آزاد کشمیر میں مسلم لیگ (ن) کی زبردست کامیابی

PML N

PML N

تحریر : سید توقیر زیدی
آزاد جموں و کشمیر کے عام انتخابات میں مسلم لیگ(ن) نے کلین سویپ کر دیا اور دو تہائی سے بھی زیادہ اکثریت حاصل کر لی، آزاد کشمیر قانون ساز اسمبلی کے41 کے ایوان میں مسلم لیگ(ن) نے32نشستیں حاصل کی ہیں، جبکہ دوسری پوزیشن حاصل کرنے والی جماعت سردار عبدالقیوم (مرحوم) کی مسلم کانفرنس بن گئی، جس نے تحریک انصاف کے ساتھ مل کر الیکشن لڑا تھا، جس کے حصے میں دو نشستیں آئی ہیں، دو نشستیں پیپلزپارٹی کو ملی ہیں، پیپلزپارٹی جموں کشمیر کو ایک اور آزاد امیدوار کو ایک نشست مل سکی، جیت کے بڑے بڑے دعوے کرنے والے عمران خان اور بلاول بھٹو زرداری دونوں کو بْری طرح شکست ہو گئی ہے اہم بات یہ ہے کہ آزاد کشمیر کے اندر تحریک انصاف کو ایک نشست بھی نہیں ملی، اسے ایک نشست کے پی کے اور دوسری لاہور سے ملی۔ کشمیر کے اندر پیپلزپارٹی کو صرف ایک نشست ملی۔

دوسری نشست کراچی سے ملی ہے۔ کراچی میں ایم کیو ایم نے الیکشن کا بائیکاٹ کیا ہوا تھا، ورنہ پیپلز پارٹی کے لئے کراچی کی نشست جیتنا بھی آسان نہ ہوتا، 25سال سے مسلسل انتخاب جیتنے والے بیرسٹر سلطان محمود بھی ہار گئے، مسلم لیگ سے باہر جو نمایاں سیاست دان کامیاب ہوئے ہیں ان میں آزاد کشمیر کے وزیراعظم چودھری عبدالمجید اور مسلم کانفرنس کے صدر سردار عتیق احمد خان شامل ہیں۔ پیپلزپارٹی کی حکومت میں قانون ساز اسمبلی کے سپیکر اور 13وزراء میں سے کوئی کامیاب نہیں ہو سکا۔ ہر الیکشن سے پہلے ہر وہ جماعت جو الیکشن لڑ رہی ہوتی ہے اپنی اپنی جیت کے بارے میں پْرامید ہوتی ہے، لیکن بعض اوقات سیاسی جماعتوں کی جانب سے غیر حقیقی دعوے بھی سننے اور دیکھنے کو ملتے ہیں۔ آزاد کشمیر کے الیکشن بھی اس اصول سے ماوراء نہ تھے۔

تین بڑی جماعتیں۔۔۔ مسلم لیگ(ن)، تحریک انصاف اور پیپلزپارٹی۔۔۔ اپنی اپنی کامیابی کے دعوے کر رہی تھیں، لیکن جس جماعت کے دعوے نتائج کے مطابق درست ثابت ہوئے وہ صرف مسلم لیگ(ن) ہے، باقی دونوں جماعتوں کا کوئی بھی دعویٰ درست نہیں نکلا، خصوصاً پیپلزپارٹی کی شکست تو اس لحاظ سے بھی عبرتناک ہے کہ یہ جماعت پانچ سال سے آزاد کشمیر میں حکمران تھی، ووٹروں نے جو فیصلہ کیا اس سے یہ نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ پیپلزپارٹی اپنے پانچ سالہ عہد میں عوام کے دِل نہیں جیت سکی اور اْن کے چھوٹے موٹے مطالبات بھی شاید پورے نہیں کئے گئے ورنہ پیپلزپارٹی کے وزیروں اور امیدواروں کو اِس بْری طرح شکست نہ ہوتی۔

