تحریر : ثمینہ راجہ، جموں و کشمیر اطلاعات کے مطابق حکومت اور شرکائے مارچ کے درمیان مظفرآباد سے پچیس کلومیٹر کے فاصلے پر مذاکرات کے دو دور منعقد ہوئے۔ جس کے بعد فریقین مطالبات کے حل کے لیئے لائحہ عمل پر متفق ہو گئے۔مذاکرات میں حکومت کی جانب سے وزیر اعظم راجہ فاروق حیدر خان کے نمائندے ممبر اسمبلی ڈاکٹر مصطفٰی بشیر، ڈپٹی کمشنر مظفرآباد اور ڈی ایس پی مظفرآباد جبکہ مظاہرین کی جانب سے اظہر کاشر، سردار شاھد شارف، سردار سلیم خان، ناصر سرور، نبیل مغل، امین راجہ اور سردار اعجاز خان مذاکرات میں شریک ہوئے اور طے شدہ امور کو تحریر کر کے فریقین نے دستخط بھی ثبت کیئے۔
طے شدہ امور درج ذیل ہیں :1۔ وزیر اعظم کی نمائندگی کرتے ہوئے سرکاری وفد نے جموں و کشمیر کے عوام سے بابائے قوم شہید مقبول بٹ کے خلاف نازیبا الفاظ استعمال کرنے پر باضابطہ معافی مانگی اور طے پایا کہ حکومت میڈیا کے ذریعے بھی باضابطہ معافی مانگے گی۔
2 ۔حکومت نے اپنے مشیر سردار کے بی خان کے موقف سے مکمل لاتعلقی کا اعلان کیا اور سردار کے بی خان کے بیان کو ان کا ذاتی فعل قرار دیا۔
3۔سردار کے بی خان نے بھی شہید مقبول بٹ کے بارے میں استعمال کیئے جانے والی اپنے الفاظ پر تحریری طور پر قوم سے معافی مانگی۔
4۔ حکومت نے اعلان کیا کہ آئیندہ ہر سال 11 فروری کو سرکاری سطح پر تعطیل منائی جائے گی اور شہید مقبول بٹ کی برسی کی تقریبات کے انعقاد کا سرکاری سطح پر اہتمام کیا جائے گا۔
5۔ حکومت نے یہ بھی اعلان کیا کہ آزادکشمیر کے اندر کسی بڑی سڑک، عمارت، چوک یا پُل کو شہید مقبول بٹ کے نام سے منسوب کیا جائے گا ۔حکومت اور مظاہرین کے درمیان یہ سارے معاملات تحریری طور پر ایک معاہدے کی شکل میں لکھے گئے ہیں اور حکومت کی طرف سے اس معاہدے پر فوری عملدرآمد کی یقین دھانی کرائی گئی ہے جس کے بعد لانگ مارچ کے شرکاء نے لانگ مارچ کو ختم کرنے کا اعلان کیا۔ یہ لانگ مارچ کئی حوالوں سے ریاست جموں و کشمیر کی سیاسی تاریخ میں ایک اہم سنگِ میل کی حیثیت سے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔
پاکستانی آزاد جموں و کشمیر میں اس قسم کے کسی احتجاج کی کوئی مثال نہیں ملتی ۔ اس سے قبل عوام کی جانب سے جتنی بھی سیاسی تحریکیں چلائی گئیں، جو بھی مظاہرے کیئے گئے اور مطالبات کو پیش کرنے کی جب بھی نوبت آئی تو ہمیشہ جلسے جلوسوں اور پرتشدد مظاہروں پر انحصار کیا گیا ۔ اکثر مظاہروں میں مظاہرین ریاستی املاک کو نذرِآتش کرنے کے علاوہ قانون نافذ کرنے والے اداروں سے بھی ٹکراتے رہے ۔ اور اس تشدد کے نتیجے میں نہ صرف یہ کہ بیش بہا سرکاری املاک کو نقصان پہنچتا رہا بلکہ بہت سے لوگ زخمی بھی ہوتے رہے، نظام زندگی تعطل کا شکار ہوتا رہا اور لوگ جانیں بھی قربان کرتے رہے ۔ سیاسی لوگ ہمیشہ یہ سمجھتے رہے کہ پرتشدد تحریک اور بہت بڑے بڑے جلسے جلوسوں کے بغیر حکومت سے مطالبات منوانے کا کوئی اور طریقہ نہیں ہے۔
