کہاں بیت اللہ اور کہاں صنعائے یمن میں گرجاگھر

khana kaba

khana kaba

تحریر: رضوان اللہ پشاوری
شاہ حبشہ نجاشی بہت پہلے سے حرمین شریفین کی تاق میں تھا کیونکہ حرمین شریفین کو عازمین حج کے علاوہ بہت سے لوگ حتی کہ دنیا کے کونے کونے سے جوق درجوق آتے رہتے ہیں، آخر کار شاہ حبشہ نجاشی (ابرہہ) سے یہ برداشت نہ ہوسکا تو اس نے یمن کے دارالخلافہ صنعاء میں ایک مرصع گرجا بنالیا تا کہ سادہ لوح لوگوں کااس کی طرف بھی آنا شروع ہوجائے،اور اس گھر کا بھی طواف شروع ہوجائے،جب اہل عرب کو ان یمنیوں کے خبیث نتائج کاعلم ہوا تو بنی کنانہ کے ایک آدمی نے جاکر اس گرجا گھر میں پائخانہ کرلیا،جب شاہ حبشہ کو اس کا علم ہواتو شاہ حبشہ نے خانہ کعبہ کے مسمار ہونے کا مصمم ارادہ کرلیا، شاہ حبشہ نے اپنی فوج کشی کرلی۔

فوجی دستہ کوتیار کرلیا،تاکہ خانہ کعبہ کو مسمار کرلیں،شاہ حبشہ اپنے علاقہ سے نکل کر جب حرمین شریفین میں داخل ہونے لگے تو خانہ کعبہ کے آس پاس قریش اور آقائے نامدار کے جد امجد عبدالمطلب (جو قریش کے سرداروں میں سے ایک تھے قریش ایک مضبوط سمندری جانور کو نام ہے جو سب جانوروں کو کھا جاتا ہے تو اسی طرح قریش بھی اپنی بہادری کی وجہ سے سب قبیلوں پر غالب رہے)کے اونٹ چرایا کرتے تھے،شاہ حبشہ نے ان سب جانوروں کو بھی اپنی گرفت میں لے لیا، عبد المطلب شاہ حبشہ کے ملنے کے لیے گئے اللہ تعالیٰ نے عبدالمطلب کو رعب، دبدبہ اور وقار دیا تھا، شاہ حبشہ نے عبدالمطلب کو اپنے ساتھ تخت پر بیٹھنا مناسب نہیں سمجھا تو خود بھی اتر کر نیچے زمین پر بیٹھ گئے اور بات چیت شروع ہوگئی۔

باتوں باتوں میں عبدالمطلب نے اپنے اونٹوں کی رہائی کی بات کر لی تو اس پر ابرہہ نے کہا کہ عجیب بات ہے میں آپ کے اور آپ کے آباؤاجداد کے قبلہ کو مسمار کرنے کے لیے آیا ہوں اور آپ نے اس کے بارے میں کچھ بھی نہیں پوچھا اور اس کی کوئی فکر نہیں اور پنے اونٹوں کی فکر لاحق ہے۔ ؟ تو عبدالمطلب نے جو جواب دیا وہ بھی سُننے کے قابل ہے، حضرت عبدالمطلب نے کہا کہ میں اونٹوں کا مالک ہوں اس لیے میں نے اونٹوں کا پوچھ لیا،اور خانہ کعبہ کا مالک اللہ تبارک وتعالیٰ ہے وہ خود اپنے گھر کی پوچھ گچھ کریں گے، اس پر ابرہہ نے حضرت عبدالمطلب کے اونٹوں کے رہائی کاحکم صادر کر لیا۔

