تحریر: ڈاکٹر رئیس صمدانی آزاد جمو و کشمیر قانون ساز اسمبلی کے انتخابات 2016 کا نتیجہ سب کے سامنے کھلی کتاب کی مانند ہے۔ کس نے کیا کھویا کیا پایا یہ بھی عیاں ہوچکا ہے۔ بڑے بڑے برج الٹ گئے، بلند بانگ دعوے کرنے والے اور اپنی جیت کی پیشگی اطلاع دینے والوں کے چہرے لٹک گئے، کھسیانی بلی کھمبا نوچے والی مثال ہے، دھاندلی اور میں نہ مانوں والی رٹ ، بعض سیاسی پنڈتوں نے اپنی ہار کو بادلِ نخواستہ تسلیم کر کے فراغ دلی کا ثبوت بھی دیا۔ آزاد کشمیر کے انتخابات کا میلہ 22جون 2016کو سجا۔ پاکستان کی اور آزاد کشمیر کی بڑی اور روایتی سیاسی جماعتیں میدان میں ایک دوسرے کو پچھاڑنے کے دعوے کرتی نظر آئیں۔ لیکن سب کے دعوے، سب کی بھڑکیں دھری کی دھری رہ گئیں اور میدان پاکستان کی حکمراں جماعت پاکستان مسلم لیگ (نون) نے مارلیا۔ اس جیت کو عرف عام میں کلین سوئیپ کہا جاتا ہے۔ اسمبلی اراکین کی کل تعداد 42 ہے۔
ان سیٹوں پر پاکستان مسلم لیگ (نواز) کو 31سیٹوں پر کامیابی حاصل ہوئی، گویا نواز لیگ کو یہاں اپنی حکومت بنا نے کے لیے کوئی مشکل پیش نہیں آئے گی،وہ بہت ہی آسانی سے آزاد جموو کشمیر میں اپنے اقتدار کا آغاز کردے گی۔ نواز لیگ کے مقابلے میں پاکستان پیپلز پارٹی جو اس وقت آزاد کشمیر میں حکومت میںتھی ان انتخابات میں بری طرح شکست سے دوچار ہوئی۔ بلکہ اسے زلت آمیز شکست کا سامنا کر نا پڑا ،صرف 3سیٹیں اس کا مقدر بنیں۔ سابقہ انتخابات کے وقت پاکستان پیپلز پارٹی پاکستان میں اقتدار میں تھی ، جب آزاد کشمیر میں انتخابات ہوئے تو اسے واضح اکثریت حاصل ہوئی اور اس نے حکومت بنائی۔ شکست کی وجوہات اپنی جگہ ، درست یا غلط لیکن یہ امر مسلمہ ہے کہ آزاد کشمیر کے عوام انتخابات میں اس جماعت کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں جو پاکستان میں حکومت میں ہوتی ہے۔ تاریخ یہی بتارہی ہے۔
وجوہات کا جائزہ لیں تو یہی بات سامنے آتی ہیں کہ برسر اقتدار جماعت کشمیر میں زیادہ بہتر انداز سے کام کرتی ہے، زیادہ فنڈاور ترقیاتی کاموں پر رقم خرچ کرتی ہے۔ وسائل اور اختیارات کے باعث برسر اقتدار جماعت کا کئی اعتبار سے پلڑا بھاری ہوتا ہے۔ وسائل کے ساتھ ساتھ مختلف ادارے بھی برسر اقتدار جماعت کے زیر نگرانی ہوتے ہیں جس کے باعث وہ عوام پر اثر انداز ہوتی ہے۔ یہی صورت حال موجودہ انتخابات میں بھی ہوئی۔ پاکستان پیپلز پارٹی گو کشمیر میں حکومت میں تھی لیکن اس کے وزیر اعظم اور وزراء اقتدار کے گھمنڈ میں رہے۔ انہیں بلاول بھٹو زرداری زیادہ پر کشش اور عوام پر اثر انداز ہونے والا لیڈر محسوس ہوا۔ ان کا خیال تھا کہ بلاول ، نیا خون ہے، جوش ہے، ولولہ ہے، اپنے نانا اور اپنی ماہ کی طرح دبنگ اور دلیر ہے۔ وہ آزاد کشمیر کے عوام پر آسانی سے اثر انداز ہوگا ۔ اس نشے میں رہے اور عوام بہتری کے کاموں کو پس پشت ڈال دیا۔ دوسری جانب نواز شریف اور ان کے ساتھی آجکل پاناما لیکس کے ساتھ ساتھ اپنی بیماریٔ دل کے باعث فیلڈ سے باہرتھے ۔ مخالفین یہ سمجھ بیٹھے کہ میدان آسانی سے مارلیا جائے گا۔
Nawaz Sharif
