تحریر : ممتاز خان حضرت علی فرماتے ہیں کفر کی حکومت قائم رہ سکتی ہے ظلم کی نہیں۔ دنیا کی تاریخ میں ایسے بہت سے راہنما گزرے ہیں جنہوں ے بڑے طویل عرصے کیلئے جیلیں کاٹیں اور اپنی زند گی کا پیشترحصہ زندانوں کی نظر کر دیا۔ جنگِ آزادی میں مولانا محمد علی جوہر، مولانا شوکت علی، سردار عبدالرب نشتر، حفیظ جالندھری، مہاتما گاندھی، علی برادران، مولانا حسرت موہانی، خان عبدالغفار خان، پنڈت جواہر لال نہرو، سورش کاشمیری، عطا اللہ شاہ بخاری اور ایسے ہی ہزاروں کارکن قیدو بند کی صعوبتوں سے گزرے تو تب کہیں جا کر آزادی کی صبح نصیب ہو سکی۔ پاکستان میں مولانا ابو الاعلی مودودی ،ذولفقار علی بھٹو، میاںمحمد نواز شریف،محترمہ بے نظیر بھٹو ، آصف علی زرداری،جہانگیر بدر،سید یوسف رضا گیلانی،تاجی کھوکھر اور ہزاروں متوالوں اورجیالوں نے جیلوں کی بلند و بالا دیواروں کی اذیتوں میں اپنی زندگی کے قیمتی شب و روز گزار کر جمہوری سفر کو ممکن بنایا ۔پاکستانی تاریخ میں میں سے کو ئی ایک بھی ا یسا قائد نہیں ہے جو اقتدار سے بے دخل کیا گیا ہو اور پھر 14 سالوں کے بعد دوبارہ اقتدار کے ایوانوں میں واپس آیا ہو۔
شاہِ ایران اقتدار کے بعد در بدر کی ٹھوکریں کھاتا رہا لیکن ایران کا تاج و تخت اسے دوبارہ نصیب نہ ہو سکا وہ تاج و تخت کی حسرت دل میں لئے جہانِ فانی سے رخصت ہو گیا لیکن ایران کی مٹی کو چھونا اسے نصیب نہ ہو سکا۔یہی سب کچھ ا فغانستان کے بادشاہ ظاہر شاہ کے ساتھ بھی ہوا،اس نے ساری عمر جلاوطنی میں گزار دی لیکن افغانستان کا قتدار اس کا مقدر نہ بن سکا۔ سیاست کا میدان بڑا ہی سنگدل ہوتاہے اس میں ایک دفعہ نکالے گئے حکمران کی واپسی کو کوئی بھی قبول کرنے کیلئے تیار نہیں ہوتا اور یوں اقتدار سے بے دخل کیا گیا انسان حسر ت و یاس کی تصویر بنا دوسرے جہان کی راہ لیتا ہے۔جنوبی افریقہ کے نیلسن منڈیلا نے بطلِ حریت کی حیثیت میں زندگی کے 28 سال جیل کی نذر کئے تو وہ اس وقت کسی منصب پر فائز نہیں تھے بلکہ اسی طویل جیل نے انھیں عزت و احترام کی ایسی مسند عطا کی جو بہت کم انسانوں کے حصے میں آیا کرتی ہے۔پاکستان کی سیاسی تاریخ کا اگر بغور جائزہ لیں تو اس میں ذ ولفقار علی بھٹو ایک ایسے قائد کی صورت میں ہمارے سامنے آئے جنہیں عوام نے1970کے انتخا بات میں اپنی بے پناہ محبت سے نوازا تھا اور وہ پاکستان کے پہلے منتخب وزیرِ اعظم کے اعزاز سے سرفراز کیا تھا لیکن جنرل ضیا ا لحق کے شب خون کے بعد انھیں جس طرح راستے سے ہٹا کر تختہِ دار پر کھینچ دیا گیا تھا وہ تاریخ کا انتہائی المناک باب ہے جسے بھولنا کسی کیلئے بھی ممکن نہیں۔
