تحریر: ع۔م۔ بدر سرحدی مان لیں کے آج ہی نہیں بلکہ ہمیشہ سے ملک میں اگر کوئی ادارہ ہے جو نہ صرف ملک اور ملکی مفادات کے ساتھ سنجیدہ بلکہ اپنی کمٹمنٹ سے بھی سنجیدہ ہے تو صرف فوج ہے جو”ہر دم تیار” میں نے ایوب خان کا دور دیکھا ہے میرے پاس اعداد و شمار نہیں مگر اُس میں ہونے والی ترقی کا ریکارڈ فائلوں میں موجود ہوگا کہ ملک نے ترقی کی ،بعض محققین اور تجزیہ کار اعتراف بھی کرتے رہے کہ ملک نے ایوب دور میں ترقی کی،دو ڈیم بنائے تیسرے پر بھی کافی کام ہوأ، مگر سیاستدانوں کو ملکی ترقی یا عوام کی خوشحالی سے غرض نہیں….،تب ،آٹا دس روپئے کا من ،یعنی ایک روپئے کا ٤،سیر ]٤کلو[ اور جمہوری ادوار میں یہی آٹا ٤٥ روپئے کلو ،وہ بناسپتی گھی کا زمانہ نہیں تھا، تب دیسی گھی ٤ ،کا ایک سیر ،پٹرول ڈھائی روپئے کا گیلن آج٤٥ سال کا شخص اس وقت کے ڈھائی کے ہندسے کے متعلق نہیں جان سکتا ،جبکہ آج کی زبان میں دو روپئے پچاس پیسے ،نئی نسل لفظ پیسے سے نابلد ہے ،کیونکہ یہ لفظ صرف لکھنے میں آتا ہے اوریہ بے وقعت پیسے بھی کسی نے دیکھے نہیں۔
گیلن کا مطلب ساڑھے چار لیٹر، مٹی کا تیل سات روپئے کا سورج مارکہ ٹن ہوتا تھا …بات طویل ہوجائے گی کہنے کا مطلب کہ ملکی ترقی میں فوج کا اہم کردار رہا ،وہ مار شل لا اگر تھا عوام اور ملک کو لوٹنے والوں کے خلاف تھا، عوام کے خلاف نہیں، سیاسی لوگوں کو تو بس اقتدار کی ہوس ہوتی ہے انہیں اقتدار چاہئے تھا اس لئے ایوب خان کے خلاف تحریک چلائی تو وہ اقتدار سے الگ ہو گئے اور ملک میں انتخابات کرانے کے لئے جرنل یحییٰ خان ٰٰ کو اقتدار دے دیا کہ فوج ایک منظم ادارہ ہے ، ملک میں انتخابات ہمیشہ متنازع ہوتے ہیںکہ دھاندلی ہوتی ہے مگر تاریخ یہ بتاتی ہے کہ ٧٠ ء کے انتخابات شفاف تھے اب الزام یحییٰ خان کو دیا جاتا ہے پاکستان کے دو لخط ہونے میں یحییٰ خان کا مرکزی کردار ہے یہ الگ بحث ہے کہ کون زمہ دار…..،،ضیاء الحق کے مارشل لاء کے زمہ دار اس وقت کہ نو ستارے جن میں مذہبی جماعتیں شامل تھی اور وہ اقتدار میں شریک بھی رہیں،ملک سیاسی طور پر تنزلی کا شکار ہوأ لیکن مذہبی طورپر طالبانائزیشن کی طرف بڑھا ،اس سے ملک کو کتنا نقصان یا فائدہ ہوأ وہ سب ریکارڈ پر …..، قیوم نظامی جیسے تجزیہ نگار لکھتے ہیں ” مشرف نے پاکستان کو ‘ خونستان ‘ بنا دیا۔
اب گھر سے باہر نہیں نکل سکتے عدالتیں اشتہاری مجرم قرار دے رہی ہیں جس سپہ سالار نے آئین توڑارسوائی اُس کا مقدر ٹھہری…” مجھے افسوس ہوأ کہ ایسے لوگ بھی قلم کی عصمت کو نیلام کرتے ہیں …..، یہ سیاسی لوگوں کا لگایا گیا الزام ہے جس میں کوئی صداقت نہیں ،کہ جنرل پرویزمشرف تو اُس وقت برطرف ہو چکا تھا ،اور فضاؤ میں زیر گردش تھا ،سچ تو یہ ہے کہ اُس وقت ایمر جنسی نافذ ہو چکی تھی اور جب وہ زمین پر اترا تو ملک اُس کے سپرد (Hand overe )کیا گیا ، خیر یہ اب قصہ پارینہ ہوچکا ہے اب بات ہو رہی ہے فوجی حکمرانوں کی….کہ ان ادوار میں ملک نے معاشی طورپر ترقی کی آج بھی یہ ریکارڈ پر ہے کہ مشرف دور ہی میں مجموعی پیداواری صلاحیت ٦٣ ،ارب ڈالر سے بڑھ کر ٧٠ا، ارب ڈالر تک پہنچی ،پیداواری صلاحیت اوسطا،٧ فیصد بڑھ گئی تھی،فی کس آمدنی ٤٣٠ ،ڈالر سے بڑھ کر تقریباایک ہزار ڈالر تک پہنچی ،غیر ملکی زر مبادلہ ٢٠٠٨ تک ٥.٦ا،ارب ڈالرتک پہنچااہم بات کہ مشرف دور میں ڈالر ٦٠ ،روپئے سے آگے نہیں بڑھ سکا۔
