بیسویں صدی کا بغداد اور کرونا کا ہلاکو

Coronavirus

Coronavirus

تحریر : مسز جمشید خاکوانی

ہسٹری ہمیشہ سے میرا پسندیدہ مضمون رہا ہے فطرت میں تجسس ہوتو جاننے کا عمل ہمیشہ جاری رہتا ہے تقریبا ہر دور کی ہسٹری پڑھی یہ اور بات اتنا یاد نہیں رکھ سکی قران مجید پڑھنے بیٹھتی تو اس سے زیادہ ترجمہ پڑھتی یہ بات میں نے بارہا پڑھی کہ بھلا ایک عالم اور جاہل برابر کیسے ہو سکتے ہیں یہ بھی پڑھا کہ کسی عربی کو عجمی پر کسی عجمی کو عربی پر فضیلت نہیں کسی گورے کو کالے پر برتری نہیں لیکن عالم اور جاہل میں فرق اللہ نے خود کیا ہے عالم کا مطلب یہ بھی نہیں کہ آپ باہر سے ڈگری لے کر آئو جب سے جعلی ڈگریاں پیسوں سے ملنے لگی ہیں ڈگری کی بھی ویلیو نہیں رہی لیکن اس بات میں کوئی شبہ نہیں جو لوگ برسوں اپنی محنت سے علم حاصل کرتے ہیں تنگی ترشی سفر کی صعوبتیں برداشت کرتے ہیں وہ صحیح معنوں میں جہاد کرتے ہیں اور جب ان پر جہلا کو ترجیع دی جاتی ہے تو یہ علم کی بھی توہین ہے اور انسانیت کی بھی ،گذرے دس سالوں میں یہ جرم بار بار ہوا ہے جس کی وجہ سے لوگوں نے سنجیدگی سے سوچنا شروع کر دیا تھا کہ پڑھنے سے صرف آنکھیں اور وقت ضائع ہوتا ہے جب جاہل گھر بیٹھے کروڑوں کما لیتے ہیں اور عمر کے بیس سال کتابوں پر خرچ کرنے والے پائی پائی خرچ کرنے کو ترستے ہیں تو ایسی پڑھائی کا کیا فائدہ؟
اس سے جاہل رہنا بہتر ہے حالانکہ جہالت کی اصطلاح عربوں کی تاریخ میں اسلام کی آمد سے قبل کے زمانے کے لیے استعمال کی جاتی ہے یہاں جہالت سے مراد لاعلمی کا زمانہ نہیں ہے نہ ہی علم کی کمی یا تمدن اور ثقافت سے محرومی ہے بلکہ بنیادی طور پر یہ ایک طرز عمل ہے جو نخوت ، انانیت ،تند خوئی اور نامناسب رویوں سے عبارت ہے۔

یہ تند خوئی اور انانیت اس دور کی قبائلی زندگی میں رچی بسی ہوئی تھی جسے مٹا کر اسلام نے ایک نئے انداز فکر کی بنیاد رکھی اگر کسی معمولی بات پر دو آدمیوں میں تکرار ہو جاتی تو یہ قبیلوں کی جنگ بن جاتی اور پورے ملک میں یہ آگ پھیل جاتی کسی بات پر اڑ جاتے تو ٹلتے نہ تھے اور جھگڑا بڑھتا ہی جاتا جنگ بسوس جو بکر اور تغلب نامی دو قبیلوں کے درمیان ہوئی چالیس سال تک جاری رہی چار عشروں پر محیط اس جنگ میں لاکھوں افراد مارے گئے حالانکہ اس جنگ کا آغاذ نہایت ہی معمولی بات پر ہوا تھا۔

