ایڈز ایک ایسی مہلک بیماری ہے جس نے آہستہ آہستہ اپنے پنجے گاڑھتے ہوئے تقریباً تمام دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے ،یہی مرض ایک وبا کی شکل اختیار کر چکا ہے، یہ موذی مرض ہے کیا، اور انسان کے جسم پر کیا اثر چھوڑتا ہے،اس بارے میں اب تک کئی تحقیقات سامنے آ چکی ہیں تاہم اس مرض کا علاج دریافت نہیں ہو سکا اور یہ بات حتمی ہے کہ صرف احتیاط ہی اس مرض کا علاج ہے ،یہ مرض کیسے پھیلتا اور اس کی وجوہات کیا ہیں اس بارے میں جو تحقیقات کی گئیں ہیں ان کے مطابقہر انسان کے جسم میں قدرت نے ایک دفاعی نظام بنایا ہے، مثلًا نزلہ، زکام یا بخار ہو جائے اور دوانہ بھی لیں تو کئی دن کی بیماری کے بعد جسم خود بخود تندرست ہو جاتا ہے، لیکن ایڈز کے مریضوں میں یہ قدرتی دفاعی نظام کمزور پڑ جاتا ہے اور انسان طرح طرح کی بیماریوں اور جراثیموں کے رحم و کرم پر ہوتا ہے، یہاں تک کہ اس کی موت واقع ہو جاتی ہے
ایڈز نامی یہبیماری اب سے تقریباً 30 سال قبل دریافت ہوئی تھی، کئی سائنس دانوں کا خیال ہے کہ اس کا آغاز بر اعظم افریقہ کے جنوبی علاقوں میں ہوا، اس بیماری کے وائرس کو ایچ آئی وی کہتے ہیں، یہ چھوت کی بیماری نہیں اور کسی کو ہاتھ لگانے یا کسی کے چھو لینے سے نہیں لگتی اور نہ ہی اس طریقے سے یہ کسی دوسرے انسان میں منتقل ہوتی ہے،اس کا وائرس انسانی جسم سے باہر زندہ نہیں رہ سکتا، اس لیے اس کے پھیلنے کے طریقے محدود ہیں،مثلًا خون کے ذریعے، اگر کسی صحت مند شخص کو غلطی سے کسی ایڈز کے مریض کا خون دے دیا جائے
تو وہ بیمار ہو جائے گا اور یہی مرض وائرس کے ذریعے اس کے جسم میں منتقل ہو کر اسے متاثر کر دے گا یا اسی طرح ایڈز کے مریض کے جسم میں ٹیکا لگا کر وہی گندی سوئی کسی دوسرے کے جسم میں لگا دی جائے تو وائرس اس میں منتقل ہونے کا خطرہ پیدا ہوتا ہے، جیسے کچھ لوگ دوستوں کے ساتھ مل کر ایک ہی سوئی سے نشے کے ٹیکے لگاتے ہیں،اگر کسی ایک کو بھی ایڈز ہو تو وہ دوسروں کو لگ سکتا ہے،اس کے علاوہ ماں کے دودھ سے بچے کے جسم میں بھی یہ وائرس داخل ہو سکتا ہے،ایڈز کے پھیلاؤ کا سب سے عام طریقہ ہے سیکس یا جنسی عمل، جس میں اگر احتیاط سے کام نہ لیا جائے اورکنڈوم کا استعمال نہ کیا جائے تو ایک بیمار انسان سے یہ وائرس کسی دوسرے صحت مند انسان کو منتقل ہو سکتا ہے
یوں ایک سے دو مریض اس بیماری میں مبتلا ہو سکتے ہیں،اگرچہ ایڈز کی ابھی تک کوئی دوا ایجاد نہیں ہوئی لیکن ایسی دوائیاںتیار کر لی گئیں ہیں جو بیماری کے پھیلاؤ کو محدود کر دیتی ہیں، اسی لیے اگر صحیح وقت پر تشخیص ہوجائے اور درست علاج کرایا جائے تو ایڈز کے مریض کئی برسوں تک صحت مند زندگی گزار سکتے ہیں، کئی مریض تو بیس پچیس سال تک زندہ رہتے ہیں،ایک نئی تحقیق میں آلودہ مکئی اور افریقہ کے صحرائے اعظم کے زیریں علاقے میں ایچ آئی وی وائرس پھیلنے کے درمیان ممکنہ تعلق کا انکشاف ہوا ہے،امریکہ میں تحقیق کے دوران سائنسدانوں کو یہ پتہ چلا کہ اس علاقے میں جو ں جوں مکئی کے استعمال میں اضافہ ہوا
