بدین (عمران عباس) بدین ڈسٹرکٹ جیل میں قید ہمارے بھائی خان محمد پٹھان کو رشوت لیکر شدید تشدد کا نشانا بنایا جار ہا ہے، ہمیں ڈر ہے کہ ہمارے بھائی کو جیل میں قتل کردیا جائے گا، بدین پریس کلب میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے بدین ڈسٹرکٹ جیل میں قید تحصیل ٹنڈوباگو گاؤں شیر خان پٹھان کے رہائیشی سلطان پٹھان اور محمد خان پٹھان نے کہا کہ ہمارے بھائی کو مخالفین کے کہنے اور بھاری رشوت لیکر شدید تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے اور ہمیں ڈر ہے کہ جیل کے اندر ہمارے بھائی کو قتل کردیا جائے گا، انہوں نے مزید کہا کہ بدین ڈسٹرکٹ جیل کے کچھ عملدار اور اہلکار شامل ہیں انہوں نے مخالفین سے ملکر ہمارے بھائی کو اس وقت سیل بند وارڈ کردیا گیا ہے جس کے باعث اس وقت وہ زندگی اور موت کی کشمش میں مبتلا ہے، انہوں نے چیف جسٹس آف پاکستان ، وزیر اعلیٰ سندھ ، آئی جی سندھ آئی جی جیل اور دیگر عملداروں سے اپیل کی کہ مخالفین کی جانب سے ہمیں بھی جان سے مارنے کی دھمکیاں دی جارہی ہیں جس کا فوری نوٹس لیکر ملوث جیل عملداروں اور مخالفین پر ایکشن لیا جائے اور ہمیں انصاف فراہم کیا جائے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بدین (عمرا ن عباس) حکومت سندھ کی جانب سے پابندی کے باوجو د ضلع بدین میں گھٹکا ، مین پوری اور دیگر نشہ آور چیزوں کی فروخت عام ، گلی محلے کی ہر نکڑ کی دکان پر گھٹکا ، مین پوری اور دیگر نشہ آور چیزیں عام ملنے لگی، انتظامیہ خاموش تماشائی بن گئی۔۔ ضلع کے مختلف شہروں سمیت بدین شہر میں نشہ آور اشیاء کا کاروبار عام ہوگیا ہے بلخصوص مین پوری گھٹکا اور انڈیا سے اسملنگ کی جانے والی نشہ آور چیزیں جن کے مختلف نام بھی ہیں جن مین ایکسو ، ظفری، جینٹی اور دیگر بہت سی ایسی چیزیں شامل ہیں جن کے کھانے سے منہ کا کینسر اور جسم کے مختلف حصوں مین جان لیوا بیماریاں پیدا ہوجاتی ہیں، بدین میں گھٹکے کی بہت سی فیکٹریاں قائم ہوگئی ہیں جو بدین انتظامیہ کی سرپرستی میں چل رہی ہیں جن سے انتظامیہ کو ہر ماہ لاکھوں روپے منتھلی وصول ہوتی ہے، گھٹکا اور مین پوری بڑوں کے ساتھ چھوٹے بچے جن کی عمر پانچ سال سے بارہ سالوں کے درمیاں ہے اور خواتین بھی استعمال کرتے ہیں ،جبکہ بدین کی سرکاری اسپتالوں میں ہر روز دو سے پانچ ایسے مریض لائے جاتے ہیں جن کو منہ کے کینسر سمیت دیگر جان لیوا بیماری بھی ہوتی ہیں، بدین انڈس سول اسپتال میں ایف سی پی ایس ڈاکٹر عباس علی شاہ کا کہنا ہے کہ گھٹکا اور مین پوری کھانے سے منہ اور گلے کا کینسر ہوجاتا ہے اس کے علاوہ جسم کے دیگر حصوں میں بھی ایسی بیماریاں جنم لیتی ہیں جو فوری طور پر جان لیوا ثابت ہوسکتی ہیں جب کہ ان کا مزید کہنا ہے کہ روزانہ ایسے پانچ سے سات افراد سول اسپتال میں آتے ہیں جن کو منہ یا گلے کا کینسر ہوتا ہے اور ان کی بنیادی وجہ مین پوری اور گھٹکا ہے، بدین شہر میں اس وقت گھروں کے اندر دس سے زائد ایسی فیکٹریاں موجود ہیں جو روزانہ تین سو تھیلیاں تیارکرتی ہیں اور ایک تھیلی میں 500 سو کا مال موجود ہوتا ہے اس حساب سے ایک فیکٹری روزانہ ڈیڈھ لاکھ روپے کا روزانہ گھٹکا بناتی ہے اور دس فیکٹریاں پندرہ لاکھ کا گھٹکا تیار کرتی ہیں اس حساب سے ایک مہینے میں چار کروڑ پچاس لاکھ کا گھٹکا تیار ہوتا ہے جو ضلع بدین کے مختلف شہروں میں سپلائی کیا جاتا ہے ، ہر ما ہ چار کروڑ سے زائد کا گھٹکا فروخت ہونے سے پولیس کو ہر ماہ لاکھوں کی وصول ہوتی ہے اور ان پر کوئی بھی کاروائی نہیں ہوتی، حکومت سندھ کی جانب سے سندھ بھر میں گھٹکا اور مین پوری پر پابندی کا فیصلا کیا گیا ہے لیکن ضلع بدین میں اس کا کوئی بھی اثر نہیں ہورہاہے ، ڈسٹرکٹ کاؤنسل میں ہونے والے پہلے اجلاس میں ہی میمبران نے متفقہ طور پر یہ ضلعی چیرمین علی اصغر ھالیپوتہ کو بھی یہ تجویز پیش کی تھی کہ ہر تیسری آدمی کا گھٹکے کے باعث منہ لال ہوتا ہے اور اس سے بیماریاں بھی جنم لیتی ہیں اس لیئے ضلع بدین میں اس کی فروخت پر مکمل طور پر پابندی لگائی جائے، اس کے علاوہ ان فیکٹریوں میں چھوٹے بچے مزدوری کرتے ہیں جو خود بھی ان نشہ آوار چیزوں کے عادی ہوجاتے ہیں اور اپنے دوستوں اور گھر والوں کو بھی اس کا عادی بنا دیتے ہیں ،بدین سے تعلق رکھنے والے سول سوسائیٹی اور باشعور لوگوں نے حکومت سندھ سے مطالبہ کیا ہے کہ جلد سے جلد حکومتی فیصلے پر عمل درآمد کرایا جائے تاکہ ضلع بدین کی نوجوان نسل اس بیماری سے بچ سکے۔۔۔