بسوس ایک عورت کا نام تھا (تاریخ گوا ہ ہے جھگڑا ہمیشہ زن زر اور زمین پر ہوتا ہے )تو بسوس ایک عورت کا نام تھا جس سے یہ جنگ منسوب ہے اور ایک اونٹنی جس کا نام سراب تھا اس لڑائی کی وجہ ٹہری یہی وجہ ہے کہ یہ دونوں عربوں میں وہ ضرب المثل بن گئیں کسی کی نحوست بتانے کے لیے کہا جاتا ہے یہ بسوس سے بھی زیادہ منحوس ہے یا سراب سے بھی بڑھ کر منحوس بکر بن وائل اور تغلب بن وائل دو بھائی تھے جن کی نسل سے بکر اور تغلب کے عم زاد قبیلے وجود میں آئے تغلب بہت طاقتور قبیلہ تھا اسی لیے کہا جاتا ہے کہ اگر اسلام نہ آتا تو یہ قبیلہ عرب کے باقی قبیلوں کو چٹ کر جاتا (میرا یہاں یہ کہانی لکھنے کا مقصد کیا ہے امید ہے آپ اپنی ذہانت سے سمجھ سکتے ہیں )اس قبیلے کا سردار وائل بن ربیعہ تھا کہتے ہیں اس نے کتے کا ایک پلا پال رکھا تھا اور اسی کتے کے پلے کی نسبت سے وہ ”کلیب بن وائل ”پھر مختصرا کلیب مشہور ہو گیا کلیب کا مطلب چھوٹا پلا ہوتا ہے جہاں تک اس پلے کی آواز جاتی وہ سارا علاقہ اس شخص کے قبضے میں سمجھا جاتا جب وہ کسی شاداب مقام یا کسی ایسے علاقے سے گذرتا جو اسے پسند آجاتا اس پلے کو مارتا اور اس جگہ ڈال دیتا جس کسی کے کان میں میں اس کے چیخنے چلانے کی آواز پڑ جاتی پھر کوئی اس جگہ کے قریب نہ پھٹکتا (یاد رہے دو بھائی پاکستان میں بھی ایسے ہی رہ چکے ہیں جن کا طریقہ کار مختلف ہو سکتا ہے طریقہ واردات یہی رہا ہے )اس شخص کا غرور انتہا کو پہنچا ہوا تھا اس نے اپنے دبدبے کا سکہ جمانے کے لیے الٹی سیدھی باتیں کر کے لوگوں کا ناطقہ بند کیا ہوا تھا کسی بھی علاقے کے جانوروں کو وہ اپنی پناہ میں تصور کر لیتا تو کوئی انہیں شکار نہیں کر سکتا تھا اس کی آگ کے مقابلے میں کسی کو آگ جلانے کی اجازت نہ تھی اس کے اونٹوں کے ساتھ کوئی اپنے اونٹوں کو پانی نہیں پلا سکتا تھا اس کے خیموں کے درمیان سے کوئی گذر نہیں سکتا تھا عرب بے تکلفی کے انداز میں ایک پٹکا اپنی کمر اور پنڈلیوں کے درمیان کس کر بیٹھ جایا کرتے تھے یہ انداز ”احتبا” کہلاتا تھا کلیب کی مجلس میں اس کی اجازت نہ تھی۔

کلیب کی شادی بنوبکر کی ایک عورت جلیلہ بنت مرہ سے ہوئی جس کے نتیجے میں مرہ کے خاندان کو کلیب کی چراہ گاہوں میں اپنے جانور چرانے کی اجازت مل گئی کلیب کا ایک سالا حسان بن مرہ تھا جس کے پاس اس کی خالہ بسوس رہا کرتی تھی اسی کے نام سے یہ جنگ منسوب ہے بسوس کے ہاں قبیلہ جرم کا ایک شخص سعد بن شمیس مہمان ٹھیرا سعد کی ایک اونٹنی سراب جساس کے اونٹوں کے ساتھ کلیب کی چراہگاہوں میں چرنے جانے لگی ایک دن کلیب کی نگاہ اس پر پڑ گئی اس کو یہ اونٹنی اجنبی معلوم ہوئی جساس بھی ہمراہ تھا اس نے وضاحت کی یہ ہمارے جرمی مہمان کی اونٹنی ہے یہ اونٹنی دوبارہ اس چراگاہ میں قدم نہ رکھے کلیب نے خبردار کیا جہاں کہیں میرے اونٹ چرنے جائیں گے یہ ساتھ جائے گی جساس نے کہا اگر یہ دوبارہ نظر آئی تو میرا تیر اس کے باکھ (تھن ) میں ہو گا۔

