بغداد میں ایرانی جنرل قاسم سلیمانی کی ہلاکت نے بہت سے سوالات اٹھا دئے ہیں۔پورا خطہ جنگ کا ماحول پیش کر رہا ہے۔کھچائو میں حیرت انگیزاضافہ ہو رہاہے ۔دنیا کی دو بڑی اقوام ایک دوسرے کے مدِ مقابل کھڑی ہو چکی ہیں۔ یوکرائن کے طیارہ کو میزائل سے نشانہ بنانے کے بعد ایرانی قیادت سخت دبائو میں ہے۔اپوزیشن اور مشتعل عوام ایران کے سپریم کمانڈر آئیت اللہ خامنی کے استعفے کا مطالبہ کررہے ہیں۔ ایرانی معیشت پابندیوں کی زد میں ہے جس سے اس کی معیشت روبہ زوال ہے۔عوام کی معاشی حالت دن بدن پتلی ہوتی جا رہی ہے ۔ انھیں اس دبائو سے نکلنے کا کوئی راستہ نظر نہیں آ رہا۔امریکی دشمنی سے عوام کا پیٹ تو بھرا نہیں جا سکتا لہذا امریکی دشمنی کا مفروضہ بھی طویل عرصہ تک عوام کو بیوقوف بنانے کے کام نہیں آ سکتا۔ایران جب تک امریکی تنائو کے سائے میں رہے گا اس کی معاشی حالت ایسی ہی رہے گی۔یہ سچ ہے کہ اہران کے پاس تیل کی دولت ہے لہذا وہ امریکی دشمنی کے باوجود بھی معاشی دگرگونی سے کسی حد تک سنبھل سکتا ہے۔
تیل پر پابندیوں نے عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتوں کو متاثر کیا ہے جس سے ایرانی معیشت بھی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتی۔اسے کوئی طویل المدتی منصوبہ بندی کرنی ہو گی تا کہ عوام کی معاشی حالت میں بہتری پیدا کی جا سکے۔امریکہ چونک اس دنیا کی سپر پاور ہے لہذا امریکی حواری امریکہ کی ہاں میں ہاں ملاتے رہتے ہیں۔یورپی اقوام،بھارت،سعودی عرب،اسٹریلیا،جاپان،نیوزی لینڈ،سائوتھ افریقہ، نیٹو ممالک، پاکستان اور خلیجی ریاستیں امریکی اثر کے زیرِ اثر ہونے کے باعث اس کے شانہ بشانہ کھڑا رہنے میں اپنی عا فیت گردانتے ہیں۔ ان ممالک کے مفادات انھیں امریکی کیمپ میں دھکیلتے رہتے ہیں۔پاکستان چین کا ا نتہائی اہم دوست ہے لیکن اس کے باوجود اس کے لئے امریکی دشمنی کا خطرہ مول لینے کا کہیں گمان نہیں کیا جا سکتا۔کشمیر پر امریکی ثالثی کا ڈرامہ بھی پاکستان کو اپنے زیر، اثر لانے کا ایک حر بہ ہے۔،۔
پاکستان اپنے جغرافیائی محلِ وقو ع کے لحاظ سے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ وہ مشرق و مغرب کے سنگم پر کھڑا ہے، اسے تیل سے مالا مال خلیجی ریاستوں کے لئے آہنی دیوار تصور کیا جا تا ہے،وہ اسلامی دنیا کی واحد ایٹمی قوت ہے لہذا اسلامی دنیا اسے اپنے لئے ایک پناہ گاہ تصو کرتی ہے ۔ایٹمی صلاحیت کے حصول میں خلیجی ممالک نے جس طرح پاکستان کی امداد کی تھی وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ۔