سانحہ بلدیہ ٹائون اور ہماری بے بسی

Peshawar Tragedy

Peshawar Tragedy

تحریر: حافط محمد فیصل خالد
سانحہ پشاور کے بعد حکومت نے دہشتگردی اور انتہاء پسندی کی روک تھام کیلئے قانون سازی تو کی جو کہ اپنی نوعیت کا ایک اہم فیصلہ تھا۔ مگر اس معاملے میں حکومت کے متعصبانہ فیصلوں نے ا س اہم ترین قانون سازی کی افادیت پر کئی سوالیہ نشان کھڑے کر دئیے۔اکیسویں ترمیم کے تحت مذہب او ر مسلکی بنیادوں پر ہونے والی دہشتگردی یا شدت پسندی کے مقدمات کی سماعت فوجی عدالتوں میں ہوگی تاکہ سزا و جزا کے عمل کو یقینی طور پہ شفاف بنایا جا سکے۔

مگر یہ بات فہم سے بالا تر ہے کہ وہ سیاسی جماعتیں جو سیاسی بنیادوں پر دہشتگردی یا انتہاء پسندی کی کاروائیوں میں ملوث ہیں انکو اس قانون سے اثتثنی حاصل ہو گا۔اور سیاسی جماعتوں کی جانب سے ہونے والی دہشتگردی کے مقدمات کی سماعت عام عدالتوں میں ہوگی یا زیادہ سے زیادہ ایسے واقعات کی سماعت انسدادِ دہشتگردی کی عدالتوں میں منتقل کر دیا جائے گا۔یعنی ہیں دونوں ہی انتہاء پسند مگرمذہبی انتہاء پسندوں کیلئے سزا کے تعین کا پیمانہ الگ جبکہ سیاسی انتہاء پسندوں کیلئے قوانین الگ۔ اسی اکیسویں ترمیم میں کی جانے والی ترامیم کے بعد حکومت نے مذہبی بنیادوں پر انتہاء پسندی کے فروغ کیلئے سر گرمِ عمل سزایافتہ شدت پسندوں کو سزائیں تو دیں مگرجو کہ دہشتگردی کے خلاف جنگ میں اہم قدم ہے۔

مگر دوسری جانب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سانحہ بلدیہ ٹائون کی تحقیقاتی رپورٹ منظرِ عام پہ آنے کے بعد جس میں ایک سیاسی جماعت کے رکن نے صرف بھتہ نہ ملنے پر 257 انسانی جانوں کو لقمہ اجل بنا دیا کے خلاف قانون سازی کون کرے گا؟ کیا حکومت کا کام صرف مذہبی انتہاء پسندی کو روکنا ہے؟ کیا سیاسی جماعتوں کے پالتو دہشتگردوں کے خلاف کوئی کار وائی نہیں ہو گی؟

سانحہ بلدیہ ٹائون میں جن ما ئوں کی گودیں اجڑ گئیں انکو انصاف کون فراہم کون کرے گا؟ جن سہاگنوں کے سہاگ لٹ گئے ان کی داد رسی کون کرے گا ؟ جو بچے یتیم کر دئے گئے انکی کفالت کون کرے گا ؟ جن بوڑہوں کے بڑہاپے کے سہارے چھین لئے گئے ان سہارا کون دے گا ؟ جن بہنوں سے انکے بھائی چھن گئے انکے سر پہ دستِ شفقت کون رکھے گا ؟ جن سیاسی درندوں نے چند روپوں کے عوض انسانی جانیں ضائع کر دیںانکے خلاف قانو ن سازی کون کرے گا؟
یہ وہ چند سوالات ہیں جو آج ہر پاکستانی کے دل و دماغ میں رقص کر رہے ہیں مگر متعلقہ حکام ہیں کہ سنتے ہی نہیں۔اور یہی وجہ تھی کہ حکومت کی جانب سے اکیسویں ترمیم میں متنازعہ قانون سازی کے خلاف کئی سیاسی، مذہبی جماعتوں نے احتجاج کیا اور دانشور طبقے نے حکومتی فیصلے پر اصلاح کی غرض سے اس پرتنقید بھی کی ۔ اسی جانبدارنقطے پر سول سوسائٹی نے بھی اپنے خدشات کا اظہار کیا اور حکومت سے درخواست کی کہ دہشتگردوں کو دہشتگرد ہی رہنے دیں اور انمیں مذہب یا سیاست کی بناء پر تفریق پیدا نہ کریں ۔مگر حکومت نے کسی کو ملحوظ خاطر نہ رکھا۔

Baldia Town Incident

Baldia Town Incident

آج یہ دن دیکھنے کو ملا کہ سانحہ پشاور سے بھی بڑے سانحہ بلدیہ ٹائون کے مجرم ہمارے سامنے کھڑے اپنے جرم کا اقرار کر رہے ہیں مگر ہم انکو بشمول انکی جماعتوں کے دہشتگردکہنے سے اور انکے مقدمات کو آرمی کورٹس میں پیش کرنے سے گریزاں ہیں کیونکہ ہمارا قانوں صرف مزہب یا مسلک کی بنیاد پر ہونے والی دہشتگردی کی روک تھام کو یقینی بناتا ہے نہ کہ سیاسی جماعتوں کی جانب سے کی جانے والی انتہاء پسندی کو۔ اور اگر یہ معاملات ایسے ہی چلتے رہے تو ہم مذہبی انتہاء پسندی پر تو شاید قابو پالیں گے مگر سیاسی انتہاء پسندی کی تلوار پھر بھی ہمارے سروں پر لٹکتی رہے گی۔

ہم اسی طرح دست و گریباں ہوتے رہیں گے۔ لہذا اس ساری صورتِ حل کے پیشِ نظر حکومتِ وقت سے کو چاہئے کہ مہر بانی فرما کر اپنے فیصلوں پر نظرِ ثانی کرے اور دہشتگردی کے خلاف اس جنگ میں جانبدار قانون سازی کی بجائے بلا تمیز برابری کی بنیاد پر قانون سازی کرے۔ کیونکہ دہشتگرد دہشتگرد ہی ہوتا ہے چاہے اس کا تعلق کسی مذہبی جماعت سے ہو یا کسی سیاسی جماعت سے۔

Hafiz Muhammed Faisal Khalid

Hafiz Muhammed Faisal Khalid

تحریر: حافط محمد فیصل خالد