اگر تمھارا تیر اس کے باکھ میں ہوا تو یقین رکھو میرے نیزے کا بھالا تمھارے سینے میں ہو گا اس تلخ کلامی کے بعد دونوں نے اپنی راہ لی کلیب گھر آیا تو بیوی سے کہا تمھارے خیال میں کوئی شخص ایسا بھی ہو سکتا ہے جو اپنے مہمان کی خاطر مجھ سے الجھے ؟بیوی نے کہا جساس کے علاوہ کوئی نہیں ہو سکتا کلیب نے اسے سارا واقعہ سنایا اس نے کلیب کو سمجھایا کہ معمولی بات پر قرابت داروں کو پارہ پارہ نہ کرے ادھر اپنے بھائی کو سمجھاتی اپنے اونٹ چراہ گاہ میں نہ چھوڑے کلیب ایک دن پھر چراہ گاہ گیا اور اونٹوں کے درمیان اس اونٹنی کو موجود پایا اس نے اپنے قول کے مطابق تیر مار کر اس کا باکھ چھید ڈالا اونٹنی تڑپ کر بھاگی اور ڈکراتی ہوئی سعد کے خیمے کے باہر آ کر بیٹھ گئی سعد نے اس کی یہ حالت دیکھ کر واویلا شروع کر دیا بسوس چیخ و پکار سن کر باہر آئی اور اونٹنی کی حالت دیکھ کر سر پکڑ لیا اور چلائی ”واذلاہ ۔۔(ہائے ذلت ) یہ سب کچھ اس نے جساس کو دکھا سنا کر کیا اس نے جساس کو بھڑکانے کے لیے چند اشعار بھی پڑھے جساس نے نے سعد اور بسوس دونوں کو دلاسہ دیا کہ میں عنقریب اس اونٹنی سے بڑے اونٹ کو ختم کرنے والا ہوں اس کا اشارہ کلیب کی طرف تھا چنانچہ وہ اس کی تاک میں رہا ایک روز جب وہ خیموں سے دور نکل گیا اس نے گھوڑے پر سوار ہو کر اسے جا لیا کلیب رک گیا۔

اس نے کہا کلیب نیزہ تمھاری پشت پر ہے کلیب نے پیچھے مڑ کر دیکھے بغیر کہا اگر ایسا ہے تو میرے سامنے سے ہو کر آئو جساس نے سن کر نیزے کا وار کیا اور اسے گھوڑے سے گرا دیا کلیب نے کہا جساس ایک گھونٹ پانی تو پلا دو لیکن جساس نے اس کی بات نہ سنی اور کلیب نے جان دے دی پھر جساس کی ہدایت پر اس کے ایک ساتھی عمرو بن الحارث نے اس کی لاش پتھروں سے ڈھانپ دی اس کے بعد وہ اس حال میں گھوڑے پر بھاگا کہ اس کے گھٹنے کھل گئے جب خیموں میں پہنچا اس کے باپ نے کہا تو کیا کر کے آیا ہے اس نے کہا میں وائل قبیلے کے مورث اعلی کو مار کے آیا اس کے باپ نے چند اشعار پڑھے جن کا مطلب تو اپنے قبیلے کے لیے کوئی اچھی چیز نہیں لایا تم نے ایک جنگ کی بنیاد رکھ دی ہے حالانکہ تو تنہا اس فعل کا ذمہ دار ہے اس نے جساس کو زنجیروں میں جکڑ کر تغلب کے حوالے کرنے کا ارادہ بھی کیا مگر بسوس کے اشعار کام کر گئے جساس کے ساتھیوں نے ایک اونٹ زبح کر کے اس کے خون پر قسم کھائی یوں اس جنگ کا آغاذ ہوا جو چالیس سال جاری رہی بعض اوقات انانیت جنون میں بدل جاتی ہے اور قوموں کے لیے نقصان کا باعث بنتی ہے اسی جہالت کو ختم کرنے کے لیے اسلام میں رواداری تحمل اور بھائی چارے کا درس دیا گیا لیکن مسلمان یہ کب یاد رکھتے ہیں۔