اس کے ساتھ ساتھ ایچ آئی وی کے مریضوں کی تعداد میں بھی بڑھاوا دیکھا گیا،سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ مکئی میں ایک خاص قسم کی فنگس یعنی پھپوندی ‘ فیومونیسین’ پائی جاتی ہے جو زہریلے حشرات یا کیڑے مکوڑوں کے باعث بنتی ہے، اس کے کھا نے والے افراد کے جسموں میں ایچ آئی وی وائرس سے بچنے کی قوت مدافعت میں کمی واقع ہوجاتی ہے،سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ مکئی کی کوالٹی بہتر بنا کر اس علاقے میں کوئی دس لاکھ افراد کو ایچ ائی وی وائرس سے بچایا جاسکتا ہے، جو مجموعی تعداد میں پچاس فیصد تک کمی ہوگی ، گو کہ اس شعبے میں اور بھی کام کرنے کی ضرورت ہے،یہ تحقیق امریکہ کے ایک جریدے میں شائع ہوئی، جو غذائی اشیاء کی افادیت اور نقصانات پر تحقیقات شائع کرتا ہے
سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ مکئی کی کوالٹی بہتر بنا کر اس علاقے میں کوئی دس لاکھ افراد کو ایچ ائی وی وائرس سے بچایا جاسکتا ہے، جو مجموعی تعداد میں پچاس فیصد تک کمی ہوگی ، گو کہ تاہم اس شعبے میں اور بھی کام کرنے کی ضرورت ہے،’ فیومو نیسن’ نامی ایک نشہ آور فنگس یا پھپوندی ہے جس کے بارے میں چنداور تحقیقوں میں یہ کہا گیا ہے کہ اس سے معدے کو منہ سے ملانے والی نالی کے کینسر میں اضافہ ہوا ہے،ایڈز کے علاج میں بہت سے مسائل ہیں،نمبر ایک علاج مہنگا بھی ہے اورطویل بھی، اس کے علاوہ اس بیماری کے بارے میں بہت سی غلط فہمیاں ہیں جن سے معاشرے میں بگاڑ اور نفرتیں پھیلائی جاتی ہیں حالانکہ مریض چاہے
ایڈز کا ہو یا کسی دوسری عام بیماری میں مبتلا وہ ہر حال میں قابل رحم ہوتا ہے جبکہ لوگوں میں اس کے بارے میں شعور کی کمی ہے، جو تعصب کو جنم دیتی ہے، خاص طور پر ترقی پذیر ممالک میں اس سلسلے میں بہت کام ہونا ابھی باقی ہے، ہمارے ہاں ملک عزیزپاکستان میں ایک طرف ایڈز کا مرض تیزی سے پھیل رہا ہے تو دوسری طرف تشویش کی بات اس مرض میں مبتلا بچے ہیں، ایڈز کی روک تھام کے لئے سرگرم ایک سرکاری ادارے میں کام کرنے والے سینیئر ڈاکٹر راج ولی نے گزشتہ سال دسمبر میں اپنے ایک انٹرویو میں پاکستانکے اندر سرکاری اعداد وشمار کے مطابق ایڈز میں مبتلا افراد کی تعداد 83468 بتائی تھی جس میں 7568 وہ لوگ ہیں جو پورے پاکستان میں مختلف علاقوں میں واقع اٹھارہ سرکاری مراکز میں اندراج شدہ ہیں
Pakistan
