔بیرسٹر سلطان محمود،سیف اللہ نیازی،سردار تنویر الیاس اور وفاقی وزیر امور کشمیر علی امین گنڈاپور پر مشتمل انتخابی کمیٹی نے مضبوط امید وار میدان میں اتارے اور رہی سہی کسر انتخابی مہم میں بڑے منظم انداز اور زمینی جغرافیائی محل وقوع کو مد نظر رکھتے ہوئے بڑے بڑے جلسے کرکے اپنی دھاک بٹھائی،اور عوام میں تاثر الیکشن سے پہلے ہی پھیل گیا تھا کہ اس بار بھی سابقہ روایات کے عین مطابق اس بار بھی وفاقی حکومتی جماعت ہی ریاست کے انتخابات جیت کر حکومت بنائے گی۔
(3220793)بتیس لاکھ بیس ہزار سات سو ترانوے رجسٹرڈ ووٹروں میں (1974318)انیس لاکھ چوہتر ہزار تین سو اٹھارہ ووٹروں نے حق رائے دہی استعمال کیا۔اس میں تحریک انصاف 31.35فیصد،پاکستان پیپلز پارٹی17.88فیصد،مسلم لیگ نواز25.09فیصد،لے کر کل( 45 )پینتالیس حلقوں میں سے تحریک انصاف( 26)چھبیس، پیپلز پارٹی(11)گیارہ اور مسلم لیگ نواز(6)چھ سیٹیں جیت سکی۔اسطرح تحریک انصاف حکومت بنانے میں بلا شرکت کامیاب ہو گئی۔لیکن اس میں مسلم لیگ نواز کی ہار کے جو نمایاں پہلو اس میں کشمیر میں پارٹی کے صدر راجہ فاروق حیدر کی ہٹ دھرمی اور حکومت میں ہو تے ہوئے وزراء کی گروپ بندی اور پھر کچھ
وزراء کو پارٹی سے نکالنا۔دوسرا مریم نواز کی جارحانہ حکمت عملی اور زہنی حقائق کو نظرا نداز کرنا۔مثال کے طور پرریاست آزاد کشمیر میں ہر گھر سے تقریبا ایک فوجی اور ہر گھر میں تحریک آزادی کشمیر کا سپاہی ہے۔جبکہ مریم نواز کی اداروں سے ٹکرائو اور پاک فوج جیسے اداروں کے خلاف جلسوں اور سوشل میڈیا پر تنقید کا کشمیری عوام نے اپنے ووٹ کے ذریعے جواب دیا۔جو مسلم لیگ نواز کی کشمیر میں حکومت کے خاتمے کا سبب بنا۔آزاد کشمیر میں شرح خواندگی باقی صوبوں سے زیادہ اور اندرون و بیرون ملک کشمیری سوشل میڈیا کا بہت زیادہ استعمال کرتے ہیں۔
کشمیری عوام پاک فوج سے دلی پیار کرتے ہیں۔اور گھر گھر میں پاک فوج کے شہداء اور تحریک آزادی کشمیر کے شہداء کی خبریں موجود ہیں۔آزاد کشمیر تحریک آزادی کشمیر کا بیس کیمپ ہے۔اور اپنے بیس کیمپ میںاگر کوئی ان کے نظریے اور جدو جہد کے خلاف بات کرے تو ان کو قبول نہیں۔دیکھا جائے تو شاید مریم نواز کی اس حکمت عملی کی وجہ سے پارٹی کے صدر میاں شہباز شریف اور ان کا پورا گروپ ہمیں نظر نہیں آیا۔راجہ فاروق حیدر تو خود ایک حلقے سے ہار گئے اور دوسرے حلقے سے محض چند سو ووٹوں سے بڑی مشکل سے سیٹ بچائی۔
اس پر بھی پیپلز پارٹی کے اشفاق ظفر صاحب دھاندلی کا الزام لگا رہے ہیں،بلکہ احتجاج بھی کرتے نظر آئے۔اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا تحریک انصاف کی حکومت آزاد کشمیر میں کچھ ڈیلیور بھی کر پائے گی یا وہاں پر بھی صرف یہ سبق ملے گا کہ آپ نے گھبرانا نہیں۔اگر بات گھبرانے والی ہو ئی توکشمیر کی عوام ضرور گھبرائے گی اور پاکستان میں جس طرح عوام تین سال نہیں گھبرائی لگتا ہے اب گھبرائے گی اور اگر یہی صورتحال رہی تو لگتا ہے کہ ایک سال بعد حکومتی وزراء اور مشیروں کا کپتانن سمیت گھبرانے کا وقت آجائے گا۔اس پر کبھی بحث ہو گی۔اب تو لائن آ ف کنٹرول کے حلقہ سے تعلق رکھنے والے سابقہ مسلم کانفریسی وزیر متوسط طبقہ کا سردار عبدالقیوم نیازی(مغل خاندان) آزاد کشمیر کا نیا وزیر اعظم بن گیا ہے۔اللہ پاک کشمیر اور کشمیر کی عوام کو اپنے حفظ و امان میں رکھے۔