Benjamin Netanyahu and König Hamad bin Isa Al Khalifa
بحرین (اصل میڈیا ڈیسک) عرب بہار کے دوران بحرین کے بادشاہ نے اپنے ملک میں مظاہروں کو بری طرح کچلا ، مظاہرین کا خون بہایا ۔اس رویے نےاس بادشاہت کے کردار کو ہی تبدیل کر دیا۔ تب سے بحرین کی سیاسی فضا اتنی ہی جابرانہ ہو گئی ہے جتنی سعودی عرب میں ہے۔
بحرین کی بادشاہت نے ابھی حال ہی میں اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے کا فیصلہ کیا تو اس کے بارے میں مثبت سرخیاں عالمی میڈیا کی رپورٹننگ کی زینت بنیں۔ اسرائیل کے وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو جلد ہی اس ملک کا دورہ بھی کرنے والے ہیں۔
اس نئی پیش رفت کے سبب بحرین کا تاریک پہلو پس منظر میں چلا گیا ہے تاہم اسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
اس میں شک کی کوئی گنجائش نہیں کہ بحرین کا ایک تاریک پہلو بھی ہے۔ بحرین ایک سخت گیر پولیس ریاست ہے۔ 2011ء میں عرب بہار کے دوران بحرین کے بادشاہ نے اپنے ملک میں مظاہروں کو بری طرح کچلا اور مظاہرین کا خون بہایا اور اس رویے نے اس بادشاہت کے کردار کو ہی تبدیل کر دیا۔
تب سے بحرین کی سیاسی فضا اتنی ہی جابرانہ ہو گئی ہے جتنی سعودی عرب میں ہے۔
بحرین کا تشخص کئی سالوں سے بہت خراب ہے۔ یہ ملک برسوں سے واشنگٹن میں لابیئنگ کرنے والوں پر بہت زیادہ رقوم خرچ کر رہا ہے۔
خلیج فارس میں اسرائیل کا نیا دوست نہ صرف غیر جمہوری ہے، بلکہ خاص طور پر جابرانہ پولیس ریاست ہے جس میں ایک سنی اقلیت شیعہ اکثریت پر حکمرانی کر رہی ہے۔ جب سے بادشاہ حماد بن عیسیٰ الخلیفہ نے نو سال قبل ایک جمہوری تحریک کو خون خرابے سے دبا دیا تھا تب سے وہاں کے عوام میں ایک خوف پایا جاتا ہے۔
عرب بہار کے دوران بحرین میں ایک لاکھ سے زیادہ افراد مظاہروں میں شریک ہوئے، یہ اس ریاست کی کُل آبادی کا پانچواں حصہ بنتا ہے۔
تناسب کے اعتبار سے دیکھا جائے تو عرب بہار کے دوران کسی دوسرے ملک عوام کی اتنی بڑی تعداد سڑکوں پر نہیں نکلی تھی۔ بحرین کے عوام کیا چاہتے تھے؟
وہ اپنے حکمران بادشاہ کو ان کا عوام سے کیا ہوا وعدہ یاد دلانا چاہتے تھے، یعنی بحرین کو ایک آئینی بادشاہت بنانے کا وعدہ۔
اس چھوٹی سی ریاست بحرین کے بنیادی مسائل کی جڑیں عشروں پرانی ہیں۔ شیعہ عوام یہ محسوس کرتے ہیں کہ اُن کو سُنی شاہی خاندان دوسرے درجے کا شہری سمجھتا ہے۔
یہ تنازعہ مگر مذہبی نہیں ہے کیونکہ بادشاہ سے جو مطالبات کیے جا رہے ہیں وہ خاص طور سے سیاسی نوعیت کے ہیں۔ کچھ با اثر شیعہ خاندان حکمران بادشاہ کے معاون ہیں تو دوسری طرف اپوزیشن کیمپ میں سُنی بھی شامل ہیں۔