جس میں ستر بچے بھی شامل ہیں، لیکن دوسری طرف اس شعبے میں کام کرنے والے غیر سرکاری اداروں کے مطابق پاکستان میں HIV میں مبتلا افراد کی تعداد 98ہزار سے بھی تجاوز کر چکی ہے، جن میں بچوں کی تعداد بھی کافی بتائی جاتی ہے جن کی عمریں اٹھارہ سال سے کم ہیں، ان میں زیادہ تر تعداد سٹریٹ چلڈرن کی ہے، ایک غیرملکی نشریاتی ادارے نے اپنی تازہ ترین رپورٹ میں کہا ہے کہ بد قسمتی سے یہ مرض پاکستان میں اس قدر تیزی سے پھیل رہا ہے کہ ماہرین اسے ایٹم بم سیتشبیہ دے رہے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ ملک میں ایڈز کے مریضوں کا ایٹم بم بہت تیزی سے سلگ رہا ہے
جب بھی یہ بم پھٹا کئی نسلوں کی تباہی کا سبب بنے گا،عالمی ادارہ صحت کے تعاون سے اور وفاقی و صوبائی حکومت کی جانب سے شروع کردہ سندھ ایڈز کنڑول پروگرام کے سرویلینس کوآرڈی نیٹرڈاکٹر محمد سلیمان اڑھو نیاپنے تازہ ترین انٹرویو میں غیر ملکی نشریاتی ادارے کو بتایا ہے کہ پاکستان میں ایڈز کے مریضوں کی تعداد تشویشناک حد تک بڑھ گئی ہے اور اس پر جلد قابو نہ پایا گیا تو صورتحال کنٹرول سے باہر ہوسکتی ہے، ان کا کہنا تھا کہ بدقسمتی سے پاکستان میں اس مرض کو چھپایا جاتا ہے جو بذات خود ایک خطرناک اقدام ہے انہوں نے کہا کہ یہی وجہ ہے کہ ابھی تک صرف چار ہزار مریض ہی رجسٹر ہو سکے ہیں
جبکہ جس تیزی سے یہ مرض معاشرے میں سرایت کررہا ہے اس تناسب سے ملک بھر میں اسی ہزار سے ایک لاکھ بیس ہزارتک مریضوں کو سامنے آجانا چاہئے تھا،ڈاکٹر سلیمان کے مطابق اس مرض کو چھپانے کا خطرناک پہلو یہ ہے کہ علاج نہ کرانے کی صورت میں یہ مرض ایک سے دوسرے ، دوسرے سے تیسرے ، چوتھے اور لامحدود افراد تک پھیل سکتا ہے،ملک میں اس وجہ سے بھی ایڈز طوفانی رفتار سے بڑھ رہا ہے، ان کا کہنا تھا کہ بیشتر افراد ایسے ہیں جن میں ایڈز کے وائرس کا امکان موجود ہے تاہم شعور نہ ہونے کے باعث وہ اپنا طبی معائنہ نہیں کراتے جس کی وجہ سے یہ مرض ان کے اہل خانہ میں پھیل رہاہے یہاں تک کہ آنے والی نسلیں بھی اس سے متاثر ہورہی ہیں کیوں متاثرہ افراد کے ہاں جو اولاد ہوتی ہے
وہ پیدائشی طور پر ایڈز کے مرض میں مبتلا ہوجاتی ہے، ڈاکٹر محمد سلیمان اڑھو ایڈز کے پھیلاؤ کی چار اہم وجوہات بتاتے ہیں،ڈاکٹر سلیمان کا کہنا تھا کہ معاشرے میں سرنج کے ذریعے عادی نشہ ور افراد کی تعداد دن دگنی رات چوگنی رفتار سے بڑھ رہی ہے، استعمال شدہ سرنج کے بار بار استعمال سے ایڈز تیزی سے انسانوں میں پھیل رہا ہے، پھر یہ افراد نشے کی خاطر خون تک بیچنے سے گریز نہیں کرتے، اس وجہ سے ایڈز کے مریضوں میں تشویشناک حد اضافہ ہورہا ہے،انہوں نے ایک اور ستم ظریفی یہ بھی بتائی ہے کہ ہمارے ہاں خواجہ سراغریبی کے باعث غیرمحفوظ جنسی تعلقات کو بڑھاوے کا سبب بن رہے ہیں، سن ستر اور اسی کی دھائی میں شہروں میں باقاعدہ کوٹھے ہوا کرتے تھے