Musharraf
مشرف کے عہد میں دہشت گردوں نے زورپکڑا سوات اپریشن،اور اسلام آباد میں مولانا عبدالعزیز نے اپنی ڈنڈا بردار فورس تیار کی اور اسلام آباد میں طالبان کی آمد کی ہر روز خبر دیتا ٢٠٠٦ کے اخبارات گواہ ہیں اور جب لال مسجد اپریشن ہوأ تو پہلی گولی لال مسجد کی طرف سے آئی رینجر کا حوالدار شہید ہوأ،مولانا فضل الرحمن نے ایسے میں مسجد کے اندر جانے سے معذرت کر لی دوسری طرف ملک میں جہادی تنظیموں،مذہبی جماعتوںاور طالبان کے سہولت کاروں نے (جو آج خاموشی سے زیر زمیں چلے گئے ہیں) ہاہا کار مچا،اسی پر بس نہیں ان جیسے سیاسی لوگوں اور اُن کے قصیدہ گو قلم کاروں نے بھی طالبان کے خلاف اپریشن کی مخالفت کی … ..، پھر لکھتے ہیں ”……..جنرل ایوب خان دس سال اقتدار میں رہے مگر ٹھوس اور مستحکم سیاسی و معاشی نظام نہ دے سکے…..”’مجھے یہ پڑھ کر ہنسی بھی آ ئی اور دکھ بھی….. پاکستان کی خالق جماعت مسلم لیگ تو اپنی پوری جد وجہد کے بعد ملک کوآئین ہی نہ دے سکی،اگر تو ملم لیگ نے اپنا ہوم ورق کیا ہوتا اور پاکستان کے منظر پر آتے ہی پہلا کام آئین نافذ ہوتا تو ملک کبھی دو لخط نہ ہوہوتا۔
اس کی جو بھی تاویلات کریں یہ آپ کی مرضی ،کہتے ہیں ایوب محض دس سال ہی میں ملک کو ٹھوس سیاسی نظام نہ دے سکے …..، ملک کی تاریخ میں سیاستدانوں نے ملک کو سوائے افرا تفری ،رسوائی ،غربت وافلاس،قرض کی لعنت کے سوا کیا دیا؟اوراب بھی نومبر دسمبر ٢٠١٣،اور ٢٠١٤میں جب مولانا سمیع الحق کو یہ ٹاسک دیا گیا کے طالبان کو مذاکرات کے لئے تیار کریں ،جب مولانا نے کہا تھا کہ ہم طالبان کے ساتھ نہیں طالبان ہمارے ساتھ ہیں ،”کیسا فلسفہ ہے ..”یہ مذاکرات کے حوالے سے سہولت کار حکومت کو الجھانے میں مصروف تھے۔
Raheel Sharif
میں تینوں میں نہ….تو اُس وقت بھی لکھا تھا کہ حکومت کو بند گلی میں لے جایا جارہا ہے پھر ایسا مطالبہ کریں گے جو پاکستان کے مزید ٹکڑے ہونگے مگر اللہ تعالےٰ کا شکر کے ہمارے زیرک سالار آعظم طالبان اور حمائتیوں کی بلف چالوں کو بھانپ گئے کہ وہ کیا چال چلنے والے ہیںاور طالبان اور اِن کے سہولت کاروں کو موقع دئے بغیراگلی چال چلنے سے پہلے بساط ہی لپیٹ دی ،ورنہ تو پہلے شمالی وزیرستان کا نام لیتے ہی سہولت کار آسمان سر پر اُٹھا لیتے کہ وزیرستان محض ایک ایجنسی نہیں بلکہ طالبان کی ریاست تھی ، اُن کا ایجنڈا انتہائی خطر ناک تھا وہ پاکستان کو فتح کرنا چاہتے تھے جس سے دنیا لرز رہی تھی۔
مگر سالار آعظم نے انہیں یہ موقع ہی نہ دیا اور وزیرستان میں کاروائی کردی دہشت گردوں کو بھاگنے کا موقع بھی نہ دیا بے شک سہولت کاروں نے دہشت گردوں کو متنبہ کر دیا تھا ،مگر سالار آعظم کے ساتھ کروڑوں پاکستانیوں کی دعائیں ،عید الفطر پر تمام سیاسی قائدین اپنے گھروں بچوں کے ساتھ عید منا رہے مگر سالار آعظم شمالی وزیرستان میں اپنے جوانوں کے ساتھ کے وہ بھی تو اپنے گھروں سے دور پہاڑوں میں حالت جنگ میں تھے عید منا رہے تھے جب یہ منظر دیکھا جو حب الوطنی اور اپنے جوانوں کے ساتھ محبت کا فقید المثال منظر دیکھا تو میری آنکھیں خوشی سے بھر آئیں ، وہ آج بھی سیلاب میں گھر ے لوگوں کے درمیان نظر آتے ہیں….. ہزاروں دعاؤں کے ساتھ۔