شاہ فیسل شہید،شیخ زائد بن سلطان النہیان ،کرنل معمر قضافی اور پھر حافظ الاسد نے جس طرح دامِ درمِ سخنے پاکستان کا ساتھ دیا وہ سب پر روزِ روشن کی طرح عیاں ہے۔پاکستان کو ایک طرف افغانستان میں دہشت گردی کے طوفان کو روکنا ہے ،اسے ایک جانب ایران امریکہ پرخاش کو سمجھنا ہے،اسے ایک طرف کشمیر کی آزادی کی جدو جہد کو توانائی عطا کرنی ہے،اسے ایک طرف بھارتی نسل پرستی کے جنون کولگام دینی ہے،اسے ایک طرف بھارتی توسیع پسندی کو روکنا ہے اور اسے ایک طرف سعودی ایران مخاصمت میں اپنا دامن بچانا ہے۔
عمران خان عالمی مسائل میں غیر جانبداررہنے کا اعلان تو کرتے رہتے ہیں لیکن عملی طور پر وہ امریکی پالیسیوں سے رو گردانی نہیں کرتے۔امریکی صدر ڈولنڈ ٹرمپ سے ان کی حالیہ ملاقاتیں اسی جانب اشارہ کرتی ہیں۔عمران خان کو یقین ہے کہ امریکی دوستی سے خطہ کو امن کا گہوارہ بنایا جا سکتا ہے۔وہ اس سلسلے میں ایران امریکی مخاصمت کی شدت کو کم کرنے کا عزم اپنائے ہوئے ہیں ۔انھیں یقین ہے کہ ان کی کوششوں سے ایران امریکی مخاصمت میں کمی آئے گی۔وہ ان دونوں ممالک میں ثالثی کا جھنڈا اٹھائے ہوئے ہیں۔ ان کی ثالثی کی کوششیں ثمر بار ہو تی ہیں یا کہ نہیں یہ ایک الگ کہانی ہے لیکن اس سے پاکستان کے عزائم کو سمجھا جا سکتا ہے۔
ایران سعودی تعلقات صدیوں سے بگاڑ کا شکار ہیں۔عرب و عجم کی تقسیم اپنی جگہ تاریخی اہمیت کی حامل ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ علاقہ میں اپنی برتری کا خوا ب ایک ایسی حقیقت ہے جو ان دونوں ممالک کو ایک دوسرے کے قریب نہیں آنے دیتا ۔ علاقائی بالادستی کے عنصر کو اگر وقتی طور پر فراموش بھی کر دیا جائے تو پھر بھی ان ممالک کی مذہبی سوچ،معاشی فلسفہ اور فرقہ بندی ایک دوسرے سے دوریوں کو ہوا دیتی ہیں ۔ پاکستان دل سے یہ چاہتا ہے کہ اسلامی دنیا کے یہ دو اہم ممالک ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے ہو کر مسلم امہ کی قوت میں اضافہ کا موجب بنیں لیکن ایسے شواہد نظر نہیں آتے۔زمینی حقائق کے آئینے میں ان کی باہمی رفاقت کی بجائے دونوں ممالک کا ایک دوسرے کوبچھاڑنا ہی مطمہِ نظر بن کر حا لات کی سنگینی میں اضافہ کرتا رہتا ہے۔صدیوں کی بد اعتمادی کو چشمِ زدن میں دوستی میں نہیں بدلا ا سکتا۔
ایرانی قیادت نے اپنے جنرل قاسم سلیمانی کی ہلاکت پر جس بدلے کا اعلان کیا تھا اپنے جنرل کی تدفین سے قبل امریکی ائر بیس پر حملہ کر کے عوامی جذبات کو ٹھنڈا ضرور کیا لیکن اس بات کا کیا کیا جائے کہ حملہ سے قبل خود امریکہ بہادر کو مطلع کر دیا کہ آپ عراقی ائیر بیس کو خالی کر دیں کیونکہ ہم اس پر میزائلوں سے حملہ آور ہونے جا رہے ہیں جس سے آپ کا جانی اور مالی نقصان ہونے کا احتمال ہو سکتا ہے ۔ ہم پر عوامی دبائو ہے اور اس کا ایک ہی راستہ ہے کہ مشتعل عوام کو ٹھنڈا کرنے کے لئے ایک نام نہاد حملہ کیا جائے۔ ایرانی عوام کا غم و غصہ اور اضطراب امریکہ کے خلاف ہے لہذا امریکہ کو ہمارے میزائل حملہ پر ردِ عمل دینے سے گزیز کرنا ہو گا ۔اگر ایران قاسم سلیمانی کی ہلاکت پر خاموش رہتا ہے تو پھر دہشت گردی کا جو طوفان ابھرے گا اس میں سرا سر امریکہ کا نقصان ہو گا لہذا ایرانی حملہ کو امریکی مفاد کا ایک شاخسانہ سمجھنا چائیے۔
ایرانی حملہ سے عوام مطمئن ہو جائیں گے اور یوں حکومت ان کے دبائو سے آزاد ہو کر بہتر فیصلے کر سکے گی۔اگرہم نے جوابی حملہ نہ کیا تو ایرانی حکومت پر سخت اقدامات اٹھانے کا دبائو ہو گا جس سے ایرانی حکومت پس و پیش نہیں کر سکے گی اور اس میں ہم دونوں کانقصان ہو گا۔امریکہ کی سلامتی اسی میں ہے کہ ہمارے اس چھوٹے سے نمائشی اقدام پر سیخ پا ہونے کی بجائے اسے برداشت کرلیا جائے ۔ یہ امریکی خوشنودی کی ایرانی کوشش تھی جس کے مثبت نتائج بر آمد ہوئے۔سچ تو یہ ہے اس وقت ایرانی حکومت امریکی دشمنی کی متحمل نہیں ہوسکتی ۔اس کی معیشت ،اس کی تجارت،اس کی اکانومی،معیشت،تجارت اور اس کی جنگی قوت امریکہ سے جنگ کا بوجھ نہیں اٹھا سکتی ۔آگ کے شعلے بھڑکنے کے لئے بے تاب ہیں ،یہ خطہ جنگ کی لپیٹ میں آنے کیلئے بے قرار ہے،آگ ا ورخون کا دریا بہنے کے لئے مچل رہا ہے،جنگی جنون نوشتہ دیوار ہے، عوام کا غم و غصہ جنگی جنون کو مہمیز دے رہا ہے۔
اس ابرآلود ما حول میں پاکستان کو ہر حا ل میں امن کا جھندا بلند کرنا ہے اور جنگ کے ان چھائے ہوئے بادلوں میں امن کا راگ الاپنا ہے ،اسے ایران اور امریکہ کے درمیان امن کی اہمیت کو اجاگر کرنا ہے اور اسے ایران اور امریکہ کو مشتعل ہونے سے روکنا ہے ۔ پاکستان اگر چہ کوئی سپر پاور نہیں ہے لیکن جنوبی ایشیا کا ایٹمی ملک ہونے کی حیثیت سے پاکستان اپنا خاص مقام رکھتا ہے۔اسے اپنے اس مقام کا ادراک ہو نا چائیے۔وہ کوئی ثالث بننے کی پوزیشن میں تو نہیں ہے لیکن مشتعل جذبات کو ٹھنڈا کرنے میں ایک کردار ضرور ادا کر سکتا ہے ۔اس کا یہی کردار اس کی کامیابی کی کلید بن سکتا ہے۔اسے اپنے اس کردار سے کسی حال میں بھی دست کش نہیں ہونا کیونکہ ایسا ہونے کی صورت میں پورا خطہ آگ کے شعلوں کی لپیٹ میں آ جائے گا جس کا خمیازہ پاکستان کو بھی بھگتنا پڑسکتا ہے۔
Tariq Hussain Butt Shan
تحریر : طارق حسین بٹ شان (چیرمین) مجلسِ قلندرانِ اقبال