تحریر:ایم اے تبسم۔ لاہور حضرت بابا فرید الدین مسعود گنج شکر برہان الشریعت کا نسب پدری امیرالمومنین حضرت عمر بن خطاب سے ملتا ہے۔ آپ کابْل کے بادشاہ فرخ شاہ کے خاندان سے تھے۔آپ کے دادا حضرت قاضی شعیب فاروقی تین لڑکوں کے ساتھ لاہور تشریف لائے، پھر وہاں سے قصورآئے۔ ان کو کہتوال کا قاضی مقرر کیا گیا،لہٰذا وہ وہیں رہنے لگے۔آپ کے والد کا نام شیخ جمال الدین سلیمان ہے۔آپ کی والدہ ماجدہ بی بی قرسم خاتون مولانا وجیہ الدین خجندی کی صاحبزادی تھیں۔آپ کی ولادت 575 ہجری میں اور بعض مورخین نے 569 میں لکھا ہے۔آپ کا اصلی نام مسعود ہے، البتہ حضرت فرید الدین عطار نے آپ کو فرید الدین کا نام دیا،لیکن آپ گنج شکر سے مشہور ہوئے۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ دہلی میں مقیم تھے۔ ایک دن خوب بارش ہوئی۔ کیچڑ کی وجہ سے چلنا پھرنا دشوار ہوگیا۔آپ کو اپنے پیرو مرشد حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی کی قدم بوسی کا شوق ہوا۔ کھڑائوں پہنے روانہ ہوگئے۔آپ نے سات روز سے کچھ نہیں کھایا تھا۔اچانک آپ کا پائوں پھسل گیا۔آپ کے منہ میں تھوڑی کیچڑ جا پڑی۔ وہ کیچڑ خدا کے حکم سے شکر ہوگئی۔ جب آپ اپنے پیرو مرشد کی خدمت میں پہنچے تو انہوں نے فرمایا ” اے فرید! جب تھوڑی کیچڑ تیرے منہ میں پہنچی اور وہ شکر ہوگئی، اللہتعالیٰ نے تیرے وجود کو شکر بنایا، اللہ تعالیٰ تجھ کو ہمیشہ میٹھا رکھے گا”۔ اس کے بعدآپ جہاں بھی جاتے لوگ کہتے کہ شیخ فرید الدین مسعود گنج شکرآتے ہیں۔ آپ کی ابتدائی تعلیم گھر پر ہوئی۔ بارہ سال کی عمر میںآپ نے قرآن شریف حفظ کیا۔
جب آپ کی عمر پندرہ سال کی ہوئی تو ملتان تشریف لائے اور مولانا منہاج الدین ترمذی سے فقہ کی مشہور کتاب ” نافع” پڑھی اور علوم دینیہ حاصل کیے پھرآپ قندھار تشریف لے گئے۔ وہاں پانچ سال قیام فرمایا اور اس دوران تفسیر، حدیث، فقہ ، صرف و نحو، منطق وغیرہ میں اعلیٰ قابلیت حاصل کی۔ 590 میں حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی کی بیعت سے مشرف ہوئے۔ اس وقت آپ کی عمر پندرہ سال کی تھی۔595 ہجری میں دہلی آئے اور غزنی کے دروازے کے قریب ایک حجرہ میں رہنے لگے۔ اس کے کچھ عرصہ بعدآپ کے پیرو مرشد حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی نے اپنا خاص مصلیٰ اور عصا آپ کو عنایت فرمایا۔
Stay
اس کے بعدآپ کو پیرو مرشد کا خرقہ دیا گیا جس کوآپ نے پہنا، دوگانہ ادا کیا اور اپنے پیرو مرشد کے مکان میں قیام کیا۔ پھرآپ دہلی سے ہانسی روانہ ہوگئے اور ہانسی پہنچ کر عبادت و ریاضت میں مشغول ہوئے۔ آپ نے عراق ، شام ، سیوستان، غزنی ، بخارا ، قندھار وغیرہ کی سیر و سیاحت فرمائی اور وہاں کے بزرگان دین کی صحبتوں سے مستفید ہوئے۔ہانسی سے سکونت ترک کرکے آپ اجودھن میں، جو آج کل پاک پٹن کے نام سے مشہور ہے، رونق افروز ہوئے۔ جس زمانے میںآپ دہلی میں ریاضت و مجاہدہ میں مشغول تھے،حضرت خواجہ معین الدین چشتی دہلی تشریف لائے اور حضرت قطب صاحب کی خانقاہ میں قیام فرمایا۔
حضرت خواجہ غریب نواز نے حضرت خواجہ قطب صاحب کے سب مریدوں کونعمت سے مالا مال کیا۔جب سب نعمت پا چکے تو غریب نواز نے حضرت قطب صاحب سے دریافت فرمایا ” تمہارے مریدوں میں سے کیا کوئی نعمت پانے سے رہ گیا ہے، حضرت قطب صاحب نے عرض کیا ” جی ہاں مسعود (بابا فرید الدین گنج شکر) رہ گیا ہے۔ وہ چلہ میں بیٹھا ہے”۔حضرت خواجہ غریب نواز اورحضرت قطب صاحب آپ کے حجرہ میں تشریف لے گئے۔ حضرت غریب نواز نے آسمان کی طرف منہ کرکے آپ کے واسطے دعا فرمائی اور بارگاہ ایزدی میں عرض کیا ”یااللہ ! ہمارے فرید کو قبول فرما اور اکمل درویش کے مرتبہ پر پہنچا۔
