تحریر : سید امجد حسین بخاری آزاد کشمیر ریاست جموں و کشمیر کا وہ حصہ ہے جو اس وقت پاکستان کے زیر انتظام ہے۔ اس کا باقاعدہ نام ریاست آزاد جموں و کشمیر ہے۔ یہ علاقہ 13،300 مربع کلومیٹر (5،135 مربع میل) پر پھیلا ہے۔ آزاد کشمیر کا دارالحکومت مظفرآباد ہے اور ریاست آزاد جموں و کشمیر کی آبادی اندازا 40 لاکھ ہے۔ آزاد کشمیر میں 10 اضلاع، 19 تحصیلیں اور 182 یونین کونسلیں ہیں۔ آزاد کشمیر کے اضلاع میں ضلع باغ، ضلع بھمبر، ضلع پونچھ، ضلع سدھنوتی، ضلع کوٹلی، ضلع مظفر آباد، ضلع میر پور، ضلع نیلم، ضلع حویلی اور ضلع ہٹیاں شامل ہیں۔آزاد کشمیر میں قانون سازی اسمبلی کام کرتی ہے، جس کے ہر پانچ سال بعد انتخابات کرائے جاتے ہیں ۔اس سال قانون ساز اسمبلی کے انتخابات کا اعلان کردیا گیا ہے ۔گذشتہ روزچیف الیکشن کمیشن جسٹس غلام مصطفی مغل نے پریس کانفرنس کرتے ہوے کہا کہ عام انتخابات 21 جولائی کو ہونگے۔6 جون سے 16 جون تک امیدواروں کے کاغذات جمع۔ 17کو سکروٹنی۔ 18 جون کو امیدواروں کی فہرست جاری۔ 22 جون کو کاغذات کے خلاف اپیل کی جاسکتی ہے۔ 26 جون کو اپیلوں پر فیصلہ۔ 27 جون کو امیدوار کاغذات واپس لے سکیں گے۔
29 جون کو انتخابی نشانات الاٹ ہونگے۔ آزادکشمیر کے 29 حلقوں میں 22 لاکھ 37 ہزار 58 ووٹ جبکہ مہاجرین کے 12 حلقوں کیلئے 4 لاکھ 44 ہزار 634 ووٹ دے کر اپنی الیکشن سے قبل تمام جاری منصوبوں پر کوئی پابندی نہیں۔ گو کہ یہ انتخابات پاکستان کے حالات یا آزاد خطے کے تقدیر بدلنے کے لئے اتنے اہم نہیں ہوتے لیکن کشمیر میں انتخابات کا موسم آتے ہی ہر گھر ، بازار ، چوراہے اور گلی کوچوں میں سیاست پر بحث کی جاتی ہے، بڑی بڑی گاڑیوں میں سفر کرنے والے بیورو کریٹس سے لے کر گھاٹ گھاٹ کا پانی پینے والے چرواہے تک ہر شخص سیاسی معاملات کی خبر رکھتا ہے۔
سیاسی طور پر اتنے باخبر ہونے کے باوجود بھی کشمیری عوام ابھی تک برادری عزم اور اقربا پروری کے حصار سے نہیں نکل سکے۔ ووٹ کا فیصلہ برادری کا سربراہ کرتا ہے، بڑی برادریاں الیکشن میں اپنا نمائندہ منتخب کراتی ہیں، جب کہ چھوٹی برادریوں کو اپنی بقاء کے لئے ان کا ساتھ دینا پڑھتا ہے۔جو برادری یا فرد بڑی برادریوں سے ٹکرانے کی کوشش کرتا ہے تو اس کو داستان عبرت بنادیا جاتا ہے۔کشمیر کے سیاست سراسر وفاقی حکومت کے زیر اثر ہوتی ہے، وفاق میں جو بھی حکومت ہو اسی سیاسی جماعت ہی کی حکومت آزاد کشمیر میں قائم ہوتی ہے۔
Politics
آزاد کشمیر کے سیاستدانوں کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ وفاق میں براجمان سیاسی جماعت کا ٹکٹ حاصل کرے ، اس کے لئے بولیاں لگائی جاتی ہیں اور جو سب سے زیادہ سرمایہ لگاتا ہے، ٹکٹ اسی کا مقدر ٹھہرتا ہے۔ جبکہ وفاقی حکومت کی بھی یہی کوشش ہوتی ہے کہ قدآور سیاسی شخصیت کو ہی ٹکٹ جا ری کیا جائے۔خیرابھی تو الیکشن کا اعلان ہوا ہے۔ چیف الیکشن کمیشن کے مطابق تمام تقریوں، تبادلوں پر پابندی عائد کردی گئی ہے۔تمام بلدیاتی عہدے ختم کردئیے گئے ہیں اور بلدیاتی اداروں کا انتظام و انصرام بھی مقام اسسٹنٹ کمشنر چلائیں گے۔ سیاسی جماعتوں کو ڈوثرن کی سطح پر ایک بڑا جلسہ کرنے کی اجازت ہو گی۔ امیدوار 20 لاکھ تک انتخابی اور 5 لاکھ تک ذاتی اخراجات کر سکتے ہیں۔ انتخابات کو صاف شفاف کرانے کے لئیے پاکستان آرمی کی خدمات حاصل کی جائیں گی۔انتخابات کے اعلان ہوتے ہی سیاسی جماعتوں نے اپنی سرگرمیوں کا آغاز کردیا۔
