آزاد کشمیر کے انتخابات میں کیا کھویا کیا پایا۔۔۔۔؟

Election

Election

تحریر : سید توقیر زیدی
آزاد جموں و کشمیر کی قانون ساز اسمبلی کے عام انتخابات مکمل ہو گئے اور ان کے نتائج بھی سامنے آ گئے ہیں۔ وزیر اعظم آزاد کشمیر چودھری عبدالمجید اور مسلم کانفرنس کے سربراہ سردار عتیق کامیاب ہو گئے ہیں جبکہ پی ٹی آئی آزاد کشمیر کے صدر اور سابق وزیر اعظم آزاد کشمیر بیرسٹر سلطان محمود شکست کھا گئے۔ پیپلز پارٹی کی سابق کابینہ کے 13 وزرا اور سپیکر بھی کامیاب نہ ہو سکے۔ غیر سرکاری و غیر حتمی نتائج کے مطابق مسلم لیگ ن 32 نشستوں کے ساتھ سرفہرست ہے۔ مسلم کانفرنس 3 نشستوں کے ساتھ دوسرے، تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی دو، دو نشستوں کے ساتھ تیسرے نمبر پر رہیں۔ جموں و کشمیر پیپلز پارٹی ایک سیٹ حاصل کر سکی جبکہ ایک سیٹ آزاد امیدوار لے اڑا۔ آزاد جموں و کشمیر قانون ساز اسمبلی کے عام انتخابات میں مسلم لیگ ن کی کامیابی خلاف توقع نہیں، کیونکہ روایت یہی رہی ہے کہ جو پارٹی پاکستان میں برسر اقتدار ہوتی ہے۔

عام طور پر وہی آزاد کشمیر میں بھی حکومت بناتی ہے۔ ماضی قریب سے اس کی مثال یہ ہے کہ گزشتہ انتخابات اس وقت ہوئے جب پاکستان میں پیپلز پارٹی کی حکومت تھی؛ چنانچہ آزاد کشمیر کے انتخابات میں بھی پیپلز پارٹی ہی ابھر کر سامنے آئی اور جمعرات کے روز ہونے والے انتخابات سے پہلے تک اسی کی حکومت قائم تھی۔ اس سے پہلے پرویز مشرف کے دور میں آزاد کشمیر میں مسلم لیگ ق کو بھی سیٹیں ملی تھیں۔ دو روز پہلے ہونے والے الیکشن میں مسلم لیگ ق تو غائب ہے لیکن مسلم لیگ ن کے ساتھ ساتھ پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کو بھی چند سیٹیں مل گئی ہیں۔

یہ بات خوش آئند ہے کہ سارا انتخابی عمل پْرامن طریقے سے مکمل ہوا اور کہیں بھی کوئی قابل ذکر واقعہ یا سانحہ رونما نہیں ہوا۔ حالیہ الیکشن میں ایک حیرت انگیز پیش رفت البتہ یہ سامنے آئی کہ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے انتخابات کے نتائج کو فوراً تسلیم کر لیا اور مسلم لیگ ن کو اکثریتی کامیابی حاصل کرنے پر مبارکباد بھی دی۔ اپنے بیان میں عمران خان نے کہا کہ آزاد کشمیر کے انتخابات میں عموماً وفاق میں حکمران جماعت ہی کامیاب ہوتی ہے، پھر بھی وہ مسلم لیگ ن کو کامیابی پر مبارکباد دیتے ہیں۔ اس کے برعکس چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو نے کشمیر الیکشن کے نتائج پر تحفظات کا اظہار کیا۔

Bilawal Bhutto

Bilawal Bhutto

ذرائع کے مطابق بلاول نے پیپلز پارٹی آزاد کشمیر کو الیکشن سے متعلق حقائق سامنے لانے کی ہدایت کر تے ہوئے کہا کہ ن لیگ کے انتخابی حربے سامنے لائے جائیں جبکہ انتخابی مہم کے نام پر پری پول رگنگ کی بھی مفصل رپورٹ بنائی جائے۔ بلاول ہاوس ذرائع نے مزید بتایا کہ چیئرمین پارٹی آزاد کشمیر انتخابات کے نتائج پر اپنا ردعمل ابتدائی رپورٹ ملنے کے بعد دیں گے۔ بتایا گیا ہے کہ پیپلز پارٹی نے آزاد کشمیر کے انتخابی نتائج مسترد کرتے ہوئے مسلم لیگ (ن) پر دھاندلی کا الزام عائد کر دیا ہے۔ دوسری جانب وزیر اعظم محمد نواز شریف نے قرار دیا ہے کہ آزاد کشمیر میں پْرامن انتخابات کا انعقاد جمہوری قوتوں کی فتح ہے۔

