تحریر : واجد علی دور حاضر میں مادہ پرستی کے عروج اور اخلاقی قدروں کے زوال سے انکار کسی صورت ممکن نہیں۔ہمارے ہاں دوسروں سے توقعات وابستہ کرنا تو لازم ٹھہرا،مگر کسی کی اہلیت، قابلیت اور صلاحیت کو قبول کرنا ناپید ہوتا جا رہا ہے۔اگرچہ کچھ سرکاری اور نجی ادارے فنون لطیفہ، ثقافت اور ادب کے فروغ کے لیے پیش پیش ہیں مگر ان کی یہ پیش قدمی صرف صاحب ثروت اور صاحب مسند افراد تک محدود ہو کر رہ گئی ہے۔بہاولپور پریس کلب نے روائتی ڈگر سے ہٹ کر ایک انتہائی قابل ستائش عمل شروع کر دیا ہے۔ خاص طور پر تقریبات” شان صحافت”پر بہاولپور پریس کلب کے صدر جنید نذیر ناز اور تمام ممبران مبارک باد اور تحسین و تہنیت کے حق دار ہیں۔ ان تقریبات کی خاص بات یہ ہے کہ شان صحافت ایورڈ کو صحافت کی بڑی شخصیات کے نام سے منسوب گیا ہے دوسری جانب ان قلم کاروں کی حوصلہ افزائی اور فن کا اعتراف کیا جا رہا ہے جو واقعی اس کے حق دار ہیں۔گذشتہ دنوں میرے استاد سینئر صحافی اور کالم نگار تنویر حسن کے اعزازتقریب منعقد کی گئی۔ا س سے قبل ناصر حسنی کو خراج تحسین پیش کیا گیا اور شان صحافت ایوارڈ سے نوازا گیا۔میں دونوں تقریبات میں مدعو تھا مگر مصروفیت کے باعث تنویر حسن کی تقریب پذیرائی میں شرکت کر پایا۔
تنویر حسن کی پرخلوص اور بے لوث سرپرستی اور راہنمائی نے ہمیں صحافت کی پر خار وادیوں اور خصوصاً کالم نگاری کی جانب راغب کیا۔ ہمیںیاد ہے یہ غالباً سال 2018 کے جاڑے کی شام تھی۔ ہم خبری اقتدار سے مکمل طور پر نابلد ہونے کے باوجود قلم کاری اور کالم نگاری کے شوق و جنون میں مبتلا ہو چکے تھے۔ کوئی سینئر صحافی ہمارا واقف کار نہ تھا جو سعی لا حاصل سے باز رکھنے کی نصیحت کرتا۔ ایک جنون سا طاری تھا جو کسی صورت قابو میں نہیں رہا تھا۔آخر کار اپنے شوق، جنون اور تخریبی جذبے کے آگے ہتھیار ڈالنے پڑے اور ہم پوری قوت ایمانی کو جمع کر کے روزنامہ سیادت بہاولپور کے روح رواں ہمایوں گلزار کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ان سے ہماری ملاقات 1منٹ اور چند سیکنڈز کی رہی۔ انہوں نے میرے سلام کا مختصر بحر میں جواب دیتے ہوئے کل آنے کا کہا۔میں خجل خجل سا واپس لوٹ آیا۔ اگلے دن ہمحسب حکم ہمایوں گلزار کے دفتر میں موجود تھے۔ انہوں نے ہمیںیوں حیرانی سے دیکھا جیسے ہم کسی اور سیارے کی مخلوق ہوں۔ہم مدعا بیان کیا تو فرمایاکہ آپ کل شام سے آ سکتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ہمارے اخبار کی ادارت تنویر حسن کے ذمہ ہے،وہ بہت قابل صحافی اور کالم نگار ہیں، آپ ان سے میرے حوالے سے مل لیں لیکن آپ کو ہر روز شام5بجے سے10بجے تک اخبار کے دفتر آنا ہو گا۔ میں نے رضامندی ظاہر کی تو انہوں خوش خبری سنائی کہ اتوار کو اخبار کی چھٹی ہوتی ہے۔
