متوازن نصاب کی اہمیت

Education System in Pakistan

Education System in Pakistan

تحریر : گلزار چوھدری
بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح نے گیارہ اگست1947ء کو آئین ساز اسمبلی میں کی گئی تقریر میں واضح الفاظ میں کہا تھا ”حکومت کی اوّلین ذمہ داری ملک میں امن و امان کا قیام ہے تاکہ ریاست اپنے باشندوں کی جان و مال اور مذہبی عقائد کو مکمل تحفظ دے سکے”۔ پاکستان میں تعلیمی نصاب میں واضح تضاد پایا جاتا ہے۔یہاں چار مختلف اقسام کے نصاب اور نظام ہائے تعلیم موجود ہیں جن میں مدرسہ(مسجد مکتب)، نجی تعلیمی ادارے، انگلش میڈیم نجی تعلیمی ادارے اور سرکاری سکول شامل ہیں۔ ان تمام سکول سسٹمز میں علیحدہ علیحدہ نصاب پڑھایا جاتا ہے۔ کچھ درسی کتب میں تعصب اور نفرت پھیلانے والا مواد موجود ہے جو آئین پاکستان کے آرٹیکل 22اور بچوں کے حقوق کے حوالے سے اقوام متحدہ اس کنونشن کے بھی منافی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ بچوں کی پرورش تعصب اور مذہبی امتیاز سے پاک معاشرے میں کی جانی چاہیے تاکہ وہ ذمہ درانہ زندگی گزار سکیں۔

تحقیقی رپورٹس درسی کتب کے اس مواد کی بھی نشاندہی کرتی ہیں جس میں دیگر مذاہب کے اعتقادات کو غیر منطقی اور غیر موزوں قرار دیا گیا ہے جس سے تعصب کا احساس ابھرتا ہے اور طلبا اپنے مذہبی اعتقاد پر عملدرآمد کرتے ہوئے خوف محسوس کرتے ہیں ۔ان رپورٹس میںجامع اصلاحاتی عمل کے لیے کہاگیا ہے جس کے ذریعہ نفرت پھیلانے والے اور امتیازی مواد کو ختم کیا جاسکے ۔دوسری طرف آئین کی اٹھارہویں ترمیم کے بعددیگر صوبوں کی طرح پنجاب میں بھی نیشنل ایجوکیشن پالیسی 2009اور نیشنل کیریکولم 2006 پر عمل کیا جارہا ہے ۔پنجاب نے ابھی تک نہ تو کوئی پالیسی بنائی ہے نہ ہی نصاب ۔یہ امرقابل تحسین ہے کہ پنجاب کیریکولم اینڈ ٹیکسٹ بکس بورڈ اید ڈی پی آئی کی طرف سے درسی کتب پر نظرثانی کرنے کی سفارشات کا خیرمقدم کررہا ہے۔

16 دسمبر 2014کو آرمی پبلک سکول پشاور پر حملے کے بعد جنوری 2015 ء میں کل جماعتی کانفرنس منعقد ہوئی جس کی متفقہ سفارشات کی روشنی میں سول اور عسکری قیادت نے نیشنل ایکشن پلان تیار کیا ۔ملک میں اعلیٰ ترین سطح پر سیاسی اور فوجی قیادت میں یہ سوچ پائی جاتی ہے کہ نیشنل ایکشن پلان پر ہر صورت عمل کیا جانا چاہیے اور ان بنیادی خامیوں کو دور کیا جانا چاہیے جن کے باعث پاکستانی معاشرہ انتہاپسندی اور تعصب ، کرپشن اور عدم برداشت کی جانب بڑھ رہا ہے۔نیشنل ایکشن پلان میں بیس نکاتی حکمت عملی پر عملدرآمد کرکے انتہاپسندانہ سوچ کے خلاف ترجیحی بنیادوں پر موثر اقدامات کرنے کا اعادہ کیاگیا ہے ۔صوبوں میں ایپکس کمیٹیاں بنائی گئی ہیں جن کا مقصد نفرت ،فرقہ واریت یا مذہبی اقلیتوں کے خلاف تشدد کے خاتمے کے لیے اہم کردار کرنا ہے۔

