بغداد (اصل میڈیا ڈیسک) عراق کے دارالحکومت بغداد میں سکیورٹی فورسز کی فائرنگ سے مزید چھ مظاہرین ہلاک اور 80 سے زیادہ زخمی ہوگئے ہیں۔
اطلاعات کے مطابق سیکڑوں عراقی تحریر اسکوائر کے نزدیک حکومت مخالف احتجاجی مظاہرے میں شریک تھے۔ سکیورٹی فورسز نے انھیں وہاں سے ہٹانے کے لیے براہ راست فائرنگ کی اور اشک آور گیس کے گولے پھینکے ہیں۔
طبی اور پولیس ذرائع کے مطابق مرنے والے دو مظاہرین کو گولیاں لگی تھیں اور ایک کے سرکی کھوپڑی میں اشک آور گیس کا گولہ لگا تھا جس سے اس کی موت واقع ہوگئی ہے۔
بغداد میں تشدد کے ان واقعات سے قبل عراقی وزیراعظم عادل عبدالمہدی نے کہا ہے کہ حکومت اور عدلیہ مظاہرین کی ہلاکتوں کی تحقیقات جاری رکھیں گی اور تمام زیر حراست افراد کو رہا کردیا جائے گا۔انھوں نے آیندہ چند روز میں نئی انتخابی اصلاحات کا بھی وعدہ کیا ہے۔
عراق کے سرکردہ شیعہ عالم دین آیت اللہ علی السیستانی نے گذشتہ روز سکیورٹی فورسز پر زوردیا تھا کہ مظاہروں کے دوران میں عدم تشدد کو یقینی بنائیں اور یہ اب ان پر منحصر ہے کہ مظاہرے تشدد کا رُخ اختیار نہ کریں۔ انھوں نے حکومت پر زوردیا تھا کہ وہ جلد سے جلد مظاہرین کے مطالبات کو تسلیم کرنے پر غور کرے۔
ان کے ایک نمایندے نے کربلا میں جمعہ کے اجتماع پر خطبے میں کہا کہ ’’اب سب سے بڑی ذمے داری سکیورٹی فورسز پر عاید ہوتی ہے۔‘‘
دریں اثناء العربیہ کے نمایندے نے یہ اطلاع دی ہے کہ عراق بھر میں انٹرنیٹ تک رسائی بند کردی گئی ہے۔عراقی حکام نے پہلے بھی احتجاجی مظاہروں کے پیش نظر مختلف شہروں میں انٹرنیٹ کو بند کردیا تھا۔