نئی دہلی (جیوڈیسک) وزیرِ اعظم نریندر مودی سے قریب سمجھے جانے والے گجرات کے ایک سرکردہ بزنس مین اور مسلم رہنما ظفر سریس والا نے کہا ہے کہ جب بات چیت ہوتی ہے تو اپنی اعلان شدہ پوزیشن سے پیچھے ہٹنا پڑتا ہے اور کچھ سمجھوتے کرنے پڑتے ہیں۔ ایودھیا کی بابری مسجد چھ دسمبر 1992 کو منہدم کی گئی تھی اور اس کے مقام پر ایک عارضی مندر بنا ہوا ہے۔
مندر اور مسجد کا یہ تنازع ابھی تک حل نہیں ہو سکا اور ایک بار پھر اسے بات چیت کے ذریعے حل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ گزشتہ دنوں ہندووں کے اولین مذہبی رہنما شنکر اچاریہ سوامی سرسوتی نے اس تنازعے کو بات چیت سے حل کرنے کے لیے لکھنو میں مسلمانوں کے ایک مذہبی رہنما سے ملاقات کی۔
خیال کیا جاتا ہے کہ انھوں نے یہ پہل وزیر اعطم نریندر مودی کی ایما پر کی ہے۔ بابری مسجد کا مقدمہ 1949 سے عدالت میں ہے۔ ایودھیا کے ہاشم انصاری مقدمہ لڑتے لڑتے اب 92 برس کے ہو چکے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ اس کا فیصلہ اب عدالت کو جلد از جلد اور اس طرح کرنا چاہیے کہ متنازع زمین پوری کی پوری کسی ایک فریق کے حق میں جائے۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے اس سوال پر ابھی تک خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔
آنے والے دنوں میں اس تنازعے کو حل کرنے کے لیے ان پر دباو بڑھتا جائے گا ، اور بہت ممکن ہے کہ اس تنازعے کو ہمیشہ کے لیے حل کرنے کے لیے ان کی حکومت کو کچھ مشکل فیصلے کرنے پڑیں۔