جہاں طوائفیں اور سیکس ورکر محدود تھے اور ان کے گاہک بھی محدود ہوا کرتے تھے مگر مارشل لا کے دور میں کوٹھوں پر پابندی لگادی گئی جس کا تاریک پہلو یہ نکلا کہ اب گلی گلی سڑک سڑک طوائفیں، خواجہ سرا اور مرد سیکس ورکرز پھیل گئے ہیں،اب ان پر کوئی روک نہیں رہی لہذا یہ معاشرے میں ایڈز پھیلانے کا سبب بن کر رہ گئے ہیں،انہوں نے ایک سوال کے جواب میں بتایا ہے کہ پاکستان کے سب سے بڑے شہر اور تجارتی حب کراچی میں اس وقت بارہ ہزار افراد منشیات کی لعنت کا شکار ہیں جن میں سے تین ہزار افراد کے ایچ آئی وی ٹیسٹ مثبت آ چکے ہیں،ڈاکٹر سلیمان کا کہنا ہے کہ صوبہ سندھ کے شہر لاڑکانہ میں تیس فیصد مریض سرنج کے باعث ایڈز کا شکار ہوئے،اس وقت لاڑکانہ صوبے سندھ میں سب سے زیادہ ایڈز کے مریض رکھنے والا شہر ہے
جبکہ کراچی اور دیگر شہروں میں ایڈز کے پھیلاؤ میں اب تو لاعلم بچے بھی اہم کردار ادا کرنے لگے ہیں، مختلف چورنگیوں ، گلی ،محلے اور بازاروں میں نابالغ سیکس ورکرز باآسانی دستیاب ہیں اور چند روپوں میں وہ یہ فعل کرانے کے لئے آمادہ بھی ہو جاتے ہیں، کراچی کے صدر بازار میں واقع جہانگیر پارک کے ٹوائلٹ بچوں کی غیر اخلاقی سرگرمیوں کا گڑھ ہیں، یہاں آنے والے مرد ان بچوں کو نہایت کم قیمت میں اس مکروہ فعل میں پھنسا لیتے ہیں، ایسے بچوں کی اکثریت کا یہ موقف ہے کہ انہیں اس کام سے زیادہ پیسے کسی اور کام میں نہیں مل سکتے ، پانچ سے چھ مرتبہ کے فعل میں وہ پانچ سے آٹھ سو روپے ایک دن میں کما لیتے ہیں، لیکن ان چند سو روپوں کے عوض ملک اور معاشرہ کس نہج پر پہنچ چکا ہے
یا وہ خود مستقبل میں اس کی کس قدر بھیانک سزا پائیں گے اس کا انہیں کوئی علم نہیں،غیر ملکی نشریاتی ادارے کی تحقیقاتی رپورٹ ہی کے مطابق پاکستان کے شہر قائد کراچی میں مزار قائد ، اللہ والی چورنگی ، طارق روڈ ، کلفٹن اور شاہراہ فیصل سمیت مختلف علاقوں میں جسم فروش عورتیں شام کے وقت نمودار ہوتی ہیں اور سینکڑوں مردخوشی خوشی ان کا شکارہو جاتے ہیں اور وہی شکار ہونے والے مرد ایڈز کے مرض میں تیزی سے مبتلا ہو رہے ہیں،اب ایک یہ بات تو طے کہ پاکستان میں دوسرے کئی ممالک کے مقابلے میں ایڈز کے مریضوں کی تعداد کم ہے،بھارت کے شہر بھوپال کے ایک اسپتال میں ایڈز کے رجسٹرڈ مریضوں کی تعداد آٹھ ہزارسے زائد ہے جبکہاسی لحاظ سے بدقسمتی سے پاکستان میں ایسے مریضوں کی موجودہ تعداد پھربھی بہت زیادہ ہے،ماہرین کے مطابق تحقیقات سے ثابت ہوتا ہے کہ ختنہ ایڈز کے عدم پھیلاؤ میں انتہائی موثر کردار ادا کرتاہے