اب صورت حال یکسر بدل چکی ہے، پانچ سال تک اسمبلی میں اقتدار کے مزے لوٹنے والے پیپلز پارٹی کے سیاست دان اب مسلم لیگ (ن) کی جانب للچائی نظروں سے دیکھ رہے ہیں ، جبکہ ریاستی جماعت مسلم کانفرنس سے کنارہ کشی اختیار کرنے والے کئی امیدواران اب اپنی ہمدردیاں ن لیگ کی جھولی میں ڈال چکے ہیں ۔تحریک انصاف بھی اس کوشش میں لگی ہے کہ کشمیر میں بھی اس کا منجن بک جائے، جس کے لئے اس نے کشمیر کونسل کے انتخابات پر کروڑوں روپے خرچ کرکے امیدوار خریدے، مگر عام انتخابات میں تحریک انصاف کے لئے ایسا کرنا ناممکن ہے، سلطان محمود چوہدری جو کہ آزاد کشمیر کے وزیر اعظم رہ چکے ہیں ، انہیں اپنے پارٹی میں شامل کرکے تحریک انصاف پھولی نہیں سما رہی لیکن چوہدری صاحب کی تاریخ گواہ ہے کہ انہوں نے اپنی دولت وہیں خرچ کی ہے جہاں سے انہوں نے دوگنا منافع کمایا ہے۔آزاد کشمیر میں سب سے زیادہ زیر بحث نو وارد سیاست دان مشتاق منہاس ہیں۔ جن کے وزیراعظم نواز شریف سے تعلقات ضرب المثل ہیں۔
وزیر اعظم پاکستان کی جانب سے کشمیر کے تمام دوروں میں مشتاق منہاس کو ساتھ لے کر گھومنا وہاں کے عوام کو شاید مستقبل کا اشارہ ہو سکتا ہے۔ کشمیر کے عوام نے مشتاق منہاس کو وہاں کا وزیر اعظم بھی تصور کر لیا ہے۔لیکن یہ سب تخیلاتی باتیں ہیں اور ان کا وزیر اعظم بننے کا خواب بھی مجھے تو دیومالائی داستان لگ رہا ہے۔ اس حلقے کا اگر تجزیہ کیا جائے تو یہاں سے آزاد کشمیر کے تین منجھے ہوئے سیاست دان الیکشن لڑ رہے ہیں، پیپلز پارٹی کے سردار قمرالزمان خان جو کہ یہاں سے کئی بار ممبر قانون ساز اسمبلی رہ چکے ہیں، جماعت اسلامی کے عبد الرشید ترابی، اور تیسرے اہم امیدوار تحریک انصاف کے کرنل نسیم احمد خان مرحوم تھے، کرنل نسیم کی وفات کے بعد اس حلقے میں برادری ازم کی سیاست زور پکڑے گی اور وہی امیدوار جیتے گا جس کی برادری طاقت ور ہوگی، اس لئے اصل مقابلہ پیپلز پارٹی کے سردار قمرالزمان اور جماعت اسلامی کے عبد الرشید ترابی میں ہوگا۔دوسرا اہم حلقہ دھیر کوٹ کا ہے جہاں سے مسلم کانفرنس کے اکلوتے اور اہم رہنما سابق وزیر اعظم سردار عتیق احمد خان الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں۔
PML N and PPP
اس حلقے میں بھی کانٹے دار مقابلہ ہونے کی توقع ہے، جبکہ روالاکوٹ میں مقابلہ مسلم لیگ (ن) ، جموں وکشمیر پیپلز پارٹی اور پاکستان پیپلز پارٹی کا ہے، مگر جماعت اسلامی کا ووٹ بینک بھی یہاں کے نتائج پر اثر انداز ہو سکتا ہے۔ مظفرآبادنے کسی بھی دور میں آزاد کشمیر کی سیاست میں اہم کردار ادا نہیں کیا۔تاہم ہٹیاں بالا سے مسلم لیگ ن کے امیدوار راجہ فاروق حیدر کی کامیابی آزادکشمیر کی سیاست کو نیا رنگ دے سکتی ہے۔ضلع حویلی آزاد کشمیر کی سیاست میں کلیدی کردار ادا کرنے والا ضلع ہے، ایک طویل عرصے تک یہ ضلع پاکستان پیپلز پارٹی کا ناقابل تسخیر قلعہ رہا ہے۔ سابق وزیراعظم آزاد کشمیر راجہ ممتاز حسین راٹھور کی وفات کے بعد پیپلز پارٹی کی قیادت کی جانب سے کئے گئے فیصلوں نے پیپلز پارٹی کو ختم کردیا۔