Pakistan

Pakistan

پاکستان میں غیر مسلم شہریوں کے ساتھ امتیازی سلوک روا کی شکایات بھی عام ہیں، شہری مسیحی برادری سے ہو تو اسے دوسرے براعظم کا تصور کیا جاتا ہے جبکہ اگر غیر مسلم کا تعلق ہندو یا سکھ برادری سے ہو تو اس کو تقسیم ہند سے قبل کی طرح کے معاشرے کا حصہ سمجھا جاتا ہے ۔حقیقت یہ ہے کہ آئین پاکستان کے تحت سب اقلیتیں برابری کا درجہ رکھتی ہیں ۔امتیازی سوچ اور کچھ حد تک نفرت پھیلانے والا مواد درسی کتب میں موجود ہے ، قائد اعظم کی ایک روشن خیال معاشرے کی سوچ کو حقیقی عملی جامعہ پہنانے کے لیے ایسے مواد کو ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ بچوںکی کسی تعصب اور مذہبی امتیاز کے بغیر ایک آزاد معاشرے میں ایک ذمہ دار انہ زندگی کے لیے نشوونما ہونی چاہیے۔حکومت کو سرکاری اورنجی تعلیمی اداروں اور مدرسوں کے تعلیمی نظاموں اور نصابوں کے درمیان خلا کو پر کرنے کے لیے مزید اقدامات کرنا ہوں گے تاکہ طالب علموں کو علم کے حصول کے مساوی مواقع ملیں اور مقابلے کا رحجان پیدا ہو ۔امن اور مذہبی ہم آہنگی کے درس سے تعلیمی اداروں اور ملک میں بین المذاہب اتحاد کو فروغ ملے گا ۔آئین وفاقی اور صوبائی حکومتوں کوغیر مسلم اور اقلیتی برادریوں کے تحفظ کا ذمہ دار ٹھہراتا ہے اور انہیں دوسرے شہریوں کے مساوی حقوق کاحامل قرار دیتا ہے ۔مذہبی اقلیتوں کو بنیادی دھارے میں لانے کے لیے انہیں غیر مسلم پاکستانی قرار دیا جانا چاہیے۔

پاکستانی معاشرے میں پائی جانے والی مذہبی اور ثقافتی یکسانیت کی جھلک نصاب او ردرسی کتب میں بھی نظرآنی چاہیے ۔تما اہم تاریخی کردار چاہے وہ مسلمان ہوں یا غیر مسلم ان کو درسی کتب میں قومی ہیروز کے طور پر شامل کیا جانا چاہیے اگرچہ کچھ ہیروز کے نام پہلے ہی درسی کتب میں موجود ہیں ۔پاکستان کو پرامن بقائے باہمی ،متنوع اور ترقی کی راہ پر گامزن ملک بنانے کیلئے درسی کتب اور نصاب میں سے دیگر مذاہب کے خلاف نفرت پھیلانے والا ،متنازع اور تعصب پر مبنی مواد نکال دیا جانا چاہیے۔نصاب اور درسی کتب سے نفرت پھیلانے والے مواد کے خاتمے کو یقینی بنانے کے لیے پنجاب کیریکولم اینڈ ٹیکسٹ بکس بورڈ (PCTB)،ماہرین نصاب ،سول سوسائٹی اور تعلیمی اداروں کے متعلقہ افراد کے درمیان مربوط اور منظم رابطوںکا سلسلہ شروع کیاجانا چاہیے ۔آئین کے آرٹیکل 22اور نیشنل ایکشن پلان 2015کے مطابق ہر مذہب کی درسی کتب اور نصاب پر نظرثانی کے لیے تمام مذاہب کے اسکالرز کو اعتماد میں لیا جانا چاہیے۔اس کے علاوہ ماہرین کے ذریعہ درسی کتب اور نصاب کا تھرڈ پارٹی آڈٹ کروایا جانا چاہیے تاکہ نفرت پھیلانے والا مواد ختم کیا جاسکے۔

پنجاب ٹیکسٹ بکس بورڈ اور شعبہ تعلیم کے اعلی افسران پر کسی قسم کا سیاسی اثر ورسوخ یا دبائو نہیں ہونا چاہیے تاکہ وہ درسی کتب اور نصاب میں میرٹ پر تبدیلی کے لیے ماہرین کی آرا کا جائزہ لے سکیں ۔پبلشرز کو بھی رائٹرز اور ایڈیٹر ز پر مشتمل نصاب تیار کرنے والی ٹیم کے احکامات تسلیم کرنے کا پابند کیا جانا چاہیے ۔درسی کتب میں تبدیلی کے لیے ان کی سفارشات پر عملدرآمد کے سلسلے میں بہانے بازی مسترد کردینی چاہیے ۔نصاب کے مسودے کی منظوری کے لیے ایک مناسب نظام ہونا چاہیے ۔درسی کتب اور نصاب میں موجود نفرت پھیلانے والے مواد کو امن اور مذہبی رواداری سے متعلق مواد سے بدل دیا جانا چاہیے جس سے ایک وسعت پذیر اور روشن خیال معاشرے کے قیام کی داغ بیل پڑ ے گی ۔اگر مستقبل میں نصاب اور درسی کتب کے تفصیلی جائزے اور نظرثانی کے بعد اس میں نفرت پھیلانے والا مواد نظر آئے تو پھر حکومت ماہر نصاب کا احتساب کرسکتی ہے۔

Gulzar Choudhry

Gulzar Choudhry

تحریر : گلزار چوھدری