اس فلسفے کو بھول کر عیش و عشرت کی زندگی کو ہی ترقی سمجھتے ہیں جب سقوط بغداد ہوا اس سے زیادہ ترقی یافتہ خطہ روئے زمین پر نہ تھا دور دور سے لوگ کھچے چلے تے تھے حرف و صنعت کے دریا بہتے تھے لوگوں کے پاس وقت ہی وقت تھا لوگ مجسمے بناتے شاعری کرتے بٹیر لڑتے شطرنج کھیلتے سر شام روشنیا جل جاتیں جھیلوں میں سجی ہوئی کشتیاں چلتیں جن میں امرا بیٹھ کر اپنی خوبصورت محبوبائوں اور لونڈیوں کے ساتھ داد عیش دیتے سونے چاندی کے برتنوں میں کھانے کھائے جاتے علم اور علما کی بھی کمی نہ تھی کتابیں انی تھیں کہ جب ہلاکو نے دریا میں پھینکوائیں دجلہ کا پانی سیاہ پڑ گیا اور جب اس نے مسلمانوں کا قتل عام شروع کیا دجلہ کا پانی سرخ ہو گیا کہتے ہیں ہلاکو لشکر لے کر رہا تھا تب بھی علما یہ بحث کر رہے تھے کوا حلال ہے یا حرام ؟ یہ ضرب المثل بن چکی ہے خلیفہ کے آگے کھانے کے لیے ہیرے جواہرات رکھے گئے اس نے کہا یہ میں کیسے کھا سکتا ہوں ؟تو ہلاکو نے کہا تب یہ جمع کیوں کیے تھے ؟اپنے سپاہیوں کو کیوں نہ دیے جو آج تمھارے لیے لڑتے گویا اس نے ان کو اپنے دفاع سے غافل قوم قرار دیا جو لوگ آج سوال اٹھاتے ہیں کہ ایف سکسٹین کی قیمت میں کتنے وینٹی لیٹر آسکتے تھے حالانکہ ملکی دفاع سب سے مقدم ہوتا ہے۔

حضور صلی اللہ وسلم کی رحلت کے وقت بھی گھر میں کھانے کو کچھ نہ تھا مگر دیوار پر نو تلواریں لٹک رہی تھیں وہ یہ سوال کیوں نہیں کرتے کہ میٹرو اور اورنج لائن ٹرین کی قیمت میں کتنے ہسپتال جدید مشینری سے لیس ہو سکتے تھے کتنے وینٹی لیٹر آسکتے تھے بھارت کے بزنس ٹائیکون مکیش امبانی نے ایک پورا ہسپتال وقف کیا ہے ایک لاکھ ماسک ڈیلی مہیا کر رہا ہے کروڑوں اربوں کی امداد دے رہا ہے جب کہ ہمارے بزنس ٹائیکون دور دور تک نظر نہیں رہے یا خود کو بچا رہے ہیں یا میڈیا کو یا پھر کرونا کے لیے وقف فنڈپر رال ٹپکا رہے ہیں پاکستان بھی بغداد کی طرح بہت ترقی کر چکا تھا نا ؟گو یہ ترقی صرف لاہور تک محدود تھی لیکن ج یہ محلات ،یہ زیورات یہ پلاٹ زمینیں جائیدادیں برانڈڈ لباس سب ہمارے لیے بیکار ہیں ہمیں تو یہ بھی نہیں پتہ دفن کے لیے دو گز زمین بھی میسر ہوگی یا نہیں کرونا ایک ہلاکو کی طرح ہمارے عیش و عشرت اور ترقی پر ٹوٹ پڑا ہے اور ہمیں کہیں جائے امان نہیں مل رہی نہ امیر کو دیکھتا ہے نہ غریب کو نہ گورے کو نہ کالے کو نہ پڑھے لکھے کو نہ جاہل کو یہ عجب تماشہ ہے کہ ہم اپنے گھروں میں قید ہیں لاکھوں روپے فیس لینے والے پرائیویٹ سکول جو اپنی فیس گھٹانے پر تیار نہیں تھے اب بند پڑے ہیں ملیں فیکٹریا جن میں فرعون بیٹھا کرتے تھے اب اپنے ہاتھوں بند کر کے نقصان اٹھا رہے ہین مگر بے بس ہیں۔