تاہم گذشتہ انتخابات میں ممتاز حسین راٹھور کے فرزند فیصل ممتاز راٹھور پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر ممبر قانون ساز اسمبلی بنے اور وزارت کا قلمدان بھی سنبھالا۔ مگر اپنے غیر سنجیدہ فیصلوں اور ناکام منصوبہ ساز مشیروں کی بدولت حویلی کے عوام میں مقبولیت کھو چکے ہیں، اوریہی وجہ ہے کہ انہوں نے چند روز قبل حویلی میں الیکشن لڑنے سے معذرت کرلی اور اپنے دست راست اور مشیر خواجہ طارق سعید کی بھرپور حمایت کا اعلان کیا اور موجودہ انتخابات سے سبکدوشی اختیار کی۔ضلع حویلی سے مسلم لیگ ن کے امیدوار چوہدری محمد عزیز ایک مضبوط امیدوار ہیں اور ان کی جیت یقینی ہے۔تمام سیاسی جماعتوں کی جانب سے امیدواروں کے اعلان کے بعد مسلم لیگ کے 13، پیپلز پارٹی کے 6، مسلم کانفرنس 5، تحریک انصاف 2جبکہ جموں و کشمیر پیپلز پارٹی اور جماعت اسلامی ایک ایک نشست لے سکتی ہیں۔
تاہم چند ایک امیدواران اپ سیٹ کرنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں مہاجرین کی نشستوں پر ایم کیو ایم، مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف کے مابین مقابلہ متوقع ہے جس کے بعد مسلم لیگ ن 7، تحریک انصاف 3اور ایم کیو ایم 2نشستیں حاصل کر سکے گی۔ تاہم مہاجرین کی نشستوں پر بھی اپ سیٹ متوقع ہے۔آزاد کشمیرا نتخابات کی تاریخ اٹھا کر دیکھی جائے تو ہر دور میں یہ انتخابات خونی تصادم کی شکل اختیار کر تے رہے ہیں۔
Protest
برادریاں اپنی گردن بلند رکھنے کے لئے باقی برادریوں کی گردنیں اتارنے سے گریز نہیں کرتیں، گذشتہ انتخابات پر بھی کشمیر بھر کے انتخابات میں چودہ کے قریب قیمتی انسانی جانوں کو ضیاع ہواجبکہ درجنوں زخمی بھی ہوئے۔جیت ایک سیاسی جماعت یا ایک برادری کی ہوتی ہے مگر ہارتی انسانیت ہے۔ ایک نشست کی خاطر عزتوں کی پامالی ہوتی ہے، تعلقات اور دوستیوں کی قربانیاں لگتی ہیں۔ بعض اوقات لڑائیاں اتنی سنگین ہو جاتی ہیں کہ ایک دوسرے پر پانی تک بند کردیا جاتا ہے، راستوں میں رکاوٹیں کھڑی کردی جاتی ہیں۔ آزاد کشمیر میں شرح تعلیم جتنی زیادہ ہے اس سے کہیں زیادہ یہاں کے رسوم و رواج اور روایات جہالت کی علامت ہیں۔ تعلیم انسان کو شعور دیتی ہے مگر یہاں برادری ازم ، اقربا پروری ہی عزت کی بنیاد سمجھی جاتی ہے۔
الیکشن کا اعلان ہوتے ہی لڑائی جھگڑوں کی ابتداء ہوگئی ہے۔ اس موقع پر حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ذمہ داری ہے کہ انتخابات کا انعقاد پرامن او ر شفاف یقینی بنایا جائے۔ہندوستان سے آزادی کے وقت آزادکشمیر کو بیس کیمپ بنانے کا اعلان کیا گیا تھا تاکہ اس خطے کو بنیاد بنا کر باقی ماندہ کشمیر کو آزاد کرانے کے لئے راہ ہموار کی جائے مگر یہاں کشمیر کی مکمل آزادی کے لئے جدوجہد کرنا تو درکنار یہاں کے عوام اور سیاست دان اپنے اقتدار کو طول دینے اور برادری ازم کی بقاء کی جنگ لڑنے میں مصروف ہیں۔
موجودہ الیکشن میں بھی تمام سیاسی جماعتوں نے اپنے انتخابی منشور کا اعلان کیا ۔ لیکن کسی بھی سیاسی جماعت نے کشمیر کی آزادی کے لئے جدوجہد کو اپنے منشور میں شامل نہیں کیا۔مضمون کی طوالت کے پیش نظر دیگر سیاسی معاملات کو یہاں قلمبند نہیں کیا جا سکتا تاہم آئندہ کسی مضمون میں ان کا احاطہ کرنے کی کوشش کی جائے گی۔