امریکا : صرف سبزی خوری کے مقبول ہونے پر یہ سوال کھڑا ہو گیا ہے کہ آیا ملی جلی خوراک بچوں کے لیے اہم ہے؟ اس مناسبت سے ماہرینِ غذائیت کا کہنا ہے کہ والدین اور بچوں کے لیے متوازن خوراک ہی اہمیت کی حامل ہے۔
حالیہ سالوں میں پودوں پر مبنی خوراک کھانے اور اس کے فائدہ مند ہونے کے بارے میں کئی تحقیقوں کے نتائج مرتب کیے جا چکے ہیں۔ ان کے مطابق ملی جلی خوراک کی جگہ وِیگن یا سبزیوں پر مشتمل خوراک (وِیگان) کے استعمال سے غذائیت سے محرومی دکھائی نہیں دیتی بلکہ اس کے دوسرے بے شمار فائدے ہیں۔
ماہرین نے ٹائپ ٹُو شوگر کو گوشت، چربی اور زیادہ شکر کھانے کا ایک نتیجہ قرار دیا ہے۔ اس کے علاوہ کئی بیماریاں اسی خوراک سے پیدا ہوتی ہیں۔ ان میں موٹاپا بھی شامل ہے، جو ایک بیماری ہے۔ یہ بھی ملی جلی خوراک سے کسی بھی انسان میں پھیلتی ہے۔ جرمنی میں ہر ساتواں بچہ موٹاپے کا شکار ہے۔ جرمن نیوٹریشن سوسائٹی (DGE) کے مطابق ملک میں سبزیوں کے استعمال میں بتدریج اضافہ ہو رہا ہے۔
وِیگان خوراک سے بہتر صحت مراد نہیں لی جاتی۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ کوئی بھی مرد یا عورت اگر بدنی ضروریات کے مطابق غذائی اجزاء کا حصول نہیں کرتا تو اس کی بنیادی صحت میں گراوٹ یقینی ہے۔
غذائیت سے متعلق امور کے ماہر مارٹن شمولیش کہتے ہیں وِیگان یا صحت ایک بالکل غلط سوال ہے۔ ان کے مطابق دودھ پلانے والی ماؤں کا خوراک کا انتخاب انتہائی اہم ہوتا ہے اور اس پر بحث کرنا فضول ہے۔ دوسری جانب ملی جلی خوراک کھانے والے کئی بچوں کی صحت مناسب نہیں ہوتی۔ شمولش کے مطابق بنیادی سوال متوازن خوراک ہے۔
ماہرینِ غذائیت مارکوس کیلر نیوٹریشن کی دنیا کا ایک بڑا نام ہے۔ انہوں نے اس موضوع پر کئی تحقیقی کتابیس بھی مرتب کی ہیں۔ وہ پودوں سے حاصل ہونے والی خوراک کے ادارے یعنی IFPE (Research Institute for Plant-Based Nutrition) کے بانیوں میں سے ہیں۔
انہوں نے بچوں اور بالغ ہوتے افراد میں ویجیٹیرین اور ویگان خوراک کے اثرات پر ریسرچ بھی مکمل کی ہے۔ اس تحقیق میں انہوں نے واضح کیا کہ وِیگان خوراک کھانے سے بعض غذائی اجزا میں کمی پیدا ہونے کا تاثر درست نہیں۔ تحقیق کے نتائج سے ظاہر ہوا کہ وِیگان خوراک والے بچے تعلیم کے میدان میں ملی جلی خوراک کھانے والوں میں سے بہتر ہیں۔
مارکوس کیلر نے غذائیت کے چار سو مختلف پہلووں پر ریسرچ مکمل کرنے کے بعد واضح کیا کہ وِیگان بچوں اور ملی جلی خوراک کھانے والے بچوں میں جسمانی نشو و نما اور افزائش میں بظاہر کوئی فرق نہیں دیکھا گیا۔ اس ریسرچ میں شامل بچوں کے گروپس میں ایک سے تین برس تک کے چھوٹے بچے، چھ سے اٹھارہ سال تک کے بالغ اور بالغ ہوتے بچے شامل تھے۔
ان میں گوشت اور سبزی کھانے والوں کے ساتھ ساتھ وِیگان کھانے والے بچے بھی شامل تھے۔ کیلر کی ریسرچ نے ظاہر کیا کہ ان تمام بچوں کے قد اور وزن بڑھنے کے ساتھ ساتھ جسمانی اعضاء کی گروتھ یعنی افزائش میں بھی کوئی بڑے فرق نہیں سامنے آیا۔
ماہرِ غذائیت مارکوس کیلر کا کہنا ہے کہ ویگان خوراک کے استعمال میں وٹامن بی بارہ کی کمی واقع ہونے کا قوی امکان ہوتا ہے، اس لیے اس وٹامن کی ایک گولی کو روازنہ کی خوراک کا حصہ بنانا بہت ضرور ہے۔ کیلر کے اس مشورے کی حمایت امریکی، برطانوی، اطالوی اور پرتگالی ماہرین بھی کرتے ہیں۔
دوسری جانب وِیگان خوراک سے حاملہ عورتوں، بچوں کو دودھ پلانے والی خواتین، بچوں اور بالغ ہوتے بچوں کو کسی حد دور رہنے کا مشورہ دیا جاتا ہے۔ ان کو کم رہ جانے والے اجزاء کو اپنی خوراک کا میں شامل کرنے کا مشورہ دیا گیا ہے۔
مارکوس اس وقت وِیگان خوراک استعمال کرنے والی اور غیر ویگن خوراک کھانے والی خواتین میں پلنے والے بچے پر اثرات اور مجموعی صحت پر تحقیق جاری رکھے ہوئے ہیں۔ کیلر کی غذائیت کے موضوع پر کئی تحقیقی کتب والدین اور حاملہ خواتین کو انتہائی مناسبت رہنمائی فراہم کر سکتی ہیں۔