اسلام آباد (جیوڈیسک) جے آئی ٹی نے اعظم سواتی کے خلاف اپنی جو رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کروائی ہے، اس میں امریکی ڈپارٹمنٹ کا ایک ایسا خط شامل ہے جس میں اعظم سواتی سے متعلق اہم سوالات کے جواب موجود ہیں۔
جے آئی ٹی نے امریکی ڈپارٹمنٹ آف ہوم لینڈ سیکیورٹی کو خط لکھا جس میں جے آئی ٹی نے امریکی ڈپارٹمنٹ سے اعظم سواتی کی امریکا میں رہائش کے دوران ان کے کردار سے متعلق سوالات پوچھے تھے۔
امریکی حکام سے پوچھے گئے سوالات میں سے تین بہت اہم تھے۔
پہلا سوال یہ تھا کہ کیا اعظم سواتی امریکا میں داخل نہیں ہو سکتے؟
دوسرا سوال یہ تھا کہ کیا اعظم سواتی یا ان کے خاندان کے خلاف امریکا میں کوئی کارروائی ہو رہی ہے؟
جے آئی ٹی کا تیسرا سوال یہ تھا کہ کیا اعظم سواتی کو امریکی حکومت نے ویزا دینے سے انکار کیا ہوا ہے؟
پروگرام کی تحقیقات کے مطابق جے آئی ٹی کے خط کے جواب میں امریکی ڈپارٹمنٹ آف ہوم لینڈ سیکیورٹی نے جے آئی ٹی کو جوابی خط لکھا، جس میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ اعظم سواتی نے 12 نومبر 2000 کو ٹیکساس کے الکوحولک کمیشن میں خود کو ایک امریکی شہری کے طور پر ظاہر کیا، جس میں انہوں نے اپنا ووٹر رجسٹریشن کنفرمیشن کارڈ بھی منسلک کیا۔
ساتھ ہی، 2001 کے سٹی آف پورٹ آرتھر الیکشن میں اعظم سواتی نے ووٹ کر کے خود کو امریکی شہری کے طور پر پیش کیا۔
ہوم لینڈ سیکیورٹی کے خط کے مطابق اعظم سواتی نے ان دونوں واقعات میں غلط بیانی کی ہے کیونکہ 1996 کے بعد اعظم سواتی امریکی شہری نہیں رہے، وہ قانونی طور پر امریکا میں مستقل رہائشی کے طور پر اہل نہیں رہے، اس لیے ان کی درخواست مسترد کی گئی، اور اس کیس میں انہیں اپیل کا حق بھی نہیں دیا گیا۔
وفاقی وزیر سینیٹر اعظم سواتی کے خلاف تحقیقات کے تانے بانے اُن کے صاحبزادے کی جانب سے ان کے فارم ہاؤس کے قریب رہائش پذیر ایک غریب خاندان کے خلاف مقدمے کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال سے ملتے ہیں۔
وفاقی وزیر نے اس معاملے پر آئی جی اسلام آباد جان محمد کو کئی مرتبہ فون کرنے کا اعتراف کیا، یہ جھگڑا ابھی درمیان میں ہی تھا کہ آئی جی اسلام آباد جان محمد کو عہدے سے ہٹا دیا گیا جس پر چیف جسٹس پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار نے از خود نوٹس لیا تھا۔
اعظم سواتی کے مس کنڈکٹ کے معاملے پر سپریم کورٹ نے جے آئی ٹی تشکیل دی تھی جس نے وفاقی وزیر کے پڑوسیوں ساتھ تنازع میں بطور وزیر ان کے مس کنڈکٹ کا تعین کرنا تھا۔
عدالت نے جے آئی ٹی کو 14 دن میں رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیا تھا جبکہ اعظم سواتی اور ان کے بچوں کے اثاثے اور ٹیکس معاملات دیکھنے کی ہدایت بھی کی گئی تھی۔
جے آئی ٹی نے اعظم سواتی کے علاوہ وزیر مملکت داخلہ کو بھی شامل تفتیش کیا اور 17 نومبر کو ایک سربمہر عبوری رپورٹ عدالت عظمیٰ میں جمع کروائی۔
بعدازاں 19 نومبر کو حتمی رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کروائی گئی، جس میں اعظم سواتی اور ان کے ملازمین کو فارم ہاؤس پر جھگڑے کا ذمہ دار قرار دیا گیا۔
جے آئی ٹی رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ واقعے کے اگلے دن ہی وزیر مملکت برائے داخلہ اور ایس ایس پی آپریشنز اعظم سواتی کے گھر گئے، پولیس اعظم سواتی کے خاندان کے ساتھ مل گئی اور اس واقعے کی ایماندارانہ تفتیش نہیں کی جبکہ پولیس افسران نے جان بوجھ کر غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کیا۔
رپورٹ کے مطابق 30 اکتوبر کو فارم ہاؤس تنازع کے نتیجے میں گرفتار ہونے والے نیاز علی کی ضمانت ہوگئی اور اعظم سواتی کے بیٹے نے کہا کہ انہیں ضمانت پر کوئی اعتراض نہیں جس کے بعد معاملہ راضی نامے سے حل کر لیا گیا۔
رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ نیاز علی نے بتایا کہ اس کے گھر جرگہ آیا تھا، بطور پختون وہ جرگے کو انکار نہیں کرسکا اور ملزمان کو معاف کردیا۔
رپورٹ کے مطابق اعظم سواتی کی اہلیہ نیاز علی کے گھر اس کے بچوں کے لیے کپڑے لے کر آئیں، نیاز علی کے خاندان کو رقم کی پیش کش بھی کی گئی جو اس نے ٹھکرا دی اور یہ سب سپریم کورٹ کے از خود نوٹس کے بعد ہوا۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ نیاز علی خاندان کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھا گیا جب کہ بطور وفاقی وزیر سینیٹر اعظم سواتی سے خصوصی طور پر نرم رویہ اختیار کیا گیا۔
رپورٹ کے مطابق مقدمے کی تفتیش پولیس کے جونیئر افسران نے کی، پولیس افسران نے جے آئی ٹی کو بتایا یہ عام نوعیت کا کیس تھا اس لیے سنجیدہ نہیں لیا گیا۔
جےآئی ٹی کی 5 جِلدوں پر مشمل رپورٹ میں کہا گیا کہ سواتی خاندان کا مؤقف جھوٹ پر مبنی،بے بنیاد اور تضادات سے بھرپور ہے۔