بغداد (جیوڈیسک) یہ کار بم حملہ بغداد کے شیعہ اکثریتی آبادی والے علاقے الصدر میں کیا گیا۔ بارود سے بھری ایک گاڑی صدر سٹی میں ایک بیوٹی سیلون کے باہر کھڑی کی گئی تھی، جسے دھماکے سے اڑا دیا گیا۔ بمبار نے اس گاڑی کو اُس وقت دھماکے سے اڑایا دیا، جب ایک مقامی مارکیٹ میں خریداری کرنے والوں کی بھیڑ تھی۔ عراقی پولیس اور طبی ذرائع کے مطابق ہلاک شدگان میں خواتین کی تعداد زیادہ ہے۔ اس کے علاوہ ہسپتال پہنچائے گئے کئی زخمیوں کی حالت انتہائی تشویشناک بتائی گئی ہے۔ سکیورٹی ذرائع اور طبی حکام نے ہلاکتوں میں اضافے کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔
الصدر کا علاقہ بغداد کے شمال میں واقع ہے۔عسکریت پسند تنظیم ’اسلامک اسٹیٹ‘ کی حامی نیوز ایجنسی عماق نے بتایا ہے کہ اس خود کش حملے کا نشانہ عراق کے شیعہ ملیشیا فائٹرز تھے۔ اس جہادی تنظیم نے اپنے بیان میں کہا کہ بارود سے بھری کار کو اڑانے کا کام اس کے ایک خود کش بمبار ابو سلیمان الانصاری نے کیا۔ رواں برس فروری میں بھی ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے دو خود کش حملہ آوروں کے الصدر علاقے میں کیے گئے حملوں میں ستر سے زائد افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے انتہائی سخت گیر عقیدے کے حامل جہادی اپنے طور پر شیعہ مسلمانوں کو دائرہ اسلام سے خارج قرار دیتے ہیں۔
کار بم حملہ بغداد کے شیعہ اکثریتی آبادی والے علاقے الصدر میں کیا گیا ایک دہائی قبل عراقی دارالحکومت میں خود کش حملے اور بم دھماکے تواتر سے کیے جاتے تھے لیکن بتدریج سکیورٹی کی صورت حال بہتر ہونے سے صورت حال خاصی بہتر تو ہوئی ہے لیکن اب بھی شیعہ آبادی اور سکیورٹی فورسز کو سنی عسکریت پسند تنظیم کی جانب سے بم حملوں کا نشانہ بنانے کا سلسلہ وقفے وقفے سے جاری رہتا ہے۔ مبصرین کے مطابق عراق میں شیعہ اکثریتی آبادی اور سنی اقلیت کے درمیان مذہبی خلیج پیدا ہونے کی وجہ سے پرتشدد حالات میں تسلسل پایا جاتا ہے۔
فرقہ وارانہ تقسیم کی وجہ سے امریکا کی حمایت میں عراقی فوج کی ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے خلاف جاری مہم کو بھی شدید مسائل کا سامنا ہے۔ عراقی فوج نے شمالی اور مغربی عراق میں ایک وسیع علاقے پر قابض عسکریت پسند تنظیم ’اسلامک اسٹیٹ‘ سے علاقے بازیاب کرانے کا آپریشن شروع کر رکھا ہے۔ اسی آپریشن کے تحت الانبار صوبے کے شہر رمادی کو جہادیوں کے قبضے سے چھڑایا گیا تھا۔