تحریر : راشد علی راشد اعوان کہتے ہیں کہ اورنگ زیب عالمگیر کے پاس ایک بہروپیا آتا تھا’ جو آئے روزوہ مختلف روپ بدل کر آتا مگر اورنگ زیب اس کو پہچان لیتا اور وہ فوراً کہہ دیتے کہ تو فلاں ہے میں جانتا ہوں۔ وہ ناکام رہتا، پھر دوسرا بھیس بدل کرآتا پھر وہ پہچان لیتا، بہروپیا عاجز آگیا، آخر میں کچھ دنوں تک خاموشی رہی، ایک عرصہ تک وہ بادشاہ کے سامنے نہیں آیا، سال دو سال کے بعد شہر میں یہ افواہ گرم ہوئی کہ کوئی بزرگ آئے ہوئے ہیں چلہ کھینچے ہوئے ہیں بہت مشکل سے لوگوں سے ملتے ہیں۔
بادشاہ حضرت مجدد الف ثانی رحمة اللہ تعالیٰ کی تحریک کے مکتب کے پروردہ تھے، اور ان کو اتباع سنت کا خاص اہتمام تھا،وہ اتنی جلدی کسی کے معتقد ہونے والے نہیں تھے، انہوں نے اس کا کوئی نوٹس نہ لیا، ان کے اراکین دربار نے کئی بار عرض کیا کبھی جہاں پناہ بھی تشریف لے چلیں اور بزرگ کی زیارت کریں اور ان کی دعا لیں، انہوں نے ٹال دیا دو چار مرتبہ کہنے کے بعد بادشاہ نے فرمایا کہ اچھا بھئی چلو کیا حرج ہے’ اگر خدا کا کوئی مخلص بندہ ہے اورخلوت گزیں ہے تو اس کی زیارت سے فائدہ ہی ہو گا’ بادشاہ تشریف لے گئے اور دعا کی درخواست کی اور ہدیہ پیش کیا، درویش نے ہدیہ لینے سے معذرت کی، بادشاہ وہاں سے رخصت ہوئے تو درویش کھڑے ہوگئے اور آداب بجا لائے’ فرشی سلام کیا اور کہا کہ جہاں پناہ! مجھے نہیں پہچان سکے، میں وہی بہروپیا ہوں جو کئی بار آیا اور سرکار پر میری قلعی کھل گئی’ بادشاہ نے اقرار کیا’ کہا بھائی بات تو ٹھیک ہے’ میں اب کے نہیں پہچان سکا لیکن یہ بتائو کہ میں نے جب تمہیں اتنی بڑی رقم پیش کی جس کیلئے تم یہ سب کمالات دکھاتے تھے، تو تم نے کیوں نہیں قبول کی؟؟ اس نے کہا سرکار میں نے جن کا بھیس بدلا تھا ان کا یہ شیوہ نہیں، جب میں ان کے نام پر بیٹھا اور میں نے ان کا کردار ادا کرنے کا بیڑا اٹھایا تو پھر مجھے شرم آئی کہ میں جن کی نقل کررہا ہوں’ ان کا یہ طرز نہیں کہ وہ بادشاہ کی رقم قبول کریں، اس لیے میں نے نہیں قبول کیا۔
اس واقعہ سے دل و دماغ کو ایک چوٹ لگتی ہے کہ ایک بہروپیا یہ کہہ سکتا ہے’ تو صاحب دعوت انبیاء علیہم السلام کی دعوت قبول کرکے ان کا مزاج اختیار نہ کریں، یہ بڑے ستم کی بات ہے۔ کچھ برس پہلے تک مداری بندروں کو لے کر گلی گلی تماشا دکھاتے تھے یا شاید اب بھی کہیں نہ کہیں وہ کرتب دکھانے گلیوں میں گھومتے پھرتے ہونگیں،ان ہی مداریوں کے سدھائے ہوئے بندر طرح طرح کے بہروپ بنا کر تماشائیوں کا دل لبھاتے، یہ بہروپیئے زندگی کے ہر شعبے میں بھی پائے جاتے ہیں اور ان کی تاریخ بھی بنی نوع انسان کی تاریخ کے ابتدائی زمانوں سے جا ملتی ہے۔ مختلف زبانوں کے ادب میں بھی ان کا تذکرہ جابجا ملتا ہے، صاحب طرز کہانی کار غلام عباس صاحب نے بھی اس عنوان سے ایک افسانہ لکھا تھا جس میں ایک ایسے بہروپیے کا ذکر تھا جو کچھ دیر کے لیے کوئی بہروپ بھر کر ایک سوانگ رچاتا تھا اور پھر اپنے اس ہنر کی داد ستائش کے جملوں اور تماشائیوں کے حسب توفیق دیے گئے سکوں سے پاتا تھا، اگر یہ بات یہیں تک رہتی تو خیریت تھی مگر ہوا یوں کہ یار لوگوں نے اسے ایک مستقل پیشہ اور طرز حیات بنا لیا اور نسل در نسل اپنا یہ غیر شفاف اثاثہ آئندگان کو منتقل کرنے لگے،یہ بادشاہتیں، مذہب کے نام پر قائم گدیاں اور دور حاضر کے سیاسی خانوادے، مستثنیات سے قطع نظر، اسی ڈرامے کے مختلف سین ہیں۔