Election

Election

آزاد کشمیر میں چلائی جانے والی طویل انتخابی مہم کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ مسلم لیگ(ن) کے سوا کسی جماعت نے آزاد کشمیر کے عوام کے مسائل حل کرنے کی بات نہیں کی، بلاول بھٹو زرداری نے جتنے جلسوں سے خطاب کیا اْن کا رخ وزیراعظم نواز شریف کی جانب تھا اور وہ تسلسل کے ساتھ انہیں ”مودی کا یار” قرار دے رہے تھے اور اْن کی جماعت کو ایک دھکا اور دینے کی بات کی جا رہی تھی، اس کے علاوہ بھی نواز شریف ہی ہدفِ تنقید و ملامت تھے، پیپلزپارٹی کی شکست سے ثابت ہو گیا ہے کہ ووٹروں نے بلاول بھٹو کی ”مودی کے یار” والی گولی نہیں خریدی۔ اگر وہ اس کے خریدار ہوتے تو نواز شریف کی جماعت کو اتنی بھاری جیت سے سرفراز نہ کرتے، پیپلز پارٹی اب اپوزیشن کی جماعت بھی نہیں بن سکتی، اپوزیشن کا کردار سردار عتیق احمد خان کے حصے میں آئے گا، جن کی جماعت تین نشستیں جیت گئی ہے اور تحریک انصاف کے ساتھ مل کر اْن کی پانچ نشستیں ہو جائیں گی۔

مسلم لیگ(ن) کے جو رہنما انتخابی مہم چلا رہے تھے انہوں نے اگرچہ کہیں کہیں مخالف رہنماؤں کو بھی ہدف تنقید بنایا، لیکن انہوں نے زیادہ زور اِس بات پر رکھا کہ مسلم لیگ(ن) ہی کشمیریوں کی حقیقی خیر خواہ ہے اور کشمیری عوام کے لئے نواز شریف کا دل دھڑکتا ہے پھر انہوں نے آزاد کشمیر کے عوام کی فلاح و بہبود کے منصوبے بھی پیش کئے اور اپنا انتخابی منشور عوام کے سامنے رکھا، اصل ضرورت بھی اِس امر کی ہوتی ہے کہ آپ عوام تک اپنا کیا پیغام پہنچاتے ہیں اور کس انداز میں پہنچاتے ہیں۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ مسلم لیگ(ن) نے اپنا جو پیغام عوام تک پہنچانا چاہا وہ انہوں نے وصول کر لیا اور جواب میں ووٹ دے دیئے، جبکہ پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف جو پیغام پہنچانا چاہتی تھیں وہ عوام کے اوپر سے گزر گیا اور انہوں نے اسے خالی خولی جوش سے تعبیر کیا، بلاول بھٹو زرداری آزاد کشمیر کے ووٹروں کے سامنے اپنی یہ دلیل ثابت نہیں کر سکے کہ وزیراعظم نواز شریف ”مودی کا یار” ہے۔

اگر ایسا ہوتا تو اْن کے نعرے کو کہیں تو پذیرائی ملتی۔ نواز شریف کے دوسرے دورِ حکومت میں اس وقت کے بھارتی وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی بس میں بیٹھ کر لاہور آئے تھے تو اسے نواز شریف کی ڈپلومیسی کی جیت کہا جا سکتا ہے نہ یہ کہ کوئی دل جلا اسے ”واجپائی کے یار” کی جلی کٹی سناتا، اسی طرح اگر اب کی بار نریندر مودی افغانستان سے اپنے وطن جاتے ہوئے لاہور میں ٹھہر گئے تھے، اور نواز شریف کی سالگرہ کی تقریبات میں شرکت کر لی تھی ،تو اسے پاکستان کی کامیاب ڈپلومیسی سے تعبیر کیا جانا چاہئے تھا اس روز بانء پاکستان قائداعظم محمد علی جناح? کی سالگرہ بھی تھی اور قائداعظم کی سالگرہ والے دن بھارتی وزیراعظم کا لاہور کی سرزمین پر موجود ہونا، خود قائداعظم کی بصیرت کا بالواسطہ اعتراف تھا، جنہوں نے برصغیر کے مسلمانوں کے لئے علیحدہ وطن حاصل کیا، لیکن بدقسمتی سے بلاول بھٹو نے اس کا تاریک پہلو دیکھا اور اس کے ”بدلے” میں آزاد کشمیر کا الیکشن جیتنے کی کوشش کی، جو ناکام ہو گئی۔