حضرت خواجہ غریب نواز نے آپ کے متعلق پیشین گوئی فرمائی اور قطب صاحب سے آپ کے متعلق فرمایا ”قطب! بڑے شہباز کو دام میں لائے، اس کا آشیانہ سدرة المنتہیٰ ہوگا”۔ حضرت خواجہ غریب نواز نے آپ کو خلعت عطا فرما یا۔ حضرت قطب صاحب نے آپ کو دستار اور خلافت کے دیگر لوازمات عطا فرمائے۔سلطان ناصر الدین جب ملتان گیا توآپ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ واپسی پر اس نے چار گائوں کا فرمان اور کچھ نقدی آپ کی خدمت میں بھیجی۔آپ نے گائوں قبول کرنے سے انکار کردیا اور نقدی وصول کرکے درویشوں پر خرچ کی۔الفخان کو جو بعد میں سلطان غیاث الدین بلبن کے لقب سے مشہور ہوا، آپ نے تاج و تخت کا مڑدہ سنایا، چنانچہ وہ بادشاہ ہوا۔ اس نے اپنی لڑکی بی بی نہریزہ کی شادی آپ سے کی۔آپ نے چار شادیاں کیں۔
Wedding
آپ کی پہلی شادی بی بی نہریزہ سے ہوئی۔ بی بی نہریزہ سلطان غیاث الدین بلبن کی صاحبزادی تھی۔ آپ کی دوسری شادی بی بی کلثوم سے ہوئی، جو شیخ نصر اللہ کی والدہ ہیں۔تیسری شادی بی بی شارو سے ہوئی اور چوتھی بی بی سکر سے۔آپ کے پانچ لڑکے اور تین لڑکیاں تھیں۔آپ کی وفات 5 محرم الحرام 670 ہجری اور بعض روایت کے مطابق 624 ہجری ہے۔آپ کا مزار پاک پٹن میں ہے۔آپ ریاضت و عبادت، مجاہدہ فقر اور ترک و تجرید میں بے نظیر تھے۔شہرت پسند نہ فرماتے تھے۔آپ کو سماع کا بہت شوق تھا۔آپ اپنے پیرو مرشد کے نہایت فرماں بردار تھے۔آپ کے گھر میں فقر و فاقہ رہتا تھا۔ جب آپ کا وصال ہوا، گھر میں کفن کے لیے پیسہ نہ تھا۔ مکان کا دروازہ توڑ کر اس کی اینٹیں قبر میں لگائی گئیں۔آپ ہمیشہ روزہ رکھتے تھے۔ شربت کے ایک پیالے سے افطار کرتے تھے۔ تھوڑا خود پیتے تھے، باقی حاضرین کو تقسیم کردیتے تھے۔
دو روٹیوں میں سے ایک خود تناول فرماتے تھے اور دوسری روٹی کے ٹکڑے کرکے حاضرین کو تقسیم کر دیتے تھے۔آپ کی پوشاک شکستہ ہوتی تھی۔ آپ کے پاس ایک کمبل تھا جو اتنا چھوٹا تھا کہ جب پیروں پر ڈالتے تو سر کھل جاتا اور جب سر پر ڈالتے تو پیر کھل جاتے۔ توکل کا یہ حال تھا کہ جو کچھ آتا وہ خرچ کردیتے تھے۔آپ اکثر فرماتے تھے توبہ کی چھ قسمیں ہیں: اول دل اور زبان سے توبہ کرنا، دوسرے آنکھ کی، تیسرے کان کی، چوتھے ہاتھ کی پانچویں پائوں کی چھٹے نفس کی توبہ۔آپ فرماتے ” درویش جو اس دنیاکی نعمت و جاہ کا خواستگار ہواور اپنی ذات کو لطف کا اسیر کرنے کی کوشش کرے پس اس کی نسبت جاننا چاہیے کہ وہ درویش نہیںہے،درویشوں کا نام بد نام کرنے والا ہے کیونکہ فقراء کو دنیا سے اعراض ہے”۔
آپ فرمایا کرتے تھے چار چیزوں کا خیال رکھنا ضروری ہے:آنکھ کو ناقابل دید چیزوں کے دیکھنے سے روکے،کانوں کو ناقابل شنید باتوں کے سننے سے روکے، زبان کو گونگا نہ بنائے، ہاتھ پائوں کو ممنوعہ اعمال سے روکا جائے۔ایک موقع پرآپ نے فرمایا کہ چار چیزوں کے متعلق سات سو پیران طریقت سے پوچھا گیا ، سب نے ایک سا جواب دیا۔سوال تھا : ا?دمیوں میں سے سب سے زیادہ عقلمند کون ہے؟ جواب تھا: گناہوں کو ترک کرنا۔سوال ہوا:آدمیوں میں سب سے زیادہ ہوشیار کون ہے؟ جواب ملا : جو کسی چیز سے پریشان نہ ہو۔ پھر پوچھا گیا:آدمیوں میں سب سے زیادہ غنی کون ہے؟جواب تھا: قناعت کرنے والا۔ جب پوچھا گیا کہ : آدمیوں میں سب سے محتاج کون ہے؟ تو جواب ملا : قناعت کو ترک کرنے والا۔
M A Tabassum
تحریر:ایم اے تبسم۔ لاہور email: matabassum2000t@yahoo.com, 0300-4709102