انہوں نے کہا: ”متحرک جمہوریت جمہوری عمل کا تسلسل ہوتی ہے، امید ہے کہ منتخب نمائندے آزادی کی جدوجہد کو مستحکم کریں گے”۔ انہوں نے کامیاب انتخابات کے انعقاد پر منتخب نمائندوں اور کشمیری عوام کو مبارکباد دی اور کہا کہ وہ عوامی فلاح و بہبود کے لیے کام کریں’ وفاقی حکومت آزاد کشمیر حکومت کی ہر ممکن مدد کرے گی۔

وزیر اعظم نے گزشتہ روز آزاد کشمیر کے دارالحکومت مظفر آباد کا دورہ بھی کیا۔ جہاں تک پیپلز پارٹی کی ناکامی کا تعلق ہے تو اس کی بنیادی وجہ اس کی کارکردگی ہے۔ جس طرح 2013ء کے عام انتخابات میں پاکستان کے عوام نے پیپلز پارٹی کو مسترد کر دیا تھا، اسی طرح کی رائے کا اظہار آزاد کشمیر کے عوام نے بھی کیا ہے۔ جب آپ الیکشن کے موقع پر عوام سے وعدے کریں کہ ان کے مسائل حل کیے جائیں گے اور یہ کہ ان کی مالی حالت بہتر بنانے کے لیے ٹھوس اقدامات عمل میں لائے جائیں گے’ اور اقتدار کے پورے عرصہ میں یہ بھول ہی جائیں کہ عوام نام کی بھی کوئی مخلوق ہوتی ہے تو پھر عوام کی جانب سے بھی اس طرح کے ردعمل کا اظہار کیا جاتا ہے۔

Jammu Kashmir Violence

Jammu Kashmir Violence

یہ بات البتہ افسوسناک ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں کشمیری عوام بھارتی بندوقوں کی گولیوں کا نشانہ بنتے رہے، بھارتی فوج کی پیلٹ گنوں کے چھرے لگنے سے بینائیاں کھوتے رہے، لیکن آزاد کشمیر میں ان کے بھائی اور رشتے دار اس معاملے کو اپنی انتخابی مہم کا حصہ نہ بنا سکے۔ آزاد کشمیر کے عوام کے ساتھ یہ وعدہ نہ کر سکے کہ وہ بھارت کے زیر قبضہ کشمیر کو آزاد کرانے کے لیے بھی اقدامات کریں گے اور مسئلہ کشمیر کو عالمی فورموں پر اجاگر کیا جائے گا۔ آزاد کشمیر کے الیکشن میں حصہ لینے والے امیدوار اگر مقبوضہ کشمیر کی صورت حال کو اپنی انتخابی مہم کا حصہ بناتے تو اس سے مسئلہ کشمیر کو عالمی سطح پر اجاگر کرنے میں یقینا مدد ملتی۔

اب ضرورت اس امر کی ہے کہ جو نئی حکومت آزاد کشمیر میں قائم ہونے جا رہی ہے، وہ اس کمی کو پورا کرنے کا عزم کرے۔ نہ صرف مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے کوششیں تیز کی جائیں بلکہ وہ آزاد کشمیر کے عوام کے مسائل حل کرنے پر بھی توجہ دے۔

اس طرح کی قانون سازی کرے کہ کشمیری عوام کو روزگار اور کاروبار کی وافر سہولتیں مل سکیں اور ان کے لیے تعلیم کے حصولی اور برابری کی بنیاد پر آگے بڑھنے کی راہ ہموار ہو سکے’ اس طرح جمہوریت کی گاڑی ٹریک پر اپنا سفر طے کرتی رہے اور عوام اس کے فائدوں سے مستفید ہوتے رہیں۔

Syed Tauqeer Zaidi

Syed Tauqeer Zaidi

تحریر : سید توقیر زیدی