اگلے دن ہماری تنویر حسن سے ملاقات ہو گئی ۔ہمایوں گلزار غالباً ان سے میرا ذکر کر چکے تھے۔ انہوں بغورہمیں دیکھا اور کہا تشریف رکھیں۔پھر تین ہفتوں تک تنویرحسن سے ہمارا تعلق سلام دعا تک محدود رہا۔ البتہ ہم اپنے مقررہ اوقات میں اخبار کے دفتر پائے جاتے تھے۔چوتھے ہفتے انہیں ہماری مظلومیت کا احساس ہوا،انہوں نے ہمیں موسم پر خبر بنانے کے لیے دی۔ہم نے انتہائی ماہرانہ صلاحیتوں کا مظاہرہ کرتے ہوئے طویل وقت لگا کر انتہائی مختصر سی خبر تخلیق کر دی۔ ہم اپنی نے تخلیق کردہ خبر ان کی خدمت میں پیش کی،انہوں پڑھ کر اسے ردی کی ٹوکری میں ڈال دیا اور فرمایا یہی خبر دوبارہ لکھیں۔یہ عمل کم و بیش آٹھ مرتبہ ہوا۔ آٹھویں خبر کو شرف قبولیت بخشا گیا اور اس کی نوک پلک درست کر کے اسے اخبار کا حصہ بنایا گیا۔اس خبر کے بعد تنویر حسن ہمارے استاد ہوئے اور ہمیں خبر،مضمون،کالم اور رپورٹ نگاری بارے باقاعدہ بتانا اور سمجھانا شروع کیا ۔ہمارے لیے یہ بات کسی اعزاز سے کم نہیں کہ تنویر حسن ہمارے استاد ہیں۔
بات ہو رہی تھی بہاولپور پریس کلب کے زیر اہتمام شان صحافت ایوراڈ کی۔بہاولپور پریس کلب کے اسٹیج پر ایک بڑا پینا فلیکس آویزاں تھا جس پر مقررین کے ناموں کے علاوہ سینئر صحافی اور کالم نویس تنویر حسن کی تصویر نمایاں تھی۔ وہ بہاولپور کی معروف سیاسی شخصیت و کالم نگار ملک حبیب اللہ بھٹہ،نامور شاعر،صحافی اور پارلیمنٹیرین سید تابش الوری کے درمیان تشریف فرما تھے۔تقریب کی میزبانی کی ذمہ داری عمران بھنڈر نے انجام دی جبکہ مقررین میں سینئر صحافی اکرم ناصر، معروف شاعر ڈاکٹر جمشید شوکت،اسٹیشن ڈائریکٹر ریڈیو پاکستان طارق شاہ،سمیرا ملک شامل تھے جبکہ ملک حبیب اللہ بھٹی ، سید تابش الوری اور تنویر حسن نے بھی تقریب سے خطاب کیا۔تقریب میں بیوروچیف روزنامہ پاکستان نصیر احمد ناصر ،کالم نگار انور گریوال،مختار انجم،ایاز قریشی، چیف ایڈیٹر پندرہ روزہ حقیقت سعید احمد،سہیل پاشی،اکمل چوہان،چوہدری مرتضیٰ،خالد سردار، سمیرادانش،اکرم ناصر،جاوید چوہدری،عمران بھنڈ، احمد علی بلوچ اور دیگر کو اعزازی شیلڈ پیش کی گئی۔
ویسے تو وطن عزیز میں کالم کی کئی جہتیںروشناس ہو چکی ہیں ۔جابجا لطائف ،چٹکلے، محاورات اور ضرب الامثال سے ایک لذیذ مرکب تیار کیا جاتا ہے جسے کالم کا نام دے دیا جاتا ہے۔ہمارے ہاں کالم نگاری میں یہ مقبول ترین روش ہے جسے فخر سے لکھا اور پڑھا جاتا ہے مگرتنویر حسن کا شمار ان ایسے کالم کاروں میں ہوتا ہے جو مقبول عام روش سے ہٹ کر ادبی اور تخلیقی سطح پر خبر،شخصیت اور فکری رجحانات کا جائزہ لیتے ہیں اور یہی وہ انداز نگارش ہے جو کالم نگاری کے حقیقی خال و خدمتعین کرتا ہے اور کالم نگاروں کو ان کے منصب سے آشنا کرتا ہے لیکن ایسے کالم نگاروں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے۔
خدا کرے تنویر حسن کی قلم کی توانائی اور بڑھے اور مستقبل میں وہ اور زیادہ تابناک مستقبل کے مالک ہوں ۔ابن دعا از من واز جملہ جہاں آمین باد۔
آئینہ کیوں نہ دوں کہ تماشا کہیں جسے ایسا کہاں سے لاؤں کہ تجھ سا کہیں جسے