کراچی (جیوڈیسک) سانحہ بلدیہ کی ازسر نو جے آئی ٹی رپورٹ عدالت میں پیش کر دی گئی ہے جس میں واقعہ کو دہشت گردی قرار دے کر حماد صدیقی سمیت 8 ملزمان کو نامزد کیا گیا ہے جب کہ رپورٹ میں انیس قائم خانی کا نام شامل نہیں۔
سانحہ بلدیہ کی نئی جے آئی ٹی رپورٹ تفتیشی افسر سجاد سدوزئی نے ایڈیشنل سیشن جج غربی کی عدالت میں پیش کی جس میں کہا گیا ہے کہ واقعہ کی تحقیقات مکمل ہو چکی ہے۔ جے آئی ٹی میں سانحہ بلدیہ کو دہشت گردی کا واقعہ قرار دے کر ایم کیو ایم کے کارکن حماد صدیقی، رحمان بھولا، عمر حسین قادری، علی حسین قادری، ذبیر دہریا، ڈاکٹر عبد الستار اور اقبال ادیب خانم کو ملزمہ ٹھہرایا گیا ہے۔
اس کے علاوہ رپورٹ میں سابقہ جے آئی ٹی رپورٹ کو ختم کر کے موجودہ رپورٹ کی روشنی میں نامزد ملزمان کے خلاف دہشت گردی ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کر کے تحقیقات شروع کرنے کا کہا گیا ہے۔
جے آئی ٹی میں مزید کہا گیا ہے کہ فیکٹری کو آگ 20 کروڑ روپے بھتہ نہ دینے کی وجہ سے لگائی گئی، ایم کیو ایم کے حماد صدیقی نے اس وقت کے اورنگی ٹاؤن سیکٹر کے جوائنٹ انچارج رحمان بھولا کے ذریعے فیکٹری مالکان سے بھتہ مانگا تھا، فیکٹری مالکان نے ایم کیو ایم کے رہنماؤں سے نائن زیرو پر بھی ملاقات کی تاہم بھتے کی رقم میں کوئی کمی نہیں کی گئی، ایم کیو ایم رہنما کے کہنے پر فیکٹری کے تہہ خانے میں کیمیکل چھڑک کر آگ لگائی گئی، آگ لگانے میں فیکٹری کے کچھ ملازمین بھی ملوث تھے جن کی سیاسی وابستگی بھی تھی۔
عدالت نے تفتیشی افسر سے پوچھا کہ اصل جے آئی ٹی رپورٹ کہاں ہے جس پر عدالت کو بتایا گیا کہ اصل رپورٹ مزید کارروائی کے لئے محکمہ داخلہ کو بھیج دی گئی ہے جیسے ہی اصل رپورٹ موصول ہو گی عدالت میں پیش کر دی جائے گی۔
عدالت کی جانب سے فیکٹری مالک عبدالعزیز بھائیلہ سے متعلق پوچھے جانے پر ان کے وکیل کا کہنا تھا کہ ان کے موکل کی طبیعت ناساز ہے اور انھوں نے استثنیٰ کی درخواست دے رکھی ہے۔ عدالت نے ایک ماہ سے زائد عرصہ گزر جانے کے باوجود ملزم منصور خان کی عدم گرفتاری پر پولیس کی سرزنش کی اور کہا کہ یہ کوئی عام مقدمہ نہیں کہ آپ آرام سے کہہ دیں تعمیل نہیں ہوئی، تم سب ملے ہوئے ہو۔ عدالت نے سانحہ بلدیہ کیس کی سماعت 22 مارچ تک ملتوی کردی۔
واضح رہے کہ بلدیہ ٹاؤن میں ستمبر 2012 میں ایک فیکٹری میں آتشزدگی سے 250 سے زائد افراد جاں بحق ہو گئے تھے جس کی تحقیقات کے لئے جے آئی ٹی قائم کی گئی تھی۔