Imran Khan

Imran Khan

عمران خان پہلی مرتبہ آزاد کشمیر کا الیکشن لڑ رہے تھے انہوں نے آزاد کشمیر کی سیاست میں نمایاں حیثیت اور مقام ر کھنے والی مسلم کانفرنس کے ساتھ اتحاد بھی کیا تھا، لیکن دونوں جماعتیں مل کر بھی قابلِ ذکر کامیابی حاصل نہ کر سکیں اس کا مطلب یہ ہوا کہ عمران خان آزاد کشمیر کی سیاست کی حرکیات کا کما حقہ،ادراک نہیں رکھتے ورنہ کم از کم بیرسٹر سلطان محمود تو نہ ہارتے جو آزاد کشمیر کے وزیراعظم رہ چکے اور میر پور میں اپنا خصوصی احترام اور حلقہ رکھتے ہیں۔ عمران خان نے آزاد کشمیر میں جتنے انتخابی جلسے کئے اْن میں بھی اپنی تقریروں کا موضوع نواز شریف کی مبینہ کرپشن اور پانامہ لیکس کو رکھا، حالانکہ آزاد کشمیر میں سیاسی مسائل مختلف ہیں، جن کا ذکر تک انہوں نے پوری انتخابی مہم میں نہیں کیا۔کشمیر کے جلسوں میں اْن کے خطاب کے موضوعات وہی تھے، جو لاہور اور اسلام آباد میں تھے، حالانکہ وہ الیکشن پاکستان میں نہیں آزاد کشمیر میں لڑ رہے تھے حیرت ہے یہ بات انہیں کسی پارٹی لیڈر نے بھی نہیں سمجھائی یا پھر انہوں نے دانستہ سمجھنے کی کوشش نہیں کی۔ عمران خان کی جماعت کے حصے میں بھی آزاد کشمیر کے اندر سے صرف ایک نشست آئی، دوسری نشست انہوں نے لاہور سے جیتی، اس سے ثابت ہوا کہ آزاد کشمیر کے عوام نے اْن کی باتوں سے کوئی اثر نہیں لیا۔

دوسری بات غالباً یہ رہی کہ آزاد کشمیر کی سرحدیں خیبرپختونخوا سے ملتی ہیں جہاں تحریک انصاف کی حکومت ہے۔ کشمیری عوام آتے جاتے دیکھتے ہوں گے کہ جس صوبے میں عمران خان کی حکومت ہے وہاں دودھ اور شہد کی کوئی نہر نہیں بہہ رہی تو آزاد کشمیر میں ان کے پاس کون سی ”گیدڑ سنگھی” ہے جسے کام میں لا کر وہ کشمیریوں کی قسمت بدل دیں گے اور صحیح معنوں میں وہ کشمیر کو جنت نظیر بنا دیں گے۔موازنے کے لئے کشمیریوں کے سامنے مسلم لیگ(ن) کی گلگت بلتستان، پنجاب میں شہباز شریف اور وفاق میں میاں نواز شریف کی حکومت تھی، جہاں اگر کوئی انقلاب نہیں آیا تو بھی تبدیلی کا کہیں نہ کہیں احساس ضرور ہو جاتا ہے۔

پنجاب کی حکومت طلبا کو جو وظائف دیتی ہے اس کا تھوڑا بہت حصہ آزاد کشمیر کے طلبا کو بھی مل جاتا ہے، جن طلبا کو بیرون مْلک دوروں پر بھیجا جاتا ہے اْن میں آزاد کشمیر کی نمائندگی بھی ہوتی ہے اسی طرح آزاد کشمیر کے لوگوں کے سامنے سندھ میں پیپلزپارٹی کی حکومت بھی تھی جس کے کاسمو پولیٹن شہر کراچی میں جگہ جگہ حتیٰ کہ گورنر ہاؤس کے قرب و جوار میں بھی کچرے کے ڈھیر لگے ہیں، آزاد کشمیر کے ووٹروں نے سوچا ہو گا کہ کراچی جیسا شہر جس حکومت کے دور میں گندا ہو گیا وہ کشمیریوں کے لئے کیا کارنامہ انجام دے پائے گی، مختصراً یہ کہ مسلم لیگ (ن) کا پیغام کشمیریوں کے دِلوں کے تار چھو گیا اور انہوں نے اسے کامیابی دِلا دی اور پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف کو اگلی باری تک انتظار کرنے کا پیغام دے دیا۔ اب آزاد کشمیر میں مسلم لیگ(ن) کا امتحان شروع ہو گا، جس میں اْسے سرخرو ہونا ہو گا۔

Syed Tauqeer Zaidi

Syed Tauqeer Zaidi

تحریر : سید توقیر زیدی