لیکن ایسا نہیں ہوا، نواز شریف کی خاموشی نے ضرور رنگ دکھا یا لیکن اس فتح میں ان کی کشمیر کے معاملے میں واضح موقف یا کشمیریوں سے محبت اور وابستگی کا کوئی عمل دخل نہیں۔ اس حوالے سے نوز لیگ کی پالیسی انتہائی ناقص اورکمزر رہی ہے۔ دراصل پاکستان پیپلز پارٹی نے جو سندھ کے علاوہ آزاد جمو و کشمیر میں بر سر اقتدار میں ہے عوام کی فلاح و بہبود کے لیے خاطر خواہ کام نہیں کیے، سندھ میں حکومت کی جو کارکردگی ہے،اس کے اثرات بھی اہل کشمیر نے قبول کیے، کراچی جیسے شہر میں کشمیریوں کی ایک بہت بڑی تعداد آباد ہے وہ کھلی آنکھوں سندھ میں حکومت کی کارکردگی کو محسوس کررہے تھے ۔ یہاں مقیم کشمیریوں کے بچے ہی تو کشمیر میں رہتے ہیں۔ بڑے سائیں کی جو کارگزاری سندھ میں ہے اس کے اثرات کا ثمر ہے جو پاکستان پیپلز پارٹی کو کشمیر کے انتخابات میں اہل کشمیرنے دیا۔ان کے صرف دو امیدوار چودھری عبدالمجید اور چودھری محمد یٰسین کامیاب ہوسکے۔پیپلز پارٹی کے لیے یہ لمحۂ فکریہ ہے۔ اگر اب بھی ہوش کے ناخن نہ لیے تو پھر 2018بہت دور نہیں، اس انجام سے بچنا ہے تو درست سمت میں قدم بڑھا نا ہوگا۔ بصورت دیگر شکست اور پھر شکست مقدر ہوگی۔
عمران خان کی جماعت تحریک انصاف بھی میدان میں تھی۔ کپتان حسب عادت، اور حسب روایت پرجوش تقریریں کرتے رہے، نواز شریف کو جو بائی پاس آپریشن کے نتیجے میں پہلے لندن پھر اپنے گھر لاہور میں آرام فرما تھے۔ خاموشی سے کپتان کی بھڑکیں سنتے رہے۔ کپتان زیادہ تر دھاندلی اور پاناما لیکس کے حوالے سے تحریک چلانے، نون لیگ کی اینٹ سے اینٹ بجانے کی باتیں کرتے رہے۔ دھرنا ان کی تحریک کا مہوررہا، اس کے ساتھ ساتھ وہ اپنی تیسری شادی کی باتیں بھی کرتے رہے،ایسے موقع پر یہ موضوع غیر سنجیدہ تھا۔کشمیر میں انتخابات کا ان کا یہ پہلا تجربہ تھا۔ امیدوار بھی نا تجربہ کار تھے، تحریک انصاف تنظیمی مسائل سے بھی دوچار ہے، سیکنڈ لائن لیڈر شپ میں باہمی چبقلش بھی پائی جاتی ہیں، تحریک چلائی جائے یا نہیں اس ایشو پر بھی لیڈروں میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ پھر یہ جماعت خیبر پختونخواہ میں برسر اقتدار بھی ہے، وہاں کی کارکردگی کے اثرات بھی کشمیری عوام پر پڑے، لوگوں نے یہ بھی دیکھا کہ اس جماعت کی ایک صوبے میں عوام کی بھلائی کی کیا صورت حال ہے۔ چنانچہ یہ جماعت بھی صرف 2سیٹیںلینے میں کامیاب ہوسکی۔
کشمیر کی ایک اہم شخصیت جو گزشتہ کشمیر اسمبلی کے 7 بار رکن رہ چکے تھے، اب جب کہ انہوں نے تحریک انصاف کے ٹکٹ پر الیکشن لڑا تو انہیں بھی شکست سے دوچار ہونا پڑا، جی ہاں بیرسٹر سلطان محمود بھی الیکشن ہار گئے۔ سیاسی حلقے بیرسٹر صاحب کی شکست کو بڑا سیٹ بیک قرار دے رہے ہیں۔ تحریک انصاف کو دو حلقوں کشمیر ویلی میں کامیابی حاصل ہوسکی، غلام محی الدین دیوان اور عبد الماجد خان فتح مند ہوئے۔ کپتان کی جانب سے ایک بات بہت اچھی اور قابل تعریف یہ ہوئی کہ نتائج کے آجانے کے بعد انہوں نے میڈیا پر نون لیگ کے سربراہ کو مبارک باد دی ، یہ ان کا بڑا پن رہا۔ اس کے برعکس پاکستان پیپلز پارٹی کے بلاول بھٹو زرداری نے نتائج کو مسترد کرتے ہوئے مسلم لیگ ن پر پری پول دھاندلی کے الزامات لگائے ۔ دیگر جماعتیں خاص طور پر کشمیر بیس سیاسی جماعتیں بھی ڈھیر ہوگئیں مسلم کانفرنس کے2 امیدوار سر دار عتیق احمد خان اور محمد صغیرنے کمیابی حاصل کیں۔جموو کشمیر پیپلز پارٹی کے سردار خالد ابرہیم خان کامیاب ہوسکے۔ ہارنے والوں کی جانب سے دھاندلی کا واویلا کرنا ہماری سیاست کا لازمی عنصر بن چکا ہے۔ ان انتخابات میں دھاندلی کے حوالے سے کوئی قابل ذکر بات سامنے نہیں آئی، دھاندلی کی باتیں مخالفت برائے مخالفت کے سوا کچھ نہیں۔