Camel

Camel

عبدالمطلب نے اپنے تمام اونٹ لے کر خانہ کعبہ کی نذر کر لیے، اپنے ساتھ چند اور نوجوانوں کو لیکر خانہ کعبہ کی چوکھٹ کر آ گئے اور بارگاہ لایزال کی درگاہ میں خوب رو رو کر دعائیں مانگ لی، عبدالمطلب نے قریش کو کہلا بھیجا کہ تمام قریش اوپر وادی کو چڑھ کر مکہ مکرمہ خالی کر دے، قریش نے مکہ مکرمہ خالی کر لیا اور تمام قریش اوپر چڑھ گئے۔ جب ابرہہ کی لشکر خانہ خدا کومسمار کرنے کے لیے آگے بڑھ گئی تو یکایک آسمان پر پرندوں کی ایک غول نظر آگئی اس پرندوں کے چونچ اور پنجوں میں ایک ایک پتھر تھا، پرندوں نے اوپر سے ابرہہ کی لشکر پربمباری شروع کردی، اور کمال کی بات یہ تھی کہ یہ پتھر گولی سے بھی زیادہ اثر کرتی تھی، جب کسی سوار کے سر پر پتھر گرتا تھا تونیچے ہاتھی سے بھی ہو کر گذر جاتاتھا،اللہ تعالیٰ نے ابرہہ کی تمام لشکر کو وہاں پر نیست ونابود کردیاابرہہ کا سارا لشکر وہاں پر ہلاک ہوگیاپھر اللہ تعالیٰ نے ان خبیثوں سے مکہ مکرمہ کو پا نی کے ذریعہ صاف کر دیا پانی ان کو بہا کر لے گئی۔

ابرہہ کے بدن پر چیچک کے دانے نکل گئے جب وہ اپنے بدن کی کسی جگہ کو کریدتاتھا تو وہاں سے پیپ اور خون نکل جاتا تھا، ابرہہ کے بدن کا ایک ایک عضو گل سڑھ کر گرنے لگااور آخر کار یمن جاتے ہوئے گر پڑا ،گرنے کے ساتھ ہی اس کی سینہ پٹھ گئی اور اس سے دل نکل کر زمین پر گر گیا اور ایسا ہی آاللہ تعالیٰ کا یہ دشمن اپنی ابدی نیند سو گیا۔ یہ زمانہ آقائے نامدار، فخر موجودات، ہادی عالم، محمد مصطفی ،محمد مجتبیٰ، محمد عربی کی پیدائش سے تقریباً پچاس یا پچپن دن پہلے کا ہے،جب اہل مکہ نے قریش کی یہ عزت دیکھ لی تو اہل مکہ کے دلوں میں قریش کی اور بھی عزمت بڑھ گئی۔

آپس میں کہنے لگے کہ دیکھ لیا اللہ تعالیٰ نے قریش کی کیسی مددفرمائی کہ ان کو اپنے مدمقابل سے جھگڑا بھی نہیں کرنا پڑا ،بس ایک طرف آرام سے بیٹھے تھے اور اللہ تعالیٰ نے ان کے مدمقابل کوہلاک کر دیا،صرف یہ بھی نہیں بلکہ اہل عرب کے دلوں میں خانہ کعبہ کی عزمت بھی پہلے سے دوچند ہوگئی،اسی واقعہ کے پچاس یا پچپن دن بعد آقائے نامدار محمدعربی اس دنیا کو تشریف لے آئے اور انہی کے ذریعے اللہ تعالیٰ مکہ مکرمہ کو اور بھی آباد کردیا۔ قارئین کرام آمدم برسرمقصد:آج کل حرمین شریفین کے بارے میں ہر آئے دن نئے نئے نیوز آتے ہیں ۔اللہ تعالیٰ ہمارے دلوں میں بھی حرمین شریفین کی عزت ڈال دے،اور ہم سب کو اسی حرمین شرفین کی بار بار حج و عمرہ کی شکل میں حاضری نصیب فرمائے ،اللہ تعالیٰ ہمارا حامی وناصر ہو۔آمین

Rizwaniullah Peshawari

Rizwaniullah Peshawari

تحریر: رضوان اللہ پشاوری
0333-9036560/0313-5920580
rizwan.peshawarii@gmail.com