یہ بات تو سمجھ میں آتی ہے کہ کسی بہادر جنگجو یا طالع آزما نے اپنی ذاتی غیر معمولی صلاحیتوں کی بنیاد پر ایک سلطنت قائم کر لی مگر اس کی اولاد میں اس ”روپ” کی خوبیاں عام طور پر دیکھی نہیں گئیں سو یہ اس کے ”بہروپ” سے اس وقت تک کام چلاتی رہی جب تک ان کے مورثِ اعلیٰ جیسا کوئی دوسرا کہیں سے ظاہر نہ ہو گیا۔نام بدلنے یا اپنے پیشورو جیسا نام رکھ کے آگے پیچھے بھٹو لکھ لینا،میاں کی گردان میں خود کو میاں کہلوانا،ایسے ہی ایک مثال مجھے یاد آئی کہ ایک مانسہرہ کے صاحب بہادر ہیں جو کسی زمانے میں سواتی،پھر سردار اور اب اعوان کا لاحقہ و سابقہ استعمال کرتے ہیں، لیکن اس وقت میں جن بہروپیوں کا میں ذکر کرنا چاہ رہا ہوں ان کے بارے میں ریمنڈ ڈیوس کی کتاب The Controcater میں تفصیل سے کیا گیا ہے جسمیں ان کا ہمارے ہاں کی صحافت ،سیاست اور سماج کو وہ رگڑا دیا گیا ہے کہ ۔۔۔غیرت نام ہے جسکا گئی تیمور کے گھر سے ۔۔۔ کالے کرتوتوں پر پردہ ڈالنے کا فیشن اب بہروپئیوں کی طرز پر چل نکلا ہے،ووٹ مانگنے ہیں تو نظریے کا ڈھنڈورا پیٹ ڈالا یا مذہب کو آڑ بنا لیا،حرام خوری سے کمائی دولت کو ایک حج کے سائے میں دھلانایا کسی مسجد و مدرسہ کوچند ٹکے امداد یا چندے کے نام پر دیکر یہ سمجھتے ہیں کہ پاکبازی میں ان کا کوئی ثانی نہیں ،،وہ مرد جو کہ لڑکیوں کے کپڑے پہن کر معاشرے کو یہ باور کر واتے ہیں کہ ”یہ فیشن ہے”ان میں اور اپنی حرام کی کمائی کو کلین چٹ دلوانے والوں میںکوئی خاص فرق نہیں،سب سے زیادہ اسی بہروپی پن میں صحافت بدنام ہوئی ہے،درجہ چہارم کے ملازم کیلئے تمام قاعدے قوانین لاگو ہوتے ہیں مگر ریاست کے چوتھے ستون کیلئے پڑھا لکھا ہونا بھی ضروری نہیں سمجھا جاتا بس جو خود کھا آئے اور ان کیلئے لے آئے یہی اصول،ضابطہ اور قاعدہ لاگو ہوتا ہے،اس بہروپیئے پن کی وجہ سے ہمارا معاشرہ زوال کی طرف جا رہا ہے۔
حقیقتاً یہ وہ عناصر ہیں جن کا میں بالائی سطور میں ذکر کر چکا ہوں جو کسی بھی انسانی معاشرے کے ماتھے کا جھومر ہوتے ہیںاور اس کے حسن کو بامِ عروج تک پہنچانے کے ساتھ ساتھ اس کی عزت اور وقار میں بھی ایک غیر متناہی اضافے کا سبب بنتے ہیں اور یہی وہ عناصر بھی ہیں جو کسی بھی معاشرے کے افراد پر کچھ اس طرح اثر انداز ہوتے ہیں کہ وہ بڑی تیزی کے ساتھ ترقی کی منازل طے کراتیہیں مگر اب یہ ستم ظریفی کے سبب سچ کو جھوٹ کے پردوں میں چھپا کر جاہل و گنوار اور دیہاڑی داروں کے ہاتھوںدوسرے کی ٹانگیںکھینچنے اور پگڑیاں اچھالنے تک باقی رہ گئے ہیں، جس معاشرے کا علمی اور اخلاقی ارتقاء رک جائے، وہ اپنی اہمیت تو کھو دیتا ہے اور ساتھ ہی ناکامیاں بھی اس کا مقدر رہ جاتی ہیں۔
اس میں کسی شک و شبہ کی بھی گنجائش نہیں رہتی کہ ترقی اور عروج کے بنیادی محرکات میں بھی یہی بہروپئیے رکاوٹ بنتے ہیں،ان ناکامیوں اور معاشرے کو زوال پذیر کروانے میں ان خباثتوں کا بڑا حصہ شامل ہے، عملی طور پر ہم ایک ایسا معاشرہ تخلیق کر چکے ہیں جو ثقافت اور روشن خیالی کے نام پر ہماری اعلی اخلاقی اقدار کا جنازہ نکالنے پر تلا ہوا ہے،ایسے حالات میں جب آنکھیں تو سب کچھ دیکھتی ہیں مگر زبانیں شل ہیں اور ذمہ داریاں راہ فرار پر مجبور کر رہی ہیں ان مجبوریوں کے خمار سے باہر نکل کر معاشرے کے ہر فرد کو اپنا کلیدی کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے،معاشرے میں پھیلے ہوئے ایسے بہروپیئوں کو بے نقاب کرنا ہو گا وگرنہ ہمارے معاشرے کی بگاڑ میں کوئی اور نہیں ہم ہی ذمہ دار ہو نگے اگر خدانخواستہ جب حالات کنٹرول سے بھی باہر ہو گئے تو تب پانی بھی سر سے گزر جائیگا اور پھر سوائے پچھتاوے کے کچھ بھی حاصل نہ ہوگا۔