PMLN Sweeps AJK Elections
نتائج کے خوش گوار اثرات نواز شریف صاحب پر ہونا قدرتی عمل تھا۔ نتائج نے دل کے آپریشن اور اس کے اثرات کو دور بھگادیا انہوں نے اسی روز کشمیر کا ہنگامی دورہ کرڈالا۔ ان کی باڈی لینگوج بتارہی تھی کہ وہ آپریشن اور پاناما لیکس کے حوالے سے جس ڈپریشن کا شکار تھے کشمیر کی جیت نے اسے کوسوں دور کردیا ہے۔ وہ جیتے ہوئے پہلوان کی مانند اکھاڑے میںجیتنے والوں کو مبارک باد دینے کے ساتھ ساتھ مخالفین کو بھی للکار رہے تھے۔ ان کا کہناتھا کہ’ آزاد کشمیر کے پر امن انتخابات جمہوری قوتوں کی فتح ہے گویا یہ ہراس شخص کی فتح ہے جس نے جمہوری عمل میں حصہ لیا جوہارگئے انہیں اپنی غلطیوں اور خامیوں کا ٹھنڈے دل سے جائزہ لینا چاہیے جن کی وجہ سے عوام ان سے ناراض ہوئے ان کا کہنا تھا کہ’ کامیابی دھرنے نہیں کچھ کرنے سے ملتی ہے ، ہمارے خلاف کیا کچھ نہیں کہا گیا لیکن عوام نے مسترد کردیا، انہوں نے جتنی سیٹیں جیتیں ان کے احتجاج میں بھی اتنے ہی لوگ ہوں گے۔
دھرنے والوں کی کارکردگی سامنے آگئی، بڑے برج الٹ دئے گئے’۔ میاں نواز شریف صاحب کی باتوں میںوزن نظر آرہا ہے۔اینکر پرسن اور تجزیہ نگار سلیم صافی کے بقول ‘جو نتائج آئے اس کی وجہ عمران کی بچگانہ، بلاول کی زردارانہ اور نواز شریف کی شریفانہ سیاست ہے’۔بچگانہ اور زردارانہ تو درست لگتا ہے لیکن جہاں تک میاں صاحب کی شریفانہ سیاست کا تعلق ہے تو اس سے مکمل اتفاق نہیں کیا جاسکتا، سیاست اور شریفانہ ، یہ کیسے ممکن ہے،یہ دونوں تو آگ اور پانی کی طرح ہیں۔ ہمارے ملک میں سیاست میں شریفانہ طرز عمل کب اور کس لیڈر نے دکھا یا، یہاں تو اقتدار نام ہے اپنے مخالفین سے انتقام لینے کا، سیاست نام ہے مال بنانے کا، دولت جمع کرنے کا، جائیدادیں بنانے کا، آف شور کمپنیوں میں پیسہ لگانے کا،بیرون ملک بنکوں میں دولت محفوظ کرنے کا، اپنے ملک کی دولت بیرون ملک جمع کرنے کا، سرائے محل خریدنے کا، لندن اوردبئی میں قیمتی فلیٹس خریدنے کا۔بہت ممکن ہے کہ اس وقت جب کہ دل کے آپریشن کے نتیجے میں میاں صاحب جسمانی طور پر کمزور ہو گئے ہیں، پاناما لیکس نے انہیں ڈیپریس کردیا ہے ۔ کیا قوم میاں صاحب کی ماضی کی سیاست بھول سکتی ہے، مری اور دیگر مقامات پر اراکین کو یرغمال رکھنے، اراکین کی خرید و فروخت کون بھول سکتا ہے۔
اس وقت قدرت نے انہیں ایک ایسے موقع پر غیر معمولی خوشی سے نوازا ہے کہ جس وقت وہ پاکستان میں متعدد معاملات کے حوالے سے پریشان تھے ۔ آزاد کشیرکے انتخابات میں فتح ان کے حوصلے بلند کرنے اورمخالفین کے منہ بند کرنے میں معاون ثابت ہوگی۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کشمیر میں حاصل ہونے والی فتح اہل کشمیر کے لیے کس قدر مثبت ثابت ہوتی ہے اور نون لیگ اس فتح سے اپنی بگڑی ساکھ کو کس حد تک سنبھالا دینے میں کامیاب ہوپاتی ہے۔(24جولائی2016)۔