سلسلہ بنوت ختم ہونے کے بعد خالق کائنات نے رشد و ہدایت کا سلسلہ بند نہیں کیا آقا کریم سرور کونین ۖ کے بعد صحابہ کرام پھر ہر دور میں اللہ تعالی کے بر گذیدہ نفوس قدسیہ نے یہ ڈیوٹی دی ‘ دنیا کے چپے چپے پر خدا کے پسندیدہ یہ بندگان خدا ہر دور میں جہالت گمراہی بت پرستی میں غرق انسانیت کو راہ ہدایت پر لا نے میں اپنی اپنی ڈیوٹیاں احسن طریقے سے سر انجام دیتے رہے ہیں ‘ دنیا جہاں سے علم اور روحانیت کے پیاسے اِن آستانوں پر آکر اپنی روح دل و دماغ کو علم کے نور سے منور کر تے رہے ہیں جوان بابا فرید بھی نگر نگر پھرتے ہوئے چشت میں مشہور بزرگ حضرت ابو یوسف چشتی کی روحانی درگاہ پر غلاموں کی طرح حاضر ہوتے ہیں ‘ شب و روز عبادت ریاضت مراقبہ جات سے صاحب مزار سے روحانی فیض حاصل کر تے ہیں ‘ حضرت ابو یوسف چشتی کے مزار پر انوار پر دن رات دنیا جہاں سے آئے ہو ئے بزرگوں کی محفلیں برپا رہتی تھیں ایسی ہی ایک روحانی محفل میں ایک دن جوان بابا فرید بھی شریک تھے۔
ایک بزرگ نے صاحب مجلس کے سامنے اپنا خواب رکھا اور اُس کی تعبیر بھی پوچھی خواب یہ تھا کہ رات کو خواب میں میری موت ہو چکی ہے جس کی وجہ سے میری روح دل و جان بہت اضطراب کا شکار ہیں بہت پریشانی میں میری آنکھ کھلتی ہے اب میں اُس وقت سے شدید پریشان ہوں کہ میرے اِس خواب کی تعبیر کیا ہے صاحب مجلس نے خواب سن کر اچھی طرح خواب کی تعبیر کی لیکن خواب سنانے والا مطمئن نہ ہو سکا تو جوان فرید ادب سے اٹھے اور بولے جناب آپ حضرات کی موجودگی میں میری اوقات نہیں لیکن اگر آپ لوگ اجازت دیں تو اِس خواب کے بارے میں کچھ عرض کروں تو سب بولے علم کسی کی ذاتی جاگیر نہیں ہے یہ تو خدا کا نور ہے جو کسی کے باطن کے اندھیرے دور کر کے اجالوں میں بدل سکتا ہے اگر تم اِس خواب کو سمجھ سکتے ہو تو تم بلکل بتائو تو جوان بابا فرید شیریں دھیمے لہجے میں بولے خواب میں جو موت دکھائی گئی ہے وہ حقیقی موت نہیں ہے بلکہ اِس کی وجہ میری کمزور رائے میں کچھ اور ہے میری رائے میں اِس موت کا مطلب یہ ہے کہ آپ کی فجر کی نماز قضاہو گئی ہے جس کی وجہ سے خواب میں آپ کو اپنی موت نظر آتی ہے۔
بابا فرید کی اِس شاندار بات پر مجلس پر سکوت طاری تھا اب سب کی نظریں اُس بزرگ کی طرف تھیں جس نے خواب دیکھا تھا جیسے ہی بابا فرید نے اپنی بات مکمل کی تو وہ بزرگ بو لے نوجوان تمہاری تعبیر بلکل درست ہے یہ سچ ہے کہ میں صبح نماز کے لیے نہ اُٹھ سکا تو مجھے خواب میں میری موت دکھا ئی دی موت کے خوف سے جب میں اٹھا تو واقعی نماز فجر قضا ہو چکی تھی اور سورج طلوع ہو چکاتھا جب بزرگ نے اپنی کمزوری کاعتراف کر لیا تو بابا فرید بو لے کسی مسلمان کے لیے نماز کا قضا ہو جانا موت کے برابر ہو تا ہے ‘ میری رائے میں یہی آپ کے خوا ب کی تعبیر بنتی ہے نوجوان فرید کی علمی وسعت پر حاضرین مجلس عقیدت و احترام کی نظروں سے بابا فرید کو دیکھ رہے تھے اور سوچ رہے تھے آنے والے وقتوں کا خورشید معرفت یہی ہو گا جس کی تابناک نورانی شعائوں سے لاکھوں لوگ روشن ہوں گے۔
یہاں پر روحانیت اور علم کے مو تی سمیٹنے کے بعد جوان فرید دمشق کی طرف روانہ ہو تے ہیں جو اُس دور میں اولیا اللہ اور اہل علم و دانش کا مرکز تھا یہاں پر آپ کا زیادہ وقت حضرت شہاب الدین زندوسی کی صحبت میں گزرتا تھا جن کی مجلس میں علم و معرفت کا آبشار ہر وقت ابلتا رہتا تھا اور جوان فرید اپنی روحانی علمی پیاس خوب بجھاتے تھے یہاں پر کئی دن راتیں گزارنے کے بعد اب شام کی طرف روانہ ہو تے ہیں یہاں پر بھی بہت سارے اولیاء کرام کی صحبتوں سے فیض اٹھا یا پھر بابا فرید کرہ ارضی کی مقدس جگہوں میں سے ایک جگہ بیت المقدس تشریف لاتے ہیں جہاں پر بے شمار انبیاء کرام اور اولیاء