مگر اس لانگ مارچ نے اس سیاسی فلسفے کو غلط ثابت کر دیا ۔ اور ثابت کیا کہ مطالبات منوانے کے لیئے ہزاروں کی تعداد میں مظاہرین کی ضرورت نہیں ہوتی، تحریک کو صرف تشدد اور توڑ پھوڑ کے ذریعے ہی کامیاب نہیں کروایا جاتا بلکہ ایسی پرامن سیاسی جدوجہد بھی کامیابی سے ہمکنار ہوتی ہے جس کے دوران پرامن طریقے سے عوام کے اندر آگاہی پیدا کی جائے اور اپنے مطالبات کے لیئے رائے عامہ ہموار کی جائے۔ ہجیرہ سے مظفرآباد تک اپنے مطالبات کو لے کر پیدل لانگ مارچ کرنے والے سیاسی رہنماؤں نے ثابت کر دیا ہے کہ مطالبات منوانے کے لیئے نہ تو ہزاروں کے مجمے کی ضرورت ہوتی ہے اور نہ توڑ پھوڑ اور افراتفری پیدا کرنے کی۔
لانگ مارچ نے ثابت کیا کہ اپنے مطالبات کو منوانے کا زیادہ مناسب طریقہ عوامی رائے کو اپنے حق میں تبدیل کرنا اور پرامن طریقے سے عوام کے اندر اپنے لیئے ہمدردی کے جذبات پیدا کرنا ہے۔ ماضی میں حکومتیں عوامی مطالبات کے حق میں اٹھنے والی آوازوں کو امن و امان اور تشدد کے خاتمے کا بہانہ بنا کر ریاستی طاقت کے استعمال کے ذریعے دبا دیتی رہی ہیں۔
مگر اس لانگ مارچ کے شرکاء نے انتہائی نظم و ضبط کے ساتھ نہایت پرامن انداز میں اپنی جدوجہد جاری رکھی ۔ ہجیرہ سے مظفرآباد کے طویل سفر کے دوران نہ تو سڑکیں بلاک کی گئیں اور نہ ہی کسی سرکاری یا نجی املاک و نقصان پہنچایا گیا ۔ لانگ مارچ کے شرکاء پرامن طریقے سے سڑک کے کنارے چلتے رہے اور راستے میں جہاں بھی کچھ لوگ ملتے انہیں اپنے مطالبات کے بارے میں آگاہ کرتے رہے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ اس لانگ مارچ کے ذریعے رائے عامہ مظاہرین کے مطالبات کے حق میں ہموار ہوتی چلی گئی اور طویل سفر کے باعث مسلسل مظاہرین کے مطالبات بھی عوام کی توجہ کا مرکز بنتے رہے۔ اگرچہ اس لانگ مارچ میں سیاسی جماعتوں نے باضابطہ طور پر شرکت نہیں کی اور سیاسی کارکنان کی ایک انتہائی قلیل تعداد نے لانگ مارچ میں حصہ لیا لیکن اس امر میں کوئی شک نہیں کہ اگر یہ لانگ مارچ مظفرآباد پہنچ جاتا تو تمام قوم پرست سیاسی جماعتیں اس تحریک میں عملاً شریک ہو جاتیں ۔ اس لیئے یہ بات بغیر کسی تردد کے کہی جا سکتی ہے کہ اگر حکومت مطالبات تسلیم نہ کرتی تو مظفرآباد میں حکومت کو ایک طویل اور بڑی سیاسی جدوجہد کا سامنا کرنا پڑتا اور عین ممکن ہے یہ جدوجہد موجودہ نظام کے فنا کا سبب بن جاتی۔ میں لانگ مارچ کے قائدین، شرکاء اور مختلف مقامات اور مختلف مرحلوں پر لانگ مارچ کے ساتھ تعاون کرنے والے لوگوں کو مبارکباد پیش کرتی ہوں۔
اس لانگ مارچ کے مطالبات کو تسلیم کر کے حکومت نے بھی ایک بہت اچھی روایت قائم کی ہے ۔ میں وزیرِاعظم راجہ فاروق حیدر خان کو خاص طور پر مبارک پیش کرنا چاہوں گی کہ انہوں نے ملک کے اندر پرامن سیاسی جدوجہد کے آئینی حق کو پروان چڑھایا ہے اور عوام کو اپنے مطالبات کے لیئے پرامن احتجاج کرنے کی ترغیب دی ہے۔ میں وثوق کے ساتھ کہہ سکتی ہوں کہ یہ لانگ مارچ آزادکشمیر کی سیاسی تاریخ میں ایک نہایت اہم سنگِ میل ثابت ہو گا۔