بحرین کے بادشاہ کو بیرونی امداد 2011ء میں بحرین کے عرب بہار کے دوران چند ہفتوں تک تو خلیجی ممالک خاموشی سے بحرین کی صورتحال کا جائزہ لیتے رہے پھر سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے اپنے اپنے فوجی بحرین کے حکمران کی مدد کے لیے روانہ کیے۔
ان فوجیوں نے مظاہرین کو طاقت کے زور پر کچلا اور منامہ میں مظاہروں کے گڑھ یعنی پرل اسکوائر کو منہدم کر دیا۔
ماناما میں لاکھوں حکومت مخالفین سڑکوں پر۔
ماضی کا بحرین جزیرے پر مشتمل ریاست بحرین کا سائز جرمن شہر ہیمبرگ جتنا ہے۔ تیل کی برآمد کرنے والا یہ خلیج کا پہلا ملک تھا۔ یہ بات ہے 1934ء کی۔ یعنی اس ریاست کا مغربی دنیا سے رابطہ بہت پہلے سے ہے۔
اس کے اثرات گہرے ثابت ہوئے۔ کئی دہائیاں قبل سے ہی بحرین میں مختلف یونینیں تھیں۔ الکوحل کی فروخت پر پابندی نہیں۔ سعودیوں کے لیے یہ ایک تفریحی مقام ہے جہاں وہ ایک پُل پار کر کے پہنچ سکتے ہیں۔
خلیج میں یہ ایک منفرد ریاست ہے اور دارالحکومت منامہ میں یہودیوں کی ایک عبادت گاہ یعنی سیناگاگ بھی موجود ہے۔ یہاں یہودی برادری کے 30 ارکان آباد ہیں۔
بحرین غیر ملکی صحافیوں کے لیے اب تقریباً ایک ‘نو گو ایریا‘ بن چکا ہے۔ رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز کے پریس فریڈم انڈکس پر بحرین سعودی عرب سے محض ایک درجہ پہلے یعنی 169ویں نمبر پر ہے۔
دوسری طرف یہ خلیجی ریاست اسٹریٹیجک حوالے سے انتہائی اہم ہے کیونکہ یہاں امریکی بحریہ کا پانچواں فلیٹ تعینات ہے۔ اس وجہ سے بحرین کا شاہی خاندان واشنگٹن کی سخت تنقید سے بچا رہا۔
2004ء میں بحرین میں منعقد ہونے والی فارمولا ون ریس نے ملک کی گرتی ہوئی ساکھ کو بچانے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ بحرین کے لیے اسرائیل کے ساتھ امن معاہدہ کہیں زیادہ اہم ثابت ہوا ہے جسے عالمی پریس میں بہت ہی مثبت اقدام کے طور پر اجاگر کیا گیا۔
بحرین پر سعودی بادشاہت چھائی ہوئی ہے۔
عرب بہار کے بعد خلیجی ریاست بحرین کو اب ایک نئی راہ اختیار کرنے کا موقع مل گیا ہے۔ کچھ عرصہ قبل بحرین کے بادشاہ کے چچا خلیفہ بن سلمان اور قریب پچاس سال یعنی ریاست بحرین کے قیام کے بعد سے چلے آ رہے وزیر اعظم کا انتقال ہو گیا۔
ان سے بہت سے بحرینی باشندے نفرت کرتے تھے کیونکہ وہ انہیں اپنے ملک میں پائی جانے والی کرپشن کا منبع سمجھتے تھے۔ خلیفہ کے انتقال کے بعد بحرین کے سخت گیر موقف کے حامل عناصر کی سیاسی قوت ختم ہو گئی۔
بادشاہ نے اپنے بیٹے سلمان کو نیا حکومتی سربراہ مقرر کر دیا اور یہ اعتدال پسند اور اصلاح پسند مانے جاتے ہیں۔
تاہم یہ سوال ابھی جواب طلب ہے کہ آیا اس سے صورتحال پر کوئی فرق پڑے گا کیونکہ یہ ملک اپنے زیادہ تر فیصلوں کا اختیار نہیں رکھتا اور کم از کم 2011ء کے بعد سے بحرین کے تمام اہم فیصلے سعودی دارالحکومت ریاض میں ہی ہوتے ہیں۔