ہمسایہ ملک بھارتمیں میڈیا کے ذریعے ایڈز آگاہی پروگرام چائے جا رہے ہیں، ٹی وی پر جو اشتہارات دکھائے جاتے ہیں ان میں ماں باپ کو ایڈز کے بارے میں اپنے بچوں سے بات کرنے سے ڈرتے ہوئے دکھایا جاتا ہے، واضح رہے کہ بھارت ان دنوں بری طرح ایڈز سے متاثر ہوچکا ہے اور ایسی اشتہاری مہمیں بہت پہلے وہاں چلنی چاہئیے تھی مگر نہیں چلی ،یہی حال اب پاکستان کا بھی ہے جہاں ایڈز سے بچائو کیلئے ابھی تک حکومتی سطح سے اس طرح کی منظم نہ تو کوئی آواز بلند کی جا سکی ہے اور نہ ہی اس سے متعلق کوئی آگاہی مربوط طریقہ سے دی جا رہی ہے،برٹش براڈ کاسٹنگ نے اپنی 10 جون 2010کی رپورٹ میں کہا تھا کہ پاکستان میں ایک عرصہ پہلے ایڈز پہنچ چکا ہے اور اقوام متحدہ نے پاکستان کو ایڈز کے خطرناک زون میں شامل کرلیا ہے
حالانکہ پاکستان میں ایڈز کے معلوم کیسز کی تعداد اتنی زیادہ نہیں جتنی بھارت یا دیگر جنوبی ایشیائی ممالک میں ہے،گرچہ پاکستان میں شادی سے قبل جنسی تعلقات بہت زیادہ معیوب سمجھے جاتے ہیں اور جنسیات ایک ایسا موضوع ہے جس پر پاکستانی ذرائع ابلاغ تو درکنار لوگ ایکدوسرے سے بھی بات کرنا پسند نہیں کرتے، مگر پھر بھی کئی غیر سرکاری تنظیموں کے مطابق پاکستان کی نوجوان نسل جنسی طور پر فعال ہے، خصوصا نوجوان لڑکے اور شہری علاقوں میں لڑکیاں بھی، معاشرتی دباؤ کی وجہ سے اکثر نوجوان ایڈز اور جنسی طور پر منتقل ہونے والی بیماریوں کی وجہ سے یا تو لا علم ہوتے ہیں یا پھر سنہری موقعوں کو کھو دینے کے ڈر سے حفاظتی تدابیر اختیار نہیں کرتے،بی بی سی ہی کے مطابق پاکستان میں ہم جنسیت بھی کافی عام ہے
اس دوران بھی حفاظتی تدابیر اور محفوظ جنسی تعلق پر کوئی دھیان نہیں دیا جاتا،غیر سرکاری تنطیموں کے اندازوں کے مطابق اس وقت ہزاروں نہیں تو کم از کم سینکڑوں پاکستانی مرد ایچ آئی وی سے متاثر ہیں اور تقریبا وہ تمام ہی جنسی طور پر فعال ہیں،ایسے مردوں میں ایک بڑی تعداد ان مردوں کی ہی جو شادی شدہ بھی ہیں اور اپنی بیویوں کے ساتھ جنسی تعلق کے دوران حفاظتی تدابیر کو غیر اہم سمجھتے ہیں، اکثر خواتین اور لڑکیاں ایڈز سے بالکل لاعلم ہیں،ایسے مرد جنہیں ایچ آئی وی تشخیص بھی ہوجاتا ہے ان میں سے زیادہ تر علاج نہیں کراتے اور عین ممکن ہے کہ وہ بغیر کسی احتیاط کے یہ وائرس آگے پہنچانے کا سبب بن رہے ہوں
ایسی خواتین جنہیں اپنے خاوند کے دیگر خواتین یا مردوں کے ساتھ جنسی تعلقات کا علم بھی ہوجاتا ہے وہ ان معاملات کی پردہ پوشی کرتی ہیں اور مصلحتا خاموش رہتی ہیں، ماں باپ اپنے نوجوان بچوں سے ایڈز کے بارے میں بات کرنا تو درکنار ان کی جنسی زندگی کے کسی پہلو پر بات نہیں کرتے، اسکولوں میں جنسیات یا ایس ٹی ڈی یا ایڈز کے بارے میں کوئی بات نہیں ہوتی،اگر ہم اپنے ہاں اسلامی تعلیمات کو عام کریں اور ان ہی اسلامی تعلیمات پر عمل کریںتو ایڈز سے بچاجاسکتا ہے ،ملکی سطح پر ایسی منظم مہم چلانے کی بھی ضرورت ہے تا کہ ایسی خطرناک بیماری کے عفریت سے بچا جا سکے۔