پاکستان کے پاسپورٹ کو حقارت کی نظر سے دیکھنے والے ترقی یافتہ ممالک آج انہی پاکستانیوں کے شکر گذار ہیں جو انہی کے ملکوں میں انہی کے شہریوں کو اپنی جان خطرے میں ڈال کر امداد مہیا کر رہے ہیں کیونکہ مسلمان موت سے نہیں ڈرتا نون لیگ اور پیپلز پارٹی لاکھ ڈرامے کر لے حقیقت یہ ہے کہ سندھ حکومت اپنے غریب شہریوں کو ابھی تک راشن تک نہیں پہنچا سکی نہ کوئی طبی سامان مہیا کیا گیا ٹیسٹنگ کٹس کے نام پر جو ڈرامہ میڈیا کی مدد سے رچایا گیا وہ خود ان کے گلے میں فٹ ہونے والا ہے سندھ نے لاک ڈائون کیوں کیا صرف مرکزی حکومت کو دبائو میں لانے کے لیے یہ لاک ڈائون سندھ کے دیہی علاقوں میں تو ہو ہی نہیں سکتا عمران خان نے اس لیے مکمل لاک ڈائون کی مخالفت کی ہے یہ جزوی لاک ڈائون بہتر ہے چلو لاک ڈائون ہو جاتا ہے تو ہو گا کیا ساری فیکٹریاں بند جو مال فیکٹریوں میں تیار ہوتا ہے پورے ملک کو جاتا ہے ریفائینز بند تو پورے ملک کو تیل کی سپلائی معطل ہو جائے گی خوراک کی قلت ہو جائے گی ڈبوں کا دودھ اجناس دالیں چاول آٹا اور دوسری ضروری چیزیں سب کی قلت ہو جائے گی جب سامان خوردنوش کی قلت ہو گی تو لوگ کرفیو توڑ کر حکومت کے خلاف باہر آ جائیں گے معیشت بیٹھ جائے گی درامدات اور برامدات ختم ہو جائیں گی اور یوں حکومت خود مجبور ہو جائے گی گھر چلی جائے اور پھر سیاست شروع ہو گی جو ہو رہی ہے خدا کے لیے عمران خان کرفیو مت لگانا جو سیاستدان اور میڈیا پرسن کرفیو کرفیو کر رہے ہیں یہ کرفیو یہ خود پر کیوں نہیں لگاتے نہ نکلیں باہر انکی ضرورت کس کو ہے۔

یہ قوم کی بھلا کیا مدد کر رہے ہیں وہ ملک ریاض جو ہر پرابلم میں آگے ہوتا تھا اب کہاں ہے اس لیے کہ اب بدلے میں دس گنا زیادہ ملنے کی امید نہیں ۔الیکشن کے دنوں میں کروڑوں صرف اپنے بوتھوں اور جھنڈیوں پر لگانے والے آج ایک پیسہ قوم پر لگانے کو تیار نہیں اپنے کسی حلقے میں لوگوں کو خالی دلاسہ تک دینے نہیں گئے کم از کم راشن تو عام سفید پوش دمی بھی بانٹ دیتا ہے ایک سندھی وڈیرہ اپنے ملازم کو لائف بوائے کی ایک ٹکیہ دے کر بھی تصویر بنوا رہا تھا یہ تو حال ہیں ان کے اور مطالبہ ہے بس کرفیو لگا دو تاکہ ساٹھ فیصد دیہاڑی دار طبقہ بھوکوں مر جائے انڈسٹری جس کو حکومت نے بڑی مشکل سے کھڑا کیا ہے دوبارہ بیٹھ جائے یہ ملک کے مفاد کا نہیں سوچ رہے ان کے پیٹ میں مروڑصرف کرفیو کا ہے ابھی کرونا سے صرف چند لوگ مرے ہیں اگر سعید غنی ٹھیک ہو سکتا ہے تو اسی دوا سی دوا سے عوام کیوں نہیں ٹھیک ہو سکتی؟تھر میں سینکڑوں بچے بھوک سے مر گئے سندھ حکومت کے کان پر جوں تک نہیں رینگی اب بیرونی امداد بٹورنے کے لیے بڑا عوام کا درد اٹھ رہا ہے کچھ خدا کا خوف کرو ،اب ٹائیگر فورس پر بھی اعتراض ہے فوج بھی الگ رہے بس سارے فنڈ ان کے ہاتھ پر رکھ دو یہ کھائیں ریکارڈ کو آگ لگائیں اور باہر جا بیٹھیں ،بخشو بی بلی چوہا لنڈوروا ہی بھلا !

Mrs Khakwani

Mrs Khakwani

تحریر : مسز جمشید خاکوانی