اللہ کا قیام رہا ہے معتبر تذکرہ نوسیوں کے مطابق عبادت ریاضت کے شاہسوار جوا ن فرید نے یہاں پر بھی چلہ کاٹا یہ جگہ آج بھی زائرین کے لیے خاص کشش رکھتی ہے اِس جگہ کو زاویہ فرید الدین ہندی کے نام سے یاد کیا جاتا ہے یہاں پر آج کل ایک عمارت تعمیر کر دی گئی ہے جو کئی کمروں پر مشتمل ہے سلسلہ چشتیہ اور باقی روحانی سالکین آج بھی اِس جگہ پر جاکر قیام کر نا بہت بڑی سعادت سمجھتے ہیں کیونکہ یہاں پر اولیاء کرام کی تاریخ کے بہت بڑے بزرگ نے عشق الٰہی کے لیے عبادت ریاضت مجاہدے کئے’ بابا فرید کی دنیا گردی سیاحت کا جب ہم مطالعہ کر تے ہیں تو کوچہ تصوف کے عظیم درویش صوفی حضرت شیخ فرید الدین عطار کے ساتھ ملاقات اور قیام کا بھی تذکرہ ملتا ہے جنہوں نے روحانی طالبین اور علمی پیاسوں کے لیے باقاعدہ ایک خانقاہ تعمیر کی ہو ئی تھی جہاں پر دنیا جہاں کے روحانی طالبین اپنی پیاس بجھاتے اور ریاضت کے لیے آتے اور قیام کر تے’ جوان فرید جب فرید الدین عطار کے پاس آئے تو آپ کی محبت عقیدت میں حضرت فرید الدین عطار پکار اٹھے دنیا داروں دیکھو میرا پیارا فرید ہندی آرہا ہے فرید الدین عطار کا شما ر بھی گلشن تصوف کے عظیم ترین صوفیا میں ہو تا ہے۔
فرید الدین عطار نے جوان فرید کو ہاتھوں ہاتھ لیا علم و معرفت کے مو تیوں سے بابا فرید کی جھولی کو بھر دیا یہاں پر بھی کئی دن قیام کے بعد بابا فرید آگے بڑھ جاتے ہیں اب بابا فرید کو وطن اورماں کی یاد ستا رہی تھی واپس جاتے ہوئے بغداد میں حضرت شیخ سیف الدین فردوسیہ کی صحبت سے خوب فیض یاب ہو ئے’ حضرت شیخ سیف الدین فردوسیہ کا دستر خوان بہت وسیع تھا انہوں نے بابا فرید کی خوب خدمت اور علمی پیاس بجھائی ساتھ میں سیاہ رنگ کا خرقہ بھی عطا کیا یہاں بابا فرید نے ایک بات خاص طور پر نوٹ کی کہ یہاں کا لنگر بہت وسیع تھا جہاں دن رات ہزاروں بھوکے اپنی بھوک پیاس کو آکر بجھاتے اب جوان فرید کو شدت سے اپنی ماں کی یاد ستا رہی تھی ماں سے ملنے کی تڑپ بہت زیادہ بڑھ گئی تھی ماں سے جدائی کو اب کئی سال گزر چکے تھے اب بار بار ماں کا چہرہ اور شفقت بھری ادائیں یاد آ رہی تھیں۔
بابا فرید کو ہزاروں چہروں میں صرف اپنی ماں کا روشن چہرہ ہی نظر نہیں آتا تھا اِس لئے اب ماں کے قدموں سے لپٹنے کے لیے بابافرید نے ماں کے پاس جانے کا فیصلہ کیا اور وطن واپسی شروع کر دی طویل مسافت کے بعد جب گھر تشریف لائے ماں کا مقدس شہرہ دیکھا تو بے قرار ہو کر دوڑ کر ماں کے قدموں سے لپٹ گئے شدت جذبات سے پائوں کو بار بار چومتے اور روتے جاتے’ ماں میں بہت اداس ہو گیا تھا مادر گرامی بھی بیٹے کے ہجر میں بے حال تھیں بیٹے کو بانہوں میں بھر کر لگا پیاسے کو سمند ر مل گیا ہے ماں بیٹا کتنی دیر شدت جذبات سے ایک دوسرے سے لپٹے رہے ماں بھی تو وہ عظیم ماں تھی جس نے اپنے خاوند کی جدائی کے بعد ماں باپ بن کر فرید کو پالا تعلیم دلا ئی حج کرا یا چند دن سکوں سے گزر گئے تو ایک دن بابافرید ماں سے بولے اماں جان مرشدکریم کے حکم پر میں دنیا جہاں کے بزرگوں اور اہل علم سے مل کر دنیاوی روحانی علم حاصل کر آیا ہوں لیکن ابھی تک تشنگی دور نہیں ہو ئی’ من کی اداسی اضطراب ویسے کا ویسا ہے یہ بے قراری اب مرشد کے قدموں حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی سے ملنے کے بعد ہی ختم ہو گی تو ماں کہتی جائو بیٹا اپنے مرشد کے پاس اور جاکر اپنے من کی پیاس اور اندھیرے دور کرو میری دعائیں تمہارے ساتھ ہیں۔
Prof Muhammad Abdullah Khan Bhatti
تحریر : پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی ای میل: help@noorekhuda.org فون: 03004352956 ویب سائٹ: www.noorekhuda.org فیس بک آفیشل پیج: www.fb.com/noorekhuda.org