بدین (جیوڈیسک) ضلع بدین میں سو سے زائد دیہات میں پینے کی پانی کی قلت نے سنگین صورتحال اختیار کر لی ہے۔ ان علاقوں کی خواتین میلوں دور سے پینے کا پانی حاصل کرنے پر مجبور ہیں۔ پینے کے پانی کے لیے میلوں کا سفر اب صرف صحرائے تھر تک محدد نہیں رہا بلکہ ضلع بدین میں نصیر کینال سے نکلنے والی تمام نہروں کے آخری سروں کی ایک سو سے زائد آبادیا ں بھی اس کی لپیٹ میں آ گئی ہیں۔ ان علاقوں میں خواتین کے لیے پینے کے پانی کا حصول کڑی آزمائش بن گیا ہے، خواتین صبح سے شام تک پانی کی تلاش میں سرگرداں دکھائی دیتی ہیں۔
پانی کے لئے سرگردہ خواتی کا کہنا ہے کہ پانی نہیں ہے کیا کریں دن بھر پانی کے لیے مرتے ہیں، سارا دن پانی بھرتی ہیں کیا کریں زندگی مشکل ہو گئی ہے، دور دور سے پانی لاتے ہیں کئی مہینے سے پانی نہیں ہے۔ علاقے میں زیر زمین پانی کے ذخائر ناقابل استعمال ہیں جبکہ پینے کی پانی کا واحد ذریعہ نہری پانی کی فراہمی ہے۔ طویل عرصے سے نہری پانی کی عدم فراہمی کے باعث ان دیہاتوں میں واقع تالاب خشک ہو چکے ہیں۔
یہاں کی خواتین دور دراز کے علاقوں میں چند ایک مقام پر لگے میٹھے پانی کے ہینڈ پمپ کا رخ کرتی ہیں جہاں خواتین کا ہجوم لگا رہتا ہے۔ محکمہ آبپاشی کے حکام اس صورتحال کو نہری پانی کی مجموعی قلت کا تسلسل قرار دیتے ہیں۔ علاقہ مکینوں کا کہنا ہے کہ پینے کا پانی کی فراہم کا جانا ان کا بنیادی حق ہے مگر طویل عرصے سے نہری پانی کی عدم فراہمی کے ذریعے ان سے جینے کا حق بھی چھینا جا رہا ہے۔