عالمی طاقتوں اور اسلامی ممالک کی طرف سے اس با ت کی کوشش کی گئی تھی کہ کسی طرح سے کوئی ایسی راہ نکالی جائے جس سے ذ ولفقار علی بھٹو کی جان بچ جائے لیکن وہ سارے اس میں ناکام ہو گئے کیونکہ جنرل ضیا الحق ذ ولفقار علی بھٹو کی جان بخشی کیلئے کسی بھی قیمت پر تیار نہیں تھا۔ وہ ذ ولفقار علی بھٹو کے بچ جانے کو اپنی موت تصور کرتا تھا لہذا اس نے ذ ولفقار علی بھٹو کی جان بخشی کرنے سے معذرت کر لی تھی اور وہ کچھ کر ڈالا تھا جس نے پاکستانی سیاست کو نفرتوں اور انتقام کی بھینٹ چڑھا ڈالا۔ جس ملک کا انصاف ہماری گونگی بہری اندھی اشرافیہ (متحدہ پاکستا ن سے لے کر ۔۔۔نجانے کب تک۔۔)کی مانند محواستراحت ہوجہاں آنکھوں پر بغض تعصب وکینہ کی دبیز تہہ جم چکی ہو جہاں اخلاقیات خلوص اور ایمان کاجنازہ نکل چکاہوجہاں ہوس اقتدارحصول تاج اور انتقام کاجہنم سلگ رہاہو وہاںامتیاز عرف تاجی کھوکھر جیسے افراد کے لیئے انسانی برابری کے تصورات دم توڑ دیتے ہیں۔ تاجی کھوکھرنے ایک زمیندار متوسط طبقے کے گھرانے میں آنکھ کھولی ،ابتدائی تعلیم کے بعد اپنے والد حاجی اللہ دتہ کھوکھر کی زیرنگرانی اپنی پراپرٹی اور کاروباری معاملات سنبھالے ،آئو دیکھا نہ تائو اپنے پرائے سب سے گٹھ جوڑ کیا،دن رات کی محنت،سیدھی اور کھری بات باالخصوص لین دین کی شفافیت نے ان کی شہرت اور پراپرٹی کے کاروبار کو چار چاند لگادئییاس کے باوجودکبھی تکبر اور غرور کی جھلک تاجی کھوکھر کے ماتھے کی شکن نہ بن سکی،ڈیرہ تاجی کھوکھر قائم ہوا تو غریب لوگوں ،نابینا،معذور،بیوائوں اور یتیموں کے سروں پر دست شفقت رکھا گیا،وہاں نفرت کی جگہ پیار اور محبت کے جذبوں کو فروغ دیاگیا،انسانی اقدار کے ساتھ ڈیرہ میں قائم نجی چڑیا گھر کے جانوروں،پرندوں اور حشرات الارض یعنی شیروں کی جوڑی،چڑیااور طوطے سے لیکرمگر مچھ اور سانپ (اژدھے) کی پرورش کا اعلیٰ نمونہ پیش کرکے انسان دوستی کا پیغام عام کیا گیالیکن حاسدین کو ان کی یہ ادائیں غریب پروری اور کاروباری عروج ایک آنکھ نہ بھایا ،ان پر کئی بار قاتلانہ حملے ہوئے،قتل اور اقدام قتل کے درجنوں مقدمات میں وہ کئی سال ملک کی مختلف جیلوں میں پابند سلاسل بھی رہے اور کئی مقدمات میں میں بری بھی ہوئے،،پیپلز پارٹی کے بانی شہید ذوالفقار علی بھٹو کی بیٹی رانی محترمہ بے نظیر بھٹو شہید بھی تاجی کھوکھر کی انسان دوستی کی معترف تھیں،یہی وجہ ہے کہ ان کا سابق صدر آصف علی زرداری کے قریبی ساتھیوں میں شمار ہوتا ہے۔
Zulfiqar Ali Bhutto
پاکستانی سیاست پچھلی کئی دہائیوں سے بھٹو اور اینٹی بھٹو سوچ کی اسیر رہی اور اس نے تصادم اور نفرتوں کو ایسی ہوا دی جس سے پاکستان کی ساری منتخب حکومتیں اپنی آئینی مدت پوری کرنے سے قاصر رہیں۔ اور2008 کی اسمبلیاں اپنی مدت پوری کرنے والی دو ایسی اسمبلیاں ہیں جن میں سے ایک تو جنرل پرویز مشرف کی نظرِ کرم کی بدولت تھی جبکہ دوسری اسمبلی ساری جمہوری قوتوں کی باہمی رضا مندی اور کوششوں سے پانچ سال پورے کرنے میں کامیاب ہوئی اور میاں محمد نواز شریف 14سالوں کے بعد وزارتِ عظمی کی اس مسند پر دوبارہ جلوہ افروز ہوئے جو ان سے جنرل پرویز مشرف نے ایک فوجی شب خون میں 12 اکتوبر 1999میں چھین لی تھی۔آج کل وہی جنرل پرویز مشرف اپنی بیٹی کے گھر کراچی میں نظر بند ہے اور اس نے جنہیں زندانوں کی صعوبتوں کے حو الے کیا تھا وہ بر سرِ اقتدار ہیں۔ آئین کا آرٹیکل چھ آئین شکن جنرل پرویز مشرف کے سر پر ایک ننگی تلوار کی طرح لٹک رہا ہے ۔ جنرل پرویز مشرف نے کب سوچا ہو گا کہ میاں محمد نواز شریف ایک دن وزیرِ اعظم پاکستان بن جائیں گئے اوروہ اپنے ہی گھر میں اسیر ہو جائے گا اور اس کی اپنی جان عدالت کے رحم و کرم پر ہو گی۔ تاریخ کا کھیل بھی بڑا عجیب و غریب اور بے رحم ہے۔یہ کسی کے ساتھ رورعائت نہیں کرتا۔بادشاہ گدا گر بن جاتے ہیں اور جلا وطنی کا زہر پینے والے مظلوم لوگ بادشاہ بن جاتے ہیں۔قر آنِ حکیم اس طرح کے بے شمار واقعات کا ذکر کرتا ہے لیکن ہم ان واقعات سے سبق سیکھنے کی بجائے انھیں واقعاتی اور تاریخی رنگ دے کر آگے بڑھ جاتے ہیں اور ا ن کے اندر چھپی حکمت سے کوئی سبق سیکھنے کی کوشش نہیں کرتے۔ ہم اپنی اکڑ فوں اور غروروتمکنت میں وہ کچھ کر جاتے ہیں جو انصاف،حکمت اور انسانیت کے تقاضوں کے خلاف ہوتا ہے۔
تاجی کھوکھر نے سینکڑوں بیوائوں یتیموں نا بینائوں کے وظیفے ماہانہ ششماہی اور سالانہ مقرر کئے جو آج تک ان کو مل رہے ہیں عوام الناس کی خدمت پر نظر ڈالیں تو لال مسجد سے متصل جامعہ حفظہ تعمیر کرائی کئی ہائوسنگ اسکیموں میں مساجد اور مدارس تعمیر کرائے جیل میں ندار قیدیوں کی مالی مدد کی اور ان کو رہا کرایا قیدیوں کی فلاح و بہبود کے لاتعداد کام کرائے لیکن دوسری طرف گناہ ناکردہ میں ان کے جیل جانے کے بعد لاتعداد غریبوں کے چولہے ٹھنڈے پڑ گئے افواہوں کا شکار عام فہم لوگ کہتے ہیں کہ ڈیرہ تاجی کھوکھر خوف دہشت کی علامت ہے لین واقفان اسے دار الامن قرار دیتے ہیں جو مجبور و مقہر لوگوں کا سائبان ہے۔ جب آسف علی زرداری کو نیب کے بعض مقدمات میں سزا یا جیل ہوئی تو احتساب عدالتوں میں پیشی ہو یا لانڈ ھی جیل سے اڈیالہ جیل تک کا سفر تاجی کھوکھر جسم کے سائے کی مانند ان کے ساتھ رہتے،ان کے بڑے بھائی قومی اسمبلی کے سابق ڈپٹی اسپیکر حاجی نواز کھوکھر،دوسرے بھائی راولپنڈی کے سابق ضلعی نائب ناظم افضل کھوکھر اور بھتیجے سابق وزیراعظم کے مشیر مصطفےٰ نواز کھوکھر،ان کے بڑے بیٹے اور چھوٹے بیٹے فرخ کھوکھر کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں،دشمن داری اور ڈیرہ تاجی کھوکھر کی قلعہ نما فصیلوں میں کھڑی وفادار اسلحہ بردار فورس اور دیواروں پر جڑے ہوئے جانوروں کی کھالوں والے مجسموں کے باعث اگرچہ ڈیرہ تاجی کھوکھر دہشت اور خوف کی علامت سمجھا جاتا ہے لیکن ڈیرہ کے قواعدو ضوابط کو فالو کرنے کے بعد جب کوئی شخص اندر پہنچتا ہے تو ڈیرہ کے مکینوں کی روائیتی مہمانداری اور خلوص سے گرویدہ ہوکر وہیں کا ہوکر رہ جاتا ہے،ڈیرہ کے صولوں میں سب سے بڑ اصول وفاداری کو تصور کیا جاتا ہے ،غداروں کیلئے وہاں کوئی جگہ نہیں ہے،تاجی کھوکھر کو رئیل سٹیٹ کے شعبہ میں قابل فخر کامیابی حاصل کرنے والے بحریہ ٹائون کے سربراہ ملک ریاض کا انتہائی معتقد ساتھی بھی سمجھا جاتا ہے،ان پر الزام ہے کہ وہ ملک ریاض کے مفادات کیلئے کام کررہے ہیں، ملک ریاض جنہوں نے غربت دیکھی،پیسہ نہ ہونے کی وجہ سے آٹھ آٹھ کلو میٹر پیدل سفر کیا،جن کے پاس اپنی بیٹی کے علاج کیلئے بھی پیسہ نہ تھا،ایسے ہی جیسے اگر امریکی سیاہ فام شخص اوباما 47 برس کی عمر میں امریکہ کا صدر بن سکتا ہے،دکانوں پر کوکا کولا کی بوتلیں سپلائی کرنے والا امریکی وارن بفٹ دنیا کا دوسرا امیر ترین شخص بن سکتا ہے تو آج ملک ریاض کے پاس جو کچھ بھی ہے وہ بھی اللہ کی دین ہے اور ان کے 75 فیصد اثاثے فلاحی مقاصد کیلئے استعمال ہورہے ہیں،ملک میں زلزلہ آئے یا سیلاب، تھر کی قحط سالی ہو یا یتیم بچیوں کی شادیوں کا مسئلہ،بحریہ ویلفیئر ویلیجز،مساجداور ہسپتالوں کی تعمیر،بحریہ دستر خواں ہو یا قزاقوں سے مغوی پاکستانیوں کی رہائی کا معاملہ ملک ریاض نے کھربوں روپے خرچ کیئے ہیںکسی حسد اور بغض کی بجائے ان کی انسانی اور سماجی خدمات کو بھی یاد رکھا جانا چاہیئے،،ملک ریاض اور ان کے بیٹے احمد علی ریاض ملک جنہوں نے کبھی چڑیا کاپر بھی نہیں کاٹا ان پر بھی اقدام قتل اور زمینوں پر قبضے کے بے شمار مقدمات درج ہوئے ،موجودہ وزیرداخلہ چوہدری نثار علی خان اور ملک ریاض کے مابین رنجش کی وجہ سے ملک ریاض اور تاجی کھوکھر کی دوستی کا جرم واقعی ناقابل معافی تھا ،ان پر سیکورٹی کے دلخراش سانحات کو بنیاد بناتے ہوئے جھوٹے مقدمات قائم کیئے گئے ۔ وہ وقت پتا نہیں کب آئے گا جب انتقام کی آگ بجھے گی اور اقتدارکی شمع غریبوں کی محرومیوں کو دور کرنے کیلئے روشن رہیگی۔
یہ ساری داستانیں انسانوں کی بے راہ روی اور ا نصاف کا خون کرنے کے تباہ کن مضمرات کا بیان ہیں لہذا جس نے تاریخ کے ااندر بیان کردہ اس بے رحم سبق کو از بر یاد کرلیا اور انصا ف کا علم تھام لیا انھیں موت سے بھی مارا نہ جا سکا بلکہ وہ ہمیشہ کیلئے زندہ و جاوید ہوجاتا ہے،آزادی اور سونامی مارچ کے بعد دھرنوں سے پیدا ہونیوالی صورتحال میں پیپلز پارٹی سمیت تمام سیاسی جماعتوں نیوزیراعظم نواز شریف کا بھرپور ساتھ دیا ہے، لہذا امید کی جاتی ہے کہ ان کے اندر صبرو تحمل اور برداشت کا مادہ کافی مضبوط ہو گا اور وہ ایک مختلف انسان کے روپ میں ہمارے سامنے آئیں گئے۔اگر وہ اب بھی اناکے قیدی بنے رہے تو یہ پاکستان کی بڑی بد قسمتی ہوگی۔ قوم اپنے مسائل کا حل چاہتی ہے ۔وہ اپنی تکالیف کا ازالہ چاہتی ہے جسے وہ سا لہا سال سے برداشت کر رہی ہے۔میاں محمد نواز شریف کو ایک روا ئتی سیاست دان کی بجائے ایک مدبر سیا ستدان کے روپ میں سامنے آنا ہو گا۔وہ چونکہ خود بہت ہی کٹھن دور سے گزرے ہیں لہذا انھیں احساس ہو گا کہ تکالیف کیا ہوتی ہیں اور ان کا درد کتنا شدید ہوتا ہے۔انھوں نے جیلوں کو بھی دیکھا ہے۔جلا وطنی کو بھی برداشت کیا ہے۔وطن کی مٹی اور اس کے عوام سے سالہا سال دوریوں کا زہر بھی پیا ہے لہذا ان کے اندر پاکستان کی تشکیلِ نو ،عوام کی حالت زار کو بدلنے اور ان کے مسائل کو حل کرنے کیلئے ان کے سینے میں ایک امنگ اور تڑپ ہو گی جو انھیں ہمہ وقت بے چین کئے ہو گی۔خدا کرے وہ انتقام کی چھپی ہوئی چنگاری کو بجھاکر اپنے جذبوں کو عمل کا روپ عطا کر سکیں اورعوامی توقعات پر پورا اتر سکیں۔ہماری دعائیں ان کے ساتھ ہیں۔