تحریر: ایم سرور صدیقی یہ کہاوت تو سب نے سنی ہوگی کہ سیاست بڑی بے رحم ہوتی ہے اس کے سینے میں دل نہیں ہوتا اس کا مشاہدہ تو کم و بیش اکثر لوگوں کو ہوتا رہتا ہے۔ جو آج پاور فل سیاستدان ہیں۔۔ان میں بیشتر بے پناہ اختیارات کا مرکزو محورہیں۔۔لیکن کل ان کا حال ایسا ہوتاہے
پھرتے ہیں میر خوار کوئی پو چھتا نہیں لگتا ہے آزاد کشمیر کے متوقع عام انتخابات بڑے معرکة الارا ہوں گے تحریک ِ انصاف ، پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن کے علاوہ ماضی کی حکمران پارٹی مسلم کانفرنس میدان میں ہیں حالات تو یہی بتاتے ہیں کسی جماعت کا کسی کے ساتھ اتخابی اتحاد نہیںہوگا چونکہ سیاست میں کوئی چیز حرف ِآخر نہیں اس لئے کچھ نہیں کہا جا سکتا سیاست کے بارے میں ایک اور بات بڑی مشہورہے کہ آج کے دوست کل کے دشمن ہوتے ہیںمتعددبار دیکھاگیاہے ایک دوسرے کے حلیف۔ جن کے درمیان بہت سی چیزیں،پارٹیاں اور قدریں مشترک ہوتی ہیں ان پر ایک وقت ایسا بھی آتاہے ایک دوسرے کے خلاف الیکشن لڑتے ہیں ، مد مقابل آکر۔۔۔ ایک دوسرے کے خلاف اتنی گھٹیا باتیں اور اس قدر گھنائونے الزام لگاتے ہیں کہ توبہ ہی بھلی اور یوں یہ تماشا ساری دنیا دیکھتی ہے۔۔۔تیسری بات بڑی اہم ہے کہ سیاست میں کوئی چیز حرف ِ آخر نہیں ہوتی ایک دوسرے کو غدار،سیکورٹی رسک اور نہ جانے کیا کیا قرار دینے والے بہن بھائی بھی بن سکتے ہیں کل تک جو لوگ جوتیوںمیں دال بانٹا کرتے تھے شِیروشکرہوجاتے ہیں۔
لوگ حیرت سے ان کو تکتے رہ جاتے ہیں پاکستان میں جب سے نظریاتی سیاست دم توڑنے لگی ہے اور مفاہمتی سیاست کاآغاز ہواہے بیشتر سیاستدانوں کاکام آسان ہوگیاہے ۔۔۔موجودہ سیاست میں ایک اور ستم ظریفی پروان چڑھ رہی ہے کچھ لوگوںنے ذاتی مفادات کیلئے نظریات، وفاداری اورجماعتوں سے ادھر ادھر جانا فیشن بنالیا تھا لیکن پھر بھی شرفاء ، اچھے کردار کے حامل سیاستدان اوراعلیٰ اقدارکے حامی اسے برا سمجھتے تھے کچھ اب بھی برا خیال کرتے ہیں شایدان کے خیال میں سیاست میں قربانی دینا پڑتی ہے یقینا سیاست میں قربانیاں اعلیٰ ظرف کے لوگ ہی دیتے ہیں کہ اچھے بروںمیں یہی امتیازکا ایک معیارہے ۔۔یہ ساری کی ساری باتیں اور کہاوتیں اس وقت شدت سے یاد آئیں جب لوگ مسلم کانفرنس کے صدر سردارعتیق کے تازہ ترین خیالات سے مستفید ہوئے جن میں انہوںنے فرمایاہے کہ مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی دونوںایک ہی سکے کے دورخ ہیں ”سردارعتیق ۔۔آزادکشمیرکے مجاہد ِ اول سردار عبدالقیوم کے فرزند ِ ارجمند ہیںکشمیرکے لئے ان کی خدمات،نظریات اورقربانیاں قابل ِ تحسین سمجھی جاتی ہیں اسی حوالے سے ان کا احترام بدترین مخالف بھی کرتے ہیں۔
Sardar Atiq
لیکن نہ جانے کچھ عرصہ سے سردارعتیق کو کیا ہو گیاہے وہ کبھی” صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں” کی تفسیر بن جاتے ہیں اور کبھی لگی لپٹی بغیر سیدھی سیدھی باتیں کرکے دل کا غبار نکالنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں جو ان جیسے سنجیدہ سیاستدان کی شخصیت سے تال میل نہیںر کھتا۔۔۔۔ان کی جماعت مسلم کانفرنس کی ایک تاریخ یہ بھی ہے کہ جب سے میاں نواز شریف سیاست میں آئے ہیں سردار عبدالقیوم کے ان سے گہرے روابط تھے ۔ اس اعتبارسے وہ ان کے ہم خیال اور فطری حلیف سمجھے جاتے تھے اس بات کا مسلم کانفرنس اور سردار عبدالقیوم کو بہت فائدہ ہوا کہ میاں نواز شریف نے اپنی حریف جماعت پیپلزپارٹی کے مقابلے میںان کو بہت پرموٹ کیا اور اس طرح آزادکشمیر میں مسلم کانفرنس کا طوطی بولنے لگا اسی وجہ سے سردار عبدالقیوم مسلم لیگی ہم خیال اور پیپلز پارٹی کے تمام مخالفین کے مرکزو محور بن گئے اور یوں متعدد بار سردار عبدالقیوم اوران کے فرزند ِ ارجمند سردارعتیق آزادکشمیرکے وزیر ِ اعظم بنے۔۔
میاں نواز شریف تو سردار عبدالقیوم کو سیاسی مرشد قرار دیتے رہے ان کے درمیان تعلقات میں ٹرننگ پوائنٹ اس وقت آیا جب میاں نواز شریف جلاوطنی کی زندگی گذاررہے تھے۔ کہا جاتاہے معاملات پر سردار عتیق کی گرفت مضبوط ہوگئی ان کا میاں نواز شریف سے اتنا قلبی تعلق نہیں تھا جتنا ان کے والد کا تھا پھر سردار عبدالقیوم خان کی رحلت کے بعد سیاسی منظرنامہ یکسر تبدیل ہوگیا ۔۔ مسلم کانفرنس کے رہنمائوںنے آزادکشمیرمیں اپنی حکومت بنانے کیلئے میاں نوازشریف کے سیاسی مخالفین کے ساتھ” مفاہمتی سیاست”کا آغازکیا جس سے جلاوطن رہنمائوں کو شاک لگا۔۔میاں نواز شریف نے اسی دن تہیہ کرلیا تھا سردار فیملی پرتکیہ کرنے کا کوئی فائدہ نہیں اب آزادکشمیرمیں مسلم لیگ ن انتخابی سیاست کریگی جب آزادکشمیرمیںمسلم لیگ ن نے عملی سیاست کاآغازکیا منظرنامہ یکسر تبدیل ہوگیااینٹی پیپلزپارٹی دھڑے ،سیاستدان اور گروپ تقسیم در تقسیم ہوگئے اور آزادکشمیرکی سیاست چی۔۔
چوں ۔۔چاں کا مربہ بن کررہ گئی اس کا رزلٹ یہ نکلامیاں نوازشریف اور سردار فیملی کے درمیان ”ٹٹ گئی تڑک کرکے”۔۔۔اب آزادکشمیرمیںمسلم لیگ ن ایک الگ قوت ہے اورمسلم کانفرنس الگ قوت۔۔۔ان سارے معاملات میں سب سے بڑا نقصان مسلم کانفرنس اور اس سے زیادہ سردار عتیق کا ہوااب آزادکشمیرمیںمسلم لیگ ن کا شمار ایک بڑی سیاسی پارٹی کے طورپر ہوتاہے جس کے صدر فاروق حیدر جوڑ توڑ کے ماہر سمجھے جاتے ہیں جو اینی کامیاب حکمت ِ عملی کے تحت خودکو وزیر ِ اعظم آزادکشمیربنانے کی حدتک کامیاب رہے وہ میاں نواز شریف کے انتہائی قریب بھی ہیںاور آزادکشمیرکے موجودہ سیاسی بحران میں ایک فریق بھی۔۔۔مسلم کانفرنس اس سیاسی صورت ِ حال میں سب سے زیادہ بے چین ہے اسے کچھ سجائی نہیں دے رہا شاید اسی بناء پرسردار عتیق نے وہ بات کہہ ڈالی جو نہیں کہنی چاہیے تھی ایک تو انہوںنے ملٹری ڈیمو کریسی کی اصطلاح ایجادکرڈالی جو لوگ جمہوریت پر ایمان رکھتے ہیں انہوںنے اسے پسندنہیں کیا اس کے ساتھ ہی وہ وقتاً فوقتاً اظہارِ خیال کرتے رہتے ہیںکہ مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی دونوںایک ہی سکے کے دورخ ہیں۔
PPP PML N
ان کی سیاست الگ الگ ،مفادات ایک ہیں ”اسکے دو مقاصد ہو سکتے ہیں پہلا یہ کہ مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی دونوں جماعتوں سے مایوس لوگ ایک بار پھر ان کے گرد اکھٹے ہو جائیں دوسرا یہ کہ انہیں پاکستان کی عسکری قوتوںکی حمایت حاصل ہو جائے۔۔۔لیکن وہ یہ بات بھول گئے کہ اب لوگ فوج کا جمہوریت پر شب خون مارناقطعی گوارانہیں کرتے ایک اہم یہ بات ہے کہ فوج ایک منظم ادارہ ہے ۔۔۔ کسی سیاستدان کی اعلانیہ سرپرستی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ایسے بیانات سے انہیں تازہ آکسیجن نہیں مل سکتی آج سیاسی حالات اورقومی منظر نامہ یکسر تبدیل ہورہے ہیں گلے شکوے، شکائتیں، طعنے کمزورلوگوں کے ہتھیارہیں۔۔۔ سیاستدانوں کو ڈکٹیٹروں کی حمایت مہنگی بھی پڑ سکتی ہے،سستی شہرت،فوجی چھتری کی پناہ یا حمایت کی خواہش اب قوم کے دل کو یہ بات پسندنہیں آتی۔۔ کیا فرض کرلیا جائے ؟ایسا کرنے والے اپنے سیاسی مستقبل سے مایوس ہوگئے ہیں حالانکہ اپنے مخالفین کو فیس Faceکرنا،انہیں ٹف ٹائم دینا اور جھپٹنا ،پلٹنا۔پلٹ کر جھپٹناہی اصل سیاست ہے آج کے دورمیں جو سیاستدان ایسا نہیں کرتا OUT ہوجاتاہے مسلم کانفرنس کی کوشش ہے کہ مسلم لیگ ن سے اتحاد،الحاق یا انتخابی ایڈجسٹمنٹ ہوجائے مسلم لیگ ن کے رہنما اس امکان کو بارہا مرتبہ مسترد کرچکے ہیں کوئی شاٹ کٹ ڈھونڈنے کی بجائے اگر مسلم کانفرنس کو سیاسی بنیادوں پر دوبار ہ منظم اور متحرک کیا جائے تو اس کا فائدہ یقینی ہوگا۔
پیشگی ایک پیش گوئی یہ بھی ہے مسلم کانفرس سے اتحاد ایسا کچھ نہیں ہونے والا ۔۔۔مسلم لیگ ن آزاد کشمیرکی قیادت نے کسی کی اقتدارمیں حصہ نہ دینے کا اصولی فیصلہ کررکھاہے راجہ فاروق حیدر،سردارسکندرحیات خان اوربرجیس طاہر نے سوچ سمجھ کر ٹھیک ٹھیک فیصلے کئے ہیں ان کی معاونت کے لئے درجنوںمسلم لیگی رہنما بھی موجود ہیں آخران کی کریڈبیلٹی کا سوال ہے سوچنے کی بات یہ ہے کہ اگر مسلم کانفرنس کے ساتھ اتحاد ہی کرنا ہوتا تو آزاد کشمیرمیں مسلم لیگ ن بنانے کی کیا ضرورت تھی حالات بتاتے ہیں اس مرتبہ آزاد کشمیرکے عام انتخابات میں بڑے گھمسان کارن پڑے گا تحریک ِ انصاف کے بیرسٹر سلطان تحریک ِ انصاف کے پلیٹ فارم پراپنے حریفوں موجودہ برسرِ اقتدار پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن کو ٹف ٹائم دینے کیلئے حکمت ِ عملی ترتیب دے رہے ہیں ان حالات میں چوہدری عبدالمجید کیا کریں گے وہی بہتر جانتے ہیں لیکن یہ الیکشن کسی کیلئے بھی اتنے آسان نہیں ہوں گے نکتال میں دو کارکنوںکی ہلاکت کے بعد مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کو کشیدگی سے بچناہوگا دو حکمران جماعتوں میں ٹکڑائوں کے نتیجہ میں بیرسٹر سلطان اورسردار عتیق حالات سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں گے ان کو حالات سے فائدہ اٹھانا بھی چاہیے ورنہ برسوں پہلے داغ دہلوی نے جو کہا تھا سچ ثابت ہوگا
کچھ اور بھی تجھے اے داغ بات آتی ہے وہی بتوں کی شکایت،وہی گلہ دل کا
ایک خاص بات یہ ہے کہ آزاد کشمیرکے عام انتخابات ابھی دور ہیں لیکن سیاستدان ایک دوسرے کے خلاف اتنی گندی زبان استعمال کررہے ہیں کہ پڑھنے اورسننے والے شرم سے پانی یانی ہوتے جارہے ہیں ان میں کچھ وفاقی وزراء ساری حدیں پارکرچکے ہیں ایسے لوگ قانون ساز اسمبلی کے رکن منتخب ہونے ہیں توپھر توبہ ہی بھلی الیکشن اپنی جگہ پر لیکن ایسا طرز ِ عمل تو کوئی دشمنوںکیلئے بھی روا نہیں رکھنا پسندکرتا سیاسی مخالفین کی بجائے جنگ کا میدان غاصب بھارتی حکمرانوںکیلئے گرم کیا ہوتا تو آج شاید مقبوضہ کشمیر آزادہوچکا ہوتا آخر سیاسی مخالفین بھی آپ کے اہل ِ وطن ہیں کچھ اخلاق کے تقاضے ہوتے ہیں کوئی شر م ہوتی ہے کچھ حیا ہوتی ہے سیاستدان کو اخلاق باختہ بالکل نہیں ہونا چاہیے۔