بغداد (جیوڈیسک) نئی عراقی پارلیمنٹ کا پہلا اجلاس اُس وقت بد نظمی کا شکار ہوگیا جب اراکین اسمبلی سنی عسکریت پسندوں کے حملوں کے خلاف نئی حکومت کی تشکیل کے بجائے دھمکیاں دیتے ہوئے اجلاس سے واک آؤٹ کر گئے۔
اراکین کاغصہ ٹھنڈا ہونے کے بعد کچھ سنی اور کرد اراکین نے اجلاس میں شرکت کرنے سے انکار کر دیا چنانچہ کورم پورا نہ ہونے کے باعث اسمبلی کے اسپیکر کا انتخاب نہ ہو سکا۔ یوں اسمبلی کا پہلا اجلاس انتہائی انتشار کا شکار رہا۔
تیسری مدت کے لیے منتخب ہونے والے عراقی وزیراعظم نوری المالکی کی حکومت کو اسلامی شدت پسندوں کی طرف سے خطرہ لاحق ہے، جنہوں نے پانچ عراقی صوبوں کے بڑے حصوں پر قبضہ کر لیا ہے، جس سے فرقہ واریت اور اجارہ داری کی طاقت کو مزید ہوا ملی ہے۔
کرد قانون ساز نجیبہ نجیب نے اسپیکر کے انتخاب کے دوران اجلاس میں رکاوٹ پیدا کی اور حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ ناکہ بندی ختم کرے اور عراق میں موجود کردوں کے خود مختار علاقے کے لیے فنڈز جاری کرے۔
نوری المالکی کی حکومت میں شامل شیعہ رکن خادم السیدی نے خبردار کیا ہے کہ خود مختار کردوں کا سر کچل دیا جائے گا، جن کے رہنما مسعود بارزانی نے بی بی سی کو ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ وہ کچھ ہی مہینوں میں اپنی آزادی کے لیے ایک ریفرنڈم کرانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ پارلیمنٹ کے اجلاس کے دوران کچھ سنی اراکینِ اسملبی نے بھی اسلامک اسٹیٹ آف عراق اور الشام (آئی ایس آئی ایس ) کا نام جہادی گروپوں میں لیے جانے پر اجلاس سے واک آؤٹ کیا۔
پریزائڈنگ رکن پارلیمنٹ مہدی حفیظ نے کہا کہ اجلاس آٹھ جولائی کو دوبارہ بلایا جائے گا۔ عراقی پارلیمنٹ کی متفقہ رائے سے وزیراعظم کا انتخاب شیعہ عرب جبکہ اسپیکر کا انتخاب سنی عرب اراکین میں سے کیا جاتا ہے۔ صدر کا عہدہ کردوں کے پاس ہے۔ ہزاروں افراد کے بے گھر ہو جانے اور عراق کے شیعہ، سنی اور کرد آبادی کی اپنی اپنی اجارہ داری قائم کرنے کے مسئلے پر عالمی رہنما سخت تحفظات کا شکار ہیں۔