بھارت میں بالآخر اس بات کا اعتراف کر لیا گیا ہے کہ بابری مسجد منظم منصوبہ کے تحت شہید کی گئی اور اس کی شہادت میں نہ صرف بی جے پی اور شیو سینا سمیت تمام ہندو پارٹیاں متحد تھیں بلکہ اس وقت کی بھارتی حکومت بھی اس سارے منصوبہ سے آگاہ تھی۔انڈیا میں سرکاری سرپرستی میں سینکڑوں مساجد شہید اور ہزاروں مسلمانوںکا خون بہایاجا چکا ہے’اسکے باوجود مسلمانوں کے خلاف دہشت گردی کا جھوٹا اور بے بنیاد پروپیگنڈہ کیاجاتا ہے۔ایک بھارتی ویب سائٹ نے اعتراف کیاہے کہ بابری مسجد طے شدہ منصوبے کے مطابق شہید کی گئی جس کا سابق وزیراعظم نرسمہا راو اور بی جے پی کے رہنما ایل کے ایڈوانی سمیت بی جے پی کی اعلیٰ قیادت کو علم تھا۔
مسجد پرحملہ ایک مہینے کی خفیہ تیاری کے بعد سنگ پریوار کی تنظیم کے تربیت یافتہ شدت پسندوں نے کیا، اگر ایک منصوبہ ناکام ہوجاتاتو پلان بی کے تحت شیوسینا کے کارکنان ڈائنامائیٹ سے مسجد کواْڑانے کیلئے تیار تھے۔ ‘کوبراپوسٹ’ کے خفیہ آپریشن کی رپورٹ کے مطابق بابری مسجد کی شہادت کے آپریشن کو ‘جنم بھومی’کا نام دیاگیا جس سے بی جے پی کی اعلیٰ قیادت بابری مسجد پر حملے کی سازش سے آگاہ تھی۔رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ منصوبہ سنگھ پریوار کے مختلف دھڑوں نے تیار کیا اور اس کے لیے ایک ماہ تک خفیہ طور پرتیاری کی گئی اور اس سلسلے میں ہندو انتہا پسندوں کو تربیت بھی دی گئی جس کے بعد 6دسمبر1992کو تربیت یافتہ شدت پسندوں نے16ویں صدی کی مسجد کو شہید کردیا اور پلان بی کے تحت شیوسینا کے کارکنان کی نوبت ہی نہیں آئی۔ویب سائٹ نے رام جنم بھومی موومنٹ سے متعلق 23 اہم شخصیات سے معلومات حاصل کر کے یہ رپورٹ تیار کی ہے۔یہ انکشاف کوئی نیا نہیں۔ماضی میں بھی ہندوستان کی سماج وادی پارٹی کے سربراہ ملائم سنگھ یادو نے بابری مسجد کی شہادت کے بارے میں سنسنی خیز بیان دیتے ہوئے کہا تھا کہ ہندوستان کے اس وقت کے صدر شنکر دیال شرما کو بابری مسجد گرائے جانے کی معلومات تھی۔
ہم اس وقت صدر جمہوریہ شنکر دیال شرما کے پاس ایک خط لے کر گئے اور ان کو بتایا کہ مسجد کو 6 دسمبر کو گرا دیا جائے گا اور یہ معلومات ان کو 4 دسمبر کو ہی دے دی گئی تھی۔ اتنا ہی نہیں ملائم سنگھ یادو نے خاموشی توڑتے ہوئے کہا کہ بہت سے لوگ چاہتے تھے کہ مسجد گرے اور ملائم سنگھ جائیں۔بابری مسجد مغل بادشاہ ظہیر الدین محمد بابر کے نام سے منسوب بھارتی ریاست اتر پردیش کی بڑی مساجد میں سے ایک تھی۔ یہ مسجد اسلامی مغل فن تعمیر کے اعتبار سے ایک شاہکار تھی۔ بابری مسجد کے اوپر تین گنبد تعمیر کیے گئے جن میں درمیانی گنبد بڑا اور اس کے ساتھ دو چھوٹے گنبد تھے۔ گنبد کے علاوہ مسجد کو پتھروں سے تعمیر کیا گیا تھا جس میں صحن بھی شامل تھا۔صحن میں ایک کنواں بھی کھودا گیا۔ گنبد چھوٹی اینٹوں سے بنا کر اس پر چونا کا پلستر کیا گیا تھا۔ مسجد کو ٹھنڈا رکھنے کی غرض سے اس کی چھت کو بلند بنایا گیا روشنی اور ہوا کے لئے جالی دار کھڑکیاں نصب تھیں۔ اندرونی تعمیر میں ایک انتہائی خاص بات یہ تھی کہ محراب میں کھڑے شخص کی سرگوشی کو مسجد کے کسی بھی اندرونی حصے میں آسانی سے سنا جا سکتا تھا۔ الغرض یہ اسلامی فن تعمیر کا شاھکار تھا۔ بابری مسجد کو1992میں انتہا پسند ہندوؤں کے ہاتھوں شہید کر دیا گیا۔ بھارتیہ جنتا پارٹی نے ایل کے اڈوانی کی قیادت میں سخت گیر تنظیموں وشو ہندو پریشد، بجرنگ دل اور شیو سینا کے ساتھ رام مندر کی تعمیر کے لیے ایک تحریک چلائی تھی۔تحریک کے دوران 6 دسمبر 1992 کو ہزاروں ہندو کارسیوکوں نے بی جے پی اور وشو ہندو پریشد کیا علیٰ رہنماؤں اور نیم فوجی دستوں کے سینکڑوں مسلح جوانوں کی موجودگی میں تاریخی مسجد کو منہدم کر دیا تھا۔جس کے بعد دہلی اور ممبئی سمیت ہندستان میں تقریباً دو ہزار مسلمانوں کو ہندو مسلم فسادات میں شہید کر دیا گیا تھا۔ بابری مسجد کی شہادت کے پس پشت امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کی ٹھکہ دار امریکی کمپنی تھی اور انہوں نے اس مقصد کے لئے امریکی کمپنی نے بہت بھاری رقم ویشو ہندو پریشد کو دی تھی، تاکہ یہ انتہا پسند ہندو تنظیم قدیم بابری مسجد کو شہید کرئے۔ یہ ہولناک انکشاف ایودھیا کے مہنت یوگل کشور شاستری نے بابری مسجد شہادت کیس کی سماعت کے دوران اسپیشل جج وریندر کمار کی عدالت میں کیا تھا۔شاستری نے عدالت کو بتایا کہ جب ان کی ملاقات اس وقت کے وزیراعظم نرسہماراو سے ہوئی تو سشل منی نے انہیں بتایا کہ ویشوا ہندو پریشد نے بابری مسجد شہید کرنے کے لئے امریکی خفیہ ایجنسی کی فرنٹ مین امریکی کمپنی سے کروڑوں روپے لئے ہیں۔
Hafiz Mohammad Saeed
ایودھیا کے مہنت یوگل کشور شاستری کئی برس وی ایچ پی کے ممبر اور لیڈروں کے انتہائی قریب رہے۔ امریکی خفیہ ایجنسی کا یہ کھیل ہندو مسلم فساد کرانے کیلئے کیا تھا۔ تاکہ جنوبی ہندوستان میں مسلمانوں کی بیداری کی تحریک اْترپردیش میں قدم جما نہ سکے۔سانحہ بابری مسجد کے بعد ہندو مسلم فسادات میں ایک ہزار سے زیادہ لوگ مارے گئے اور زخمی ہوئے اور اربوں روپوں کی جائیداد تباہ ہوگئی تھی۔امیر جماعةالدعوة پاکستان پروفیسر حافظ محمد سعید کہتے ہیں کہ بابری مسجد کی سرکاری سرپرستی میں شہادت کے انکشاف سے ایک بار پھر بھارتی سکیولرزم کا پول کھل گیا ہے۔بی جے پی اور کانگریس سمیت سب بھارتی جماعتیںاسلام دشمنی میں اکٹھی ہیں۔پورا انڈیا بابری مسجد کی شہادت کا ذمہ دار ہے۔ملک میں نظریہ پاکستان پر عمل پیرا حکومت ہوتی تو انڈیا کو مساجد شہید کرنے کی جرأت نہ ہوتی۔ بھارت میں مسلمانوں کی مساجد اور حقوق آج بھی محفوظ نہیں ہیں۔پاکستان کو مساجدو مدارس کا محافظ بننا چاہیے۔ مسلمانوں کے نزدیک اللہ کے گھر مسجد کی اتنی اہمیت ہے کہ اس کی خاطر سب کچھ قربان کیا جا سکتا ہے۔ دکھ اس بات کا ہے کہ پاکستان اگر جرات کا مظاہرہ کرتااور انڈیا کو اس کی دہشت گردی کا منہ توڑ جواب دیاجاتا توبھارت میں مساجد کی شہادت کے واقعات نہ ہوتے مگر افسوس کہ ایسا نہیں کیا گیا ۔حکومت پاکستان کو مساجدو مدارس اور مسلمانوں کی عزتوں و حقوق کا محافظ بننا چاہئے۔
بھارتی پارلیمنٹ کے رکن اسد الدین اویسی کہتے ہیں کہ مسلمان ایودھیا کے مقام پر شہید ہونے والی بابری مسجد کی ایک انچ زمین سے بھی کبھی دستبردار نہیں ہونگے۔ بابری مسجد کیس میں ہر قدم پر مسلمانوں کے ساتھ دھوکا کیا گیا اور وہ محسوس کرتے ہیں کہ ملک میں امن وامان کو یقینی بنانے کیلئے انصاف کی فراہمی لازمی ہے۔ بابری مسجد کی شہادت کے ساتھ سیکولر ازم اور انصاف کا بھی قتل کر دیا گیا ہے مسلمان اس سانحہ کو کبھی نہیں بھولیں گے۔بابری مسجد کی شہادت کے حوالہ سے مسلمانوں کے ذہن میں آج بھی یہ سوال گردش کر رہے ہیں کہ جب بابری مسجد کو شہید کیا گیا اس وقت قانون کے رکھوالے کہاں تھے؟یہ لوگ تو اس وقت کیوں تماشائی بنے ہوئے تھے جب سیکولرازم کی دھجیاں اڑائی گئیں؟جب ہندو انتہاپسند مسجد کو شہید کر رہے تھے اس وقت پولیس نے گولیاں کیوں نہیں چلائیںاورانتہا پسندوں کو کیوں نہیں روکا؟مسجد شہید کرنے والوں کو اْس وقت کے وزیراعظم نے قوم دشمن قرار دیا تھا تو پھر ان کے خلاف بھارت سے غداری کا مقدمہ کیوں درج نہیں کیا گیا؟ کیوں آج تک مسجد شہید کرنے والوں کو سزا نہیں دی گئی؟ مسلمان ان سوالات کے جواب منتظر ہیں اورہندو انتہا پسند مسلم دشمنی میں آگے ہی بڑھتے جا رہے ہیں۔
بھارت میں آئندہ ہفتے شروع ہونے والے پارلیمانی انتخابات کی مہم نے شدت اختیار کرلی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ سیاست دانوں کی زبانیں بھی قابو سے باہرہونے لگی ہیں دارالحکومت دلی کے جنوبی علاقے سے انتہا پسند جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کے امیدوار رمیش بڈھرنے ووٹروں سے کہا کہ وہ نریندر مودی کو ضرور وزیر اعظم بنائیں کیونکہ وہ پاکستان اور امریکہ کو سبق سکھا سکتے ہیں۔رمیش نے کہا کہ نریندر مودی کا پردھان منتری بن کے آنا ضروری ہے، پی ایم بن کے وہ نہ صرف پاکستان بلکہ امریکہ کو بھی ٹھوکے گا۔ بی جے پی کے امیدوار نے ہرزہ سرائی کرتے ہوئے کہا کہ ملک کے تیس فیصد مسلمان دہشت گردوں کو پناہ دینے والے ہیں اور مودی کی حکومت انہیں بلکل برداشت نہیں کریگی۔