25 جولائی کو آزادکشمیر میں انتخابی دنگل سجنے کو ہے، جہاں اسمبلی کی 45 سیٹوں پر انتخاب ہوگا۔ نوازلیگ 42 اُمیدواروں کے ساتھ انتخابی اکھاڑے میں کودرہی ہے جبکہ تقریباََ اُتنے ہی اُمیدوار تحریکِ انصاف نے بھی میدان میں اُتارے ہیں۔ وہ جنت نظیر وادی جہاں اِس موسم میں مرغانِ خوش الحان کے نغمے گونجتے ہیں، آجکل آگ اُگلتی زبانوں کی زَد میں ہے۔ پہلے بلاول زرداری نے انتخابی جلسوں کے دوران اپنی تقاریر میں تحریکِ انصاف اور مسلم لیگ (ن) پر تابڑ توڑ حملے کیے۔ آجکل مریم نواز کا نشانہ وزیرِاعظم عمران خاں ہے۔ وہ جہاں بھی جاتی ہے مجمعے سے ایک سوال ضرور پوچھتی ہے کہ مقبوضہ کشمیر کا سودا کرنے والا عمران خاں کس مُنہ سے آزادکشمیر آئے گا۔ وہ انتخابی دھاندلی کے بارے میں بھی اپنے ووٹرز کو آگاہ کرتے ہوئے کہتی ہے کہ اُنہوں نے صرف ووٹ ڈالنا ہی نہیںووٹ کی حفاظت بھی کرنی ہے۔ ہر جگہ عوام کا جمِ غفیر اکٹھا ہو جاتاہے اور پھر آزادکشمیر ”ٹھپے پہ ٹھپہ، شیر پہ ٹھپہ” جیسے نعروں سے گونجنے لگتا ہے۔ 16 جولائی کو برنالہ آزادکشمیر میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے مریم نواز نے کہا ”پچھلے الیکشن میں 2 سیٹیں لینے والو! یاد رکھو الیکشن چوری کیا تو عوام تمہیں نہیں چھوڑیں گے۔ الیکشن چوری کرنے کی کوشش عمران خاں کو بہت مہنگی پڑے گی”۔ مریم نواز نے یہ بھی کہا کہ مخالفین کے سارے جلسے ملا کر نوازلیگ کے ایک جلسے کا بھی مقابلہ نہیں کر سکے۔ غیرجانبدار تجزیہ نگار تو یہی کہتے ہیں کہ مریم نواز کے ہر جلسے میں عوام کی بھرپور تعداد شرکت کرتی ہے اور مجمع بھی ”فُل چارجڈ” ہوتاہے لیکن اگر ہم آزادکشمیر کی انتخابی تاریخ پر نظر دوڑائیں تو ظاہر ہوتا ہے کہ ہمیشہ وہاں اُسی سیاسی جماعت کی حکومت بنتی ہے جو مرکز میں بَرسرِاقتدار ہوتی ہے۔ اِس لیے بظاہر تو آزادکشمیر میں تحریکِ انصاف کی حکومت بننے جا رہی ہے البتہ اگر پاکستان کے موجودہ ضمنی انتخابات کو سامنے رکھیں تو نتائج اُلٹ بھی ہو سکتے ہیں۔ پاکستان میں ضمنی انتخاب کی تاریخ کے مطابق بھی ہمیشہ برسرِاقتدار پارٹی ہی جیتتی ہے جبکہ موجودہ ضمنی انتخابات میں تحریکِ انصاف کو بُری ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا۔
وزیرِاعظم عمران خاں نے پیپلزپارٹی اور نوازلیگ کے مقابلے میں وفاقی وزیر علی امین گنڈاپور کو انتخابی اکھاڑے میں اتارا ہے۔ پیپلزپارٹی کی ڈاکٹر نفیسہ شاہ کہتی ہے کہ علی امین گنڈا پور وفاقی حکومت کی ”گالم گلوچ بریگیڈ” کا سربراہ ہے۔ سینیٹر شیری رحمٰن نے کہا ”بَدزبانی، بَدگوئی، بَدکلامی اور بَد تہذیبی سے عوام کے دل نہیں جیتے جا سکتے”۔ اِس میں کوئی شک نہیں کہ اپنی بَدزبانی میں مشہور علی امین نے اخلاقیات کے سارے بندھن توڑتے ہوئے بلاول بھٹو اور مریم نواز پر الزامات کی بوچھاڑ کر دی۔ ایک تقریرکے دوران اُس نے ذوالفقار علی بھٹو کو غدار اور میاں نوازشریف کو ڈاکو قرار دیا جس پر پیپلزپارٹی اور نوازلیگ میں اشتعال اپنی انتہاؤں کو چھو رہاہے۔ پیپلزپارٹی کے نثار کھوڑو نے کہا ”اگر وزیرِاعظم نے علی امین کی شہید بھٹو کے متعلق بَدزبانی کا نوٹس نہ لیا تو پھر پیپلزپارٹی کے کارکنان بھرپور جواب دینے کی ہمت رکھتے ہیں”۔ مریم نواز نے کہا ”کشمیریوں نے وفاقی وزیر علی امین کا انڈوں سے استقبال کیا، جب کشمیر کا مقدمہ ہار کر آئیں گے تو کیا کشمیری آپ کا ہاروں سے استقبال کریں گے؟”۔ علی امین کی یہ زبان کسی کے لیے بھی قابلِ قبول نہیں۔ اُس نے نہ صرف اخلاقیات کی ساری حدیں پار کیں بلکہ انتخابی جلسے میں ووٹوں کی خریداری کے لیے کھلم کھُلا رقوم بھی تقسیم کیں۔ اِن رقوم کی تقسیم کی ویڈیو نہ صرف سوشل میڈیا بلکہ الیکٹرانک میڈیا پر بھی وائرل ہو چکی ہے۔
چیف الیکشن کمشنر آزادکشمیر جسٹس (ر) عبدالرشید سلہریا نے اِس ویڈیو کا شدید نوٹس لیتے ہوئے کہا ”ہم کسی کے دباؤ میں آئے بغیر یہاں صاف وشفاف الیکشن کروائیں گے”۔ اُنہوں نے علی امین گنڈاپور کے خلاف ایف آئی آر کاٹنے کا حکم بھی دیا ہے اور علی امین کی تقریروں پر پابندی لگاتے ہوئے اُسے آزادکشمیر کی حدود سے نکل جانے کا حکم بھی دیا ہے۔ چیف سیکرٹری آزادکشمیر کو لکھے گئے خط میں چیف الیکشن کمشنر نے کہا کہ علی امین کی تقریروں سے امن وامان کا مسٔلہ پیدا ہو رہا ہے اِس لیے الیکشن کمیشن کی ہدایات پر فوری عمل درآمدکرکے رپورٹ پیش کی جائے ۔ چیف الیکشن کمشنر آزادکشمیر کے اِس ردِعمل سے اُمید پیدا ہو چلی ہے کہ وہ بھی الیکشن کمیشن آف پاکستان کی طرح صاف اور شفاف الیکشن کے لیے اپنی ساری توانائیاں صرف کر دیں گے اور آزادکشمیر میں ڈسکہ کی تاریخ نہیں دہرائی جائے گی۔ اگر خُدانخواستہ ایسا ہوا تو پھر یہ انتخابات آزادکشمیر کی تاریخ کے خونی انتخابات کہلائیں گے۔ خدشہ یہ کہ پیپلزپارٹی ہو یا نوازلیگ، کوئی بھی سیاسی جماعت انتخابی دھاندلی کی صورت میں الیکشن کمیشن کا رُخ کرنے کی بجائے دھاندلی کرنے والوں سے خود نپٹنے کی کوشش کرے گی۔ سوال مگر یہ کہ کیا آزادکشمیر کی انتظامیہ الیکشن کمیشن کا ساتھ دے گی؟۔ اظہرمِن الشمس کہ الیکشن کمیشن کے ریاستی انتظامیہ سے تعلقات کشیدہ ہیں۔ جس کی بیّن مثال یہ کہ جب علی امین گنڈاپور ناردرن ایریا میں رقوم تقسیم کر رہا تھا اُس وقت سٹیج پر پولیس حکام اور ڈپٹی کمشنر بھی موجود تھے لیکن اُنہوں نے کوئی ایکشن نہیں لیا۔ کرسی کی ہوس میں مبتلاء تحریکِ انصاف نے بھی علی امین کی اِن ”حرکات” پر لَب سی لیے ہیں جبکہ نوازلیگ اور پیپلزپارٹی اپنااپنا میمنہ ومیسرہ تیار کیے بیٹھی ہیں۔
25 جولائی کے انتخابات کے جو بھی نتائج سامنے آئیں، اُنہیں رکھئیے ایک طرف، سوال یہ ہے کہ کیا ہماری سیاسی جماعتوں کو مقبوضہ کشمیر کا بھی کچھ خیال ہے یا وہ صرف ”کرسی” کی تگ ودَو میں ہلکان ہو رہی ہیں۔ چاہیے تو یہ تھا کہ وزیرِاعظم تمام سیاسی جماعتوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرکے متفقہ طور پر کشمیر کی آزادی کا ”روڈمیپ” پیش کرتے تاکہ اقوامِ عالم تک یہ پیغام جاتا کہ کشمیر کے معاملے پر پوری قوم متفق ومتحد ہے لیکن وزیرِاعظم کو تو اپوزیشن کو بُرابھلا کہنے سے ہی فرصت نہیں۔ بات کوئی بھی ہو اور کسی موضوع پر بھی ہو وزیرِاعظم کی تان ”نہیں چھوڑوںگا” اور ”این آر او نہیں دوںگا” پر ہی ٹوٹتی ہے۔ آج کشمیر کی بیٹی کے سر سے ردا چھِن رہی ہے، عصمتیں لُٹ رہی ہیں، وادی خونم خون ہے، بچوں کا کوئی پُرسانِ حال نہیں، ماؤں کو یہ خبر نہیں کہ اُن کے لختِ جگر کس حال میں ہیں اور سہاگنوں کو یہ پتہ نہیں کہ اُن کے سہاگ سلامت ہیں یا اُجڑ چکے لیکن ہماری سیاسی جماعتیں مقبوضہ کشمیر کو بھول کر آزادکشمیر کو فتح کرنے نکلی ہیں۔ ہمارے حکمران کشمیر کو کیا آزاد کروائیں گے اُنہیں تو شہید بُرہان وانی کا یومِ شہادت تک منانے کی بھی توفیق نہیں ہوئی۔ سچ یہی کہ ہم تو ہاتھ پہ ہاتھ دَھرے منتظرِفردا ہیں اور اگر کوئی تھوڑی بہت ہلچل ہوتی بھی ہے تو اقوامِ عالم کی طرف سے۔
مذہبی آزادی کے موضوع پر اقوامِ متحدہ کی خصوصی رپورٹ میں اعتراف کیا گیا کہ بھارت میں اقلیتوں پر زمین تنگ کر دی گئی ہے، اُنہیں نہ صرف یہ کہ مذہبی آزادی نہیں بلکہ ہر قسم کا تشدد بھی روا رکھا جاتاہے۔ چین نے بھی کشمیر پر واضح مؤقف اختیار کرتے ہوئے بھارت کے 5 اگست کے اقدامات کو یکسر مسترد کر دیاہے۔ بھارت نے سلامتی کونسل کی قراردادوں کو جوتے کی نوک پر رکھتے ہوئے آرٹیکل 370 اور35-Aکا خاتمہ کرکے کشمیر کو اپنے اندر ضم کر لیااور اب وہ مقبوضہ کشمیر کو بھارت کا صوبہ قرار دینے کی تگ ودَو میں ہے۔ مقبوضہ کشمیرکی قیادت اور عوام کو کسی بھی صورت میں یہ قبول نہیں۔ وہ ستر سالوں سے اپنی آزادی کی جنگ لڑتے ہوئے لاکھوں قربانیاں دے چکے ہیں۔ برہان وانی کی شہادت کے بعد اب یہ تحریکِ آزادی نوجوانوں کے ہاتھ میں ہے۔ اُن کا نعرہ ”ابھی یا کبھی نہیں” ہے اور وہ ہر روز اپنوں کی قربانیاں دیتے ہوئے اپنے جذبۂ حریت کو مہمیز دیتے رہتے ہیں۔ ان شاء اللہ وہ دن ضرور آئے گا جب کشمیر آزاد ہوگا اور بھارت اپنی تمامتر خباثتوں سمیت